اندر کا موسم

دور حاضرہ کے حالات و واقعات نے پوری دنیا کو بے چینی اور اداسی کا گھر بنا دیا ہے،مسکراہٹیں دبی دبی سی ہیں. آنکھیں بے نور ہیں چہروں پر خزاں رقص کرتی نذر آتی ہے .ہر خاص و عام ایک عجیب سی ہیجانی کیفیت کا شکار ہو چکا ہےکسی کو دولت و شہرت لے ڈوبی تو کسی کو غربت نے ڈس لیا .قتل و غارت معاشی بدحالی ،بے روزگاری ،قدرتی آفات، جنگ و جدل نے انسان کی زندگی سے چین و سکوں کا لفظ غائب ہی کر دیا ہے .میں نے جب سے صحافت کی ہاتھوں میں ہاتھ دیا ہے لمحہ بہ لمحہ دنیا میں رونما ہونے والے واقعات سے وابستگی گہری ہوتی جا رہی ہے جب بھی قلم اٹھایا کسی مثبت پہلو پر مثبت سوچ کی ساتھ لکھنے کی کوشش کی .مگر ارد گرد دکھوں ،بے بسی اور مایوسی کا اک باڑ سا بندھ چکا ہے آئے دن کوئی افسوس ناک واقعہ ،داستان یا کوئی منفی کردار اس قید سے نکلنے ہی نہیں دیتا الغرض مایوس کن موضوعات بکھرے پڑے ہیں جن پر دن رات بھی لکھا جائے تو کم ہے .تحریروں میں ان پہلوؤں کی نشاندہی کرنے کا مقصد بے حس حکمران کو اس کی غلطیوں کا احساس دلانا اور بے شعور عوام کو اپنا حق لینے کا شعور دینا ہوتا ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے جیسے الفاظ میں اثر نہ رہا ہو یا دونوں طبقوں نے ٹھان لی جیسا چلتا ہے چلنے دو ..اب تو کچھ لوگ بھی میڈیا کو قصور وار ٹھہرا تے ہیں کہ جب سے میڈیا عام ہوا لوگوں کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے میڈیا میں آئے دن سیاسی اور معاشی مذاکروں نے بیچینی کی فضا بنا دی ہے ٹی وی جو انٹر ٹینمنٹ کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا ٹینشن کا مرکز بن کر رہ گیا ..مگر یہاں ایک سوال ذہن میں اٹھتا ہے کیا ماضی میں بھی حالات اس قدر خراب ہوتے رہے ہیں ..اور چونکہ میڈیا اس قدر عام نہ تھا لوگ بےخبر رهتے اور سکوں سے جیتے ..

کافی غور و فکر کے بعد اس نکتہ پر توجہ آ رکی کہ پہلے کے دور میں اس قدر بے حسی اور نفسا نفسی نہ تھی پہلے کا انسان آج کے انسان سے بہت مختلف تھا طرز زندگی میں سادگی عام تھی انسان تھوڑے پر راضی تھا ،ہنسی مذاق ہوتا تھا .دکھ سکھ سانجھے تھے میل جول عام تھا .آج انسان نے خود کو ایک کمرے تک محدود کر لیا ہے .آجکل ہر چیز میں تکلف اور بناوٹ کو روایات کا حصہ مان لیا گیا ہے اس نمائشی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لئے انسان کچھ بھی کرنے کو تیار ہے پس معلوم ہوتا ہے انسان نے خود کو خود ہی پریشان کر رکھا ہے .

°°ایک سائنسی تحقیق کے مطابق آج کا انسان اس نفسا نفسی سے نکنا چاہتا ہے مگر وہ ان نمائشی زنجیروں میں بری طرح جکڑ چکا ہے .

آج کا انسان بھی سادگی میں سکوں کا متلاشی ہے ایک سروے کی مطابق دیہاتوں میں زندگی گزارنے والے لوگ ماڈرن شہروں میں جدید سہولتوں سے آراستہ پر تعیش زندگی گزارنے والوں سے زیادہ خوش اور مطمئن ہیں °°

آج مایوسی اور نکتہ چینی کی باڑ پھلانگ کر ایک الگ موضوع پر لکھ کر ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ایک تو ان لوگوں کا شکوہ دور ہو جائے جو موجودہ ڈیپریشن کا ذمہ دار میڈیا والوں کو ٹھہراتے ہیں اور دوسرا شکار یہ کہ شاید کہ اپنے بھی اندر کا موسم کچھ بدل جائے اب ہر انسان کو اپنی زندگی اور حالات کا بہتر اندازہ ہوتا ہے ہر کوئی اپنی سی کوشش کر کے حالات کی کروٹ بدل سکتا ہے اب ہماری طرح اپنوں کی خاطر دن رات خون جلانے والے تو قلم کاغذ پے دل کی حالت لکھ کر اندر کا موسم بدل لیتے ہیں قارئین کی نذر یہ گزارش ہے اگر آپ سمجھتے ہیں آپکی زندگی بھی کسی نمائشی خول میں قید ہے تو ان خود ساختہ رکاوٹوں کو توڑ کر سادگی اپنا لیں محبت کا پر چار کریں لوگوں میں گھل مل جائیں دکھی انسانیت کے دکھ بانٹ لیں اگر آپ اس بات کی گارنٹی دیں تو یقین کر لیں کسی کا دکھ دور کر کے جو خوشی آپکو حاصل ہو گی ایسی حقیقی اور سچی خوشی شاید ہی کبھی آپکو نصیب ہوئی ہو ،میری نظر میں ڈیپریشن .مایوسی کا اس سی بہتر نسخہ شاید کوئی نہیں..

جل کر نفرت سے بغاوت سے
کیا ملا ہم کو عداوت سے

زندگی سفر ہے پل بھر کا
جیو امن سے محبت سے
HASSAN WARSI
About the Author: HASSAN WARSI Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.