نذیر جونیئر، کولمبین حسینائیں اور گھاس منڈی

ایک زمانہ تھا جب کالی آندھی یعنی ویسٹ انڈیز کی ٹیم کرکٹ کی دنیا پر راج کرتی تھی۔ کرکٹ کی کسی بھی تکنیک سے اِس ٹیم کو ہرانا آسان نہ تھا۔ ایسے میں بہت سی ٹیمیں گھی ٹیڑھی انگلی سے نکالا کرتی تھیں۔ آف اسپنر نذیر جونیئر بھی پاکستانی ٹیم کے لئے ٹیڑھی اُنگلی کی طرح تھے۔ ووین رچرڈز کو نذیر جونیئر نے کئی بار آؤٹ کیا۔ بولنگ کا ہنر تو اپنی جگہ، مگر رچرڈز نے اپنے چت ہونے کا کچھ اور ہی سبب بیان کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ نذیر جونیئر بولنگ کرتے وقت اپنے بڑے بڑے دانت نکال کر ہنستے ہیں تو دھیان ہنسی کی طرف چلا جاتا ہے اور اگلے ہی لمحے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف کلین بولڈ فرما چکے ہیں!

لاہور کا قذافی اسٹیڈیم لیبیا کے لیڈر معمر قذافی سے موسوم ہے، اِس لئے کرکٹ کا کچھ اثر اب قذافی میں بھی آگیا ہے! اب اُنہوں نے بھی انقلابیوں کو زیر کرنے کے لئے وہی طریقہ اختیار کیا ہے جو پاکستان کرکٹ بورڈ نے ویسٹ انڈین کرکٹ ٹیم کے مقابل نذیر جونیئر کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے اختیار کیا تھا۔ انقلابیوں کا دعویٰ ہے کہ معمر قذافی نے جنوبی امریکہ سے کرائے کی فوجی یعنی ”فوجنیں“ درآمد کی ہیں! یہ ماہر نشانہ باز جنگجو لڑکیاں یومیہ ہزار ڈالر اُجرت لیں گی۔ اِن قاتل حیسناؤں کو انقلابیوں کی طاقت والے شہروں کی بلند عمارات پر تعینات کیا گیا ہے۔ اب انقلابیوں کی خیر نہیں۔ یہ حسینائیں نذیر جونیئر کی طرح مسکراہٹ کے گولے داغتی رہیں گی اور بے چارے انقلابی زنانہ مسکراہٹ کی گگلی سے زندگی کی پچ پر کلین بولڈ ہوتے رہیں گے! جنگ کے میدان میں صنفِ مخالف سامنے ہو تو بلا ضرورت بھی ”امن مذاکرات“ کی خواہش دل میں انگڑائیاں لینے لگتی ہے!

دنیا بھر میں لڑائی کے دوران خواتین اور بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور معمر قذافی خواتین کو تلوار بنانے پر تُلے ہوئے ہیں! آپ سوچیں گے یہ تو چیٹنگ ہے کہ جنگ کے میدان میں انقلابیوں کے سامنے حیسناؤں کو لایا جائے اور وہ میدان کے ساتھ ساتھ دل بھی ہار بیٹھیں! مگر بھئی، محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے! اور عوامی انقلاب کے جواب میں تو اِسی نوعیت کا ”انقلاب“ لایا جاسکتا ہے!

معمر قذافی واقعی ذہنی طور پر معمر ہوچکے ہیں۔ ان کی حماقت مآب حرکتوں نے بے چارے لیبیائی باشندوں کو کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ ہمارے دوست راؤ عمران نے کولمبیا کی ”نشانچیوں“ کے حوالے سے کہا کہ قذافی اوٹ پٹانگ حرکتیں کر رہے ہیں تو ہم نے عرض کیا کہ بھائی! اِن دو الفاظ میں اتنی سکت کہاں کہ معمر قذافی کی شخصیت کو بیان کرنے کا حق ادا کرسکیں! اُن کی عالی مرتبت حماقتوں کے بیان کے لئے تو پوری ”لُغت المُغَلّظات“ درکار ہے!

معمر قذافی نے پہلے تو یوکرین کی ایک نرس کے حوالے سے اپنی ”شہرت“ کا گراف بلند کیا! اور پھر رہی سہی کسر اپنی حفاظت کا ذمہ خواتین جنگجوؤں پر مشتمل ایک دستے کے سپرد کر کے پوری کردی! اب سُنا ہے کہ یہ دستہ بھی یوکرینی نرس کی طرح داغ مفارقت دے گیا ہے۔ پیسے کسے اچھے نہیں لگتے، مگر بھئی حماقت برداشت کرنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے! قذافی خود تو خیمے میں رہتے ہیں مگر اُن کے دماغ کا خیمہ اب تک عقل سے خالی ہے! ہاں، اِس دماغی صحرا میں حماقت کی ریت دور دور تک اڑتی دکھائی دیتی ہے! ثابت ہوا کہ خواتین مردوں کے پیسے پر بھی مرتی ہیں مگر صرف پیسے پر نہیں مرتیں!

خواتین اور جنگ و جدل کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ جنگ کے میدان میں اُتریں نہ اُتریں، بسا اوقات یہی تو جنگ کا میدان سجانے کا باعث بنتی رہی ہیں! خواتین کو جنگ کے میدان میں اُتارنا بھی نئی یا انوکھی بات نہیں۔ کم از کم چھاپہ مار جنگ میں تو خواتین کا کوئی ثانی نہیں۔ جب یہ میدان میں موجود نہیں ہوتیں تب بھی چھاپے مار رہی ہوتی ہیں۔ ایک صاحب کی اہلیہ دس پندرہ دن کے لئے میکے گئیں۔ ایک دن وہ صاحب نیا، چمکدار سوٹ پہن کر کہیں جانے لگے تو جیب سے پرچی برآمد ہوئی جس پر لکھا تھا۔۔ اِتنا قیمتی اور شاندار سوٹ پہن کر کہاں چلے، یہ نہ سمجھنا کہ مجھے پتہ نہیں چلے گا!

ہم کسی زمانے میں رنچھوڑ لائن کے نزدیک گھاس منڈی میں رہا کرتے تھے مگر یہ بات کسی کو بتاتے نہیں تھے۔ ڈرتے تھے کہ کہیں لوگ گھاس منڈی کا نام سُن کر یہ نہ سمجھیں کہ ہم گھاس پُھوس سے رغبت رکھتے ہیں! سچ یہ ہے کہ صحافت کے سبزہ زار میں قدم رکھنے کے بعد اب ہم کسی اور قسم کی گھاس یا لُوسن کے قابل نہیں رہے! فلیٹ کا پتہ سمجھاتے ہوئے ہمیں مزید اُلجھن کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ دو قدم کے فاصلے پر ایکسائز شاپ یعنی شراب کی دکان تھی۔ کچھ لوگوں کو ہم نے جب اِس دکان کے حوالے سے اپنا پتہ سمجھایا تو وہ سمجھے کہ شاید ہم ”ٹُن“ ہیں، اِس لئے احتیاطاً ہمارے گھر نہ آئے!

بہر کیف، گھاس منڈی میں رہائش ہی کی بدولت ہم پر یہ عُقدہ وا ہوا کہ جن گھرانوں پر عورت کا راج ہو وہ گویا گھاس کھا کر زندہ رہتے ہیں!

”اے، اگر مجھے ہاتھ لگایا نا تو اپنی ماں کو بلا کے لے آؤں گا!“
”اے بھائی! میرے جیسے کمزور آدمی سے کیا لڑتا ہے، لڑنا ہے تو میری بیوی سے لڑ۔ پھر پتہ چلے گا تو کتنے پانی میں ہے!“
”ابے او گدھیڑے! میرے میاں سے کیا لڑتا ہے، ہمت ہے تو میرے سے بات کر!“
”تو نے سلیمان بھائی پہ ہاتھ تو اُٹھا لیا مگر اب پتلی گلی سے نکل لے۔ اگر ان کی گھر والی کو پتہ چلا تو تیری خیر نہیں!“

یہ اور اِسی قبیل کے دوسرے بہت سے جملے ہمیں اُس دور میں اکثر سنائی دیتے تھے اور ہم اِس قدر انگشت بہ دنداں رہا کرتے تھے کہ اُنگلی میں انفیکشن ہوگیا یعنی اپنا ہی زہر چڑھ گیا!

رنچھوڑ لائن میں رہائش اختیار کرنے سے معلوم ہوا کہ بعض برادریوں میں خواتین ہی کماتی اور گھر چلاتی ہیں۔ ایسی برادریوں میں مردوں کا وجود ”رسمی کاروائی“ کا درجہ رکھتا ہے! یعنی قذافیوں کی کوئی کمی نہیں، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524934 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More