مجھ جیسے کم علم اوربے عمل کیلئے تویہ بہت مشکل ہے،یہ
جومیں نے کم علم لکھاہے اس میں بھی ایک عیارانہ عاجزی ہے ۔میں اور علم ایک
دوسرے کی ضد ہیں۔چلیں یہ فضول بحث چھوڑد یتے ہیں کہ بحث ہمیشہ کم علمی کی
وجہ سے وجود میں آتی ہے،روشنی اور تاریکی کیامحتاجِ بحث ہیں؟دن اوررات
پربھلاکیابحث کریں!نیکی اوربدی پربھلاکیابات کریں،ہمیشہ سے
شیرچیرتاپھاڑتاآیاہے تو اس پرکیادانشوری کی جائے!غلامی کی نفسیات پرتوبحث
کی جاسکتی ہے اورجوذہنی غلامی ہے اس پر۔۔۔۔۔!
دورِجدیدکی ایجادات نے زندگی آسان کردی ہے اورانسانیت کیلئے مغرب کاعظیم
تحفہ دورِجدیدکی ایجادات ہیں۔یہی سنتا ہوں میں ہرجگہ،ہر تقریب میں،چاہے وہ
کوئی سیاسی تقریب ہو،کوئی خوشی یاغمی کی تقریب ہو۔اچانک کسی پیارے کے مرنے
کی خبرملی،آپ وہاں افسوس کیلئے پہنچے ہیں لیکن وہاں زمانے بھرکے موضوعات
پربحث ہورہی ہے لیکن کوئی یہ نہیں کہتاکہ ہرجانے والااس بات کی خبردے
کررخصت ہورہاہے کہ تم سب بھی جلدیابدیراسی منزل کی طرف لوٹائے جاؤگے۔کتنا
مشکل تھاتاریکی کوروشن کرنا،لیکن یہ جوبجلی ہےکتناآسان کردیاہے اس نے
جینا۔کیاواقعی آسان کردیاہے اس نے زندگی کو؟ مجھے اس کاجواب ملتابھی ہے
اورنہیں بھی۔ادھوراجواب مطمئن نہیں کرتا۔چلئے!مان لیتے ہیں زندگی ایجادات
کے دم سے آسان ہوگئی،توپھراس پرکب بات کریں گے کہ انسان کواس کی کیاقیمت
اداکرنی پڑی؟اپنے کن اوصاف سے محروم ہوناپڑا؟
ایک دن میں نے ان سے سوال کیا:”یہ آپ کواندھیرے میں بھی ہرشئے کیسے روشن
نظرآجاتی ہے؟”تومسکراکرکہنے لگے: “بلی سے ہی پوچھ لیتے یہ سوال کہ اسے
تاریکی میں کیسے نظرآتاہے!”میں نے ضد کی توکہنے لگے”یہ میں تمہیں سمجھا
نہیں سکتا۔تاریکی میں رہناشروع کردو،رب سے تعلق جوڑلوتواندھیرابھی روشن
ہوجائے گا۔رب نے بندے میں کائنات چھپائی ہوئی ہے،اسے دریافت کرلو،دنیاوی
محتاجی سے آزادہوجاؤگے۔”اب آپ مجھ سے کہیں گے کیابے پرکی اڑارہے ہو،ٹھیک ہے
آپ کی بات۔ہرایک کاتجربہ مختلف جوہوتاہے۔بعض اوقات ہمارے بچے بڑی پتے کی
بات کہہ دیتے ہیں۔ایک دن میرے بیٹے نے بحث کے دوران جواس بات پرہورہی تھی
کہ ایجادات نے زندگی آسان کر دی،کمال بات کہہ دی کہ اگربجلی نہ ہوتی
توانسان فطرت پرجیناسیکھتا۔نظامِ زرنے ایجادات کے بدلے انسان کی فطری
صلاحیتوں کومارڈالاہے۔میں نے حیرت سے اسے دیکھا ،وہ مسکرا رہاتھاگویادانش
صرف بڑوں کی ملکیت نہیں۔تب میں نے اسے پوچھاکہ،،یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟”
،”آپ نہیں سمجھیں گے”،”لیکن پھر بھی؟”میں نے کہا۔تب اس نے جواب میں کہا
کہ”انسان کیلئے اشیاءکومسخرکیاگیاہے اور المیہ یہ ہوگیاکہ اشیاء نے انسانوں
کومسخرکرلیاہے۔”عجیب سی بات ہے ناں یہ!اس بحث کو یہیں چھوڑدیتے ہیں کسی اور
وقت کیلئے،اس لئے اگر اس موضوع پربات کریں گے توپسماندہ اوردقیانوسی کہلانے
سے ہماری جان جاتی ہے۔اس دھوکے میں پڑے رہیں تواچھا ہے کہ زندگی آسان ہے۔
“کل لندن میں ٹرانسپورٹ کی ہڑتال ہے اورمجھے یونیورسٹی پہنچنے کیلئے آپ کی
مدددرکارہے۔کیاآپ مجھے لفٹ دے سکتے ہیں؟”،”یقینا،ذراجلدی گھرسے نکلناپڑے
گاکیونکہ سڑکوں پربہت رش ہوگا”میں نے اسے پہلے سے خبردارکردیا۔اب وہ گاڑی
میں بالکل خاموش بیٹھاہواتھا،مجھے تشویش ہوئی”یار!کیابات ہے بڑاخاموش
ہے،کیاسوچ رہاہے؟”جی میں سوچ تورہا ہوں لیکن آپ چھوڑیئے،بات کچھ لمبی
ہوجائے گی۔”،”بتاتوسہی یار، شائدمیں کچھ مددکرسکوں۔”،”نہیں شکریہ،،کہہ
کرایک لمبی ٹھنڈی سانس لی اورپھرکہیں کھو گیا ۔میں نے دوبارہ جب
اصرارکیاتواس نے کہا کہ “میں یہ سوچ رہاہوں کہ اللہ جی نے یہ کائنات بنائی
اوراس میں اتنی ڈھیرساری مخلوقات بنائیں،سب کی روزی روٹی کابندوبست کیا،اب
تک میں نے نہیں سناکہ جانور،پرندے،کیڑے مکوڑے بے روزگارہوگئے ہیں،اپنے حقوق
نہ ملنے پرکوئی ہڑتال کرتے ہیں،بھوک سے خود کشی کر رہے ہیں اور انسان اشرف
ہے ان سب میں،اوروہ بھوکاہے، ننگا ہے،خودکشی کررہاہے،مررہاہے،اپنے حقوق بھی
اپنے جیسے انسانوں سے جب مانگتاہے توجواب میں اکثراسے باغی کہہ کرہمیشہ
کیلئے خاموش کردیاجاتاہے۔اب سوال یہ ہے کہ اللہ جی نے بندے کوہی روزی رزق
کے جنجال میں کیوں ڈالا؟” یہ کہہ کروہ خاموش ہوگیا”اورکچھ؟”میں نے پوچھا”اب
خوددیکھیں کسی جانور کودیکھاہے کہ وہ کسی فیکٹری میں کا م کیلئے جاتاہو،بس
اسٹا پ پر کھڑا ہوکہ آج دیرہوگئی،باس بہت ڈانٹے گا،یہ سارا روگ آخرانسان ہی
کوکیوں لگاہواہے؟پرندے چہچہاتے ہیں،خوش ہیں اورانسان۔۔۔۔!
“اس سوال کاجواب ہے میرے پاس”میں نے کہا۔وہ بہت خوش ہوا اوربولا”جلدی
بتائیں،کیا؟”مالک نے سب مخلوق کے کھانے کابندوبست کیا ہے۔انسان کیلئے بھی
من وسلویٰ آسمان سے آیاکرتاتھا۔بڑے مرغن کھانے ،جس کی اس نے دل میں خواہش
کی ،وہی کھانااورجس لباس کوپہننے کی آرزوکی،فوراًآسمانوں سے مہیاکردی جاتی
تھی۔تب انسان نے تگڑم لڑائی اورکہنے لگا کہ “میں
توخودبناکرکھاناچاہتاہوں”تب اللہ جی نے اس کی یہ دعابھی قبول کرلی۔اب یہ
جوکچھ بھی تودیکھ رہاہے انسان کااپناکیا دھراہے۔اللہ جی نے توظلم نہیں
کیا،بندہ خودپرہی ظلم کرتاہے،کربیٹھا،یہ جویہودی ہیں،یہ تھے وہ جنہوں نے
دعا مانگی تھی ۔ اب پوری انسانیت،ان کے جرائم ،ان کی سرکشی کی وجہ سے بھوک
کاشکارہے۔یہ جوملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں، یہ ہیں اصل مجرم،انسانیت کی مجرم۔
جہاں پرپانی بھی بندبوتلوں میں بندکرکے بیچاجارہاہوگمراہ کن پروپیگنڈہ
کرکے،تو اس میں اب خالق سے کیاگلہ ؟ “وہ خاموش رہااورپھربہت دیرتک خاموش
رہا۔
میں اسے یونیورسٹی اتارکرواپس چلاآیا۔تب شام کواس کافون آیاکہ میں واپس
اپنے ایک دوست کے ساتھ آجاؤں گااورمیرا دوست بھی صبح کی گفتگو سے واقف
ہوچکاہے اوراب ہم اس موضوع پرشام کوبات کریں گے۔”میں سارادن آپ کے جواب پر
غورکرتارہااورسوچتابھی رہااوربالآخراپنے دوست کوبھی اس فکرمیں شامل
کرلیا۔ہم دونوں اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ آپ نے بالکل صحیح کہا……..ایساہی
ہے!انسان،انسان کاویری ہے،دشمن ہے،اللہ جی نے توبہت آسانیاں پیداکی تھیں،ہم
نے خود پر بہت ظلم کیا۔”اس نے گھرپہنچتے ہی مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے اپنی
پریشانی کااظہارکرتے ہوئے ہارمان لی۔یہ جومیں روز جمہوریت کی،آمریت
کی،سوشلزم وغیرہ وغیرہ کی برکات سنتاہوں تومجھے بہت ہنسی آتی ہے۔رب نے ایک
نظام دیا، اسے اپنالیناچاہئے تھا۔ہم نے اپنی تگڑم لڑائی اورخودایک نظام لے
بیٹھے،اب تواس کے کانٹے ہمیں بے حال کئے دیتے ہیں، ہمیں نڈھال کئے ہوئے
ہیں۔اب بھی ہم رب سے رجوع نہیں کرتے،باربارانسان کے بنائے ہوئے نظام کی
برکات گنواتے ہیں۔ نتیجہ بھی دیکھتے ہیں اوربازبھی نہیں آتے۔ اب کیاکہاجائے
اس پر!
بس ایک ہی حل ہے۔بندہّ رب بنو،رب کے حوالے کردوسب کچھ ۔لیکن کیسے!میں اپنی
اناسے کیسے دست بردارہوجاؤں!یہ تو میں نہیں جانتا۔خوشیاں منایئے دورِجدید
کی ایجادات پر۔انسانوں پرمسلط انسانوں کے بنائے ہوئے نظام کی خوبیاں بیان
کیجئے۔ دھوکے پردھوکاکھایئے اوربغلیں بجائیں۔
وہ رندجو آشوبِ زمانہ سے ڈرے ہیں
ساقی تیرے میخانہ کی توہین کرے ہیں
آساں نہ سمجھ میکدہ غم کی بہاراں
خوں روئے ہیں تب جاکریہ پیمانے بھرے ہیں
|