دُنیا کو آفات ارضی وسماوی، زلزلوں، ماحولیاتی تبدیلیوں،
سمندری طوفانوں، جنگلات کے کٹاؤ سے زمینی، بحری اور فضائی آلودگی کے ہولناک
چیلنجوں کا سامنا ہے۔
دُنیا بھر کے سائنس دان اور طبقات الارض کے ماہرین زلزلوں، سیلابی ریلوں،
سمندری طغیانی، طوفانی بارشوں اور دیگر موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالہ سے
ہولناک پیشگوئیاں کرتے آرہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کرہ ِارض قدرتی آفات کے
ایک ہولناک دورانئے میں داخل ہوگیا ہے، اسے فطرت کی ستم رانی اور زمینی
ماحول کو لاحق غیر معمولی خطرات اور بربادیوں کے ناقابل یقین مراحل سے
گزرنا ہوگا۔
ماہرین کی تحقیقاتی رپورٹیں انتباہات سے بھری ہوئی ہیں، بار ہا مرتبہ کہا
جا چکا کہ ہم زمین و آسمان کے درمیان توازن حیات و کائنات کے نئے رشتے تلاش
کریں، زمینی ماحول کی بربادیوں کو روکیں تاکہ نوع انسانی کا مستقبل سفاک
موسمی تبدیلیوں کی نذر نہ ہو۔
برس ہا برس سے زلزلوں، ہولناک بارشوں، سیلابوں اور سمندری طغیانی سے ہونے
والے نقصانات کا حجم کم ہونے کی بجائے تباہ کاریوں کا دائرہ وسیع ہوتا
جارہا ہے۔ بارشوں، سیلابوں اور زلزلوں سے متاثرین کے اعداد و شمار میں
مسلسل اضافہ لمحہ فکریہ ہے۔ 2010 ء کے مون سون بارشوں اور سیلابوں سے
پاکستان میں متاثرین کی تعداد 2004 ء میں بحر ہند کے سونامی،2005 کے زلزے
اور2010 ء میں ہیٹی کے زلزلے سے زیادہ تھی۔
نیوزویک نے 2015 ء میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں مزید ہولناک زلزلوں
اور زیر زمیں ساختیاتی ارتعاش اور گرائنڈنگ پلیٹس کی لرزش و جنبش کی
بربادیوں سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی تھی۔
مگر ٗ کیا ہم قدرتی آفات سے ہونے والی تباہ کاریوں کا کوئی منصوبہ بنایا؟،
کیا ہمارے ترقیاتی منصوبوں میں قدرتی آفات سے بچاؤ کی عملی ترجیحات شامل
ہیں؟ اور اگر ہیں تو ہمارے منصوبوں کے باعث زلزلوں، سیلابوں، طوفانی بارشوں
اور زمینی و سمندری کٹاؤ سے ہونے والے نقصانات کا تدارک کس حد تک ممکن ہوا
ہے؟
آزادکشمیر میں سردی کی حالیہ لہر، شدید برف باری، بارشوں اور برفانی تودے
گرنے سے جانی، مالی نقصان ہو ا،64افراد شہید،35زخمی ٗ164مکانات مکمل
ٗ170جزوی طور پت تباہ ہو چکے،
اس قدر بھیانک اور ہلاکت خیز طوفان کے جس کے سامنے انسان کی طاقت جواب دے
گئی،یہ آفات وبلیات اور مصائب ومشکلات طوفان، آندھی، ہواکے جھکڑ اور پانی
کا سیلاب یہ ساری چیزیں خدا کی قدرت سے ہوا کرتے ہیں،
ظاہری اسباب بنانے والے بھی ذات اللہ عزوجل کی ہے، ظاہری اسباب خواہ کچھ
ہوں؛ لیکن خدا کی قدرت اور اس کی لا محدود طاقت اس کے پیچھے کارفرما ہوا
کرتی ہے، ہوا، آگ، پانی، طوفان بادو وباران، ژالہ باری، آندھیاں،زلزلے،
وباوں کا اچانک پھیل جانا،یہ قدرت کی وہ طاقتیں ہیں، جس کے سامنے انسانی کی
عقل وسوچ اور اس کی لا محدود ترقی یافتہ سائنس بھی دَنگ اور نا تمام رہ
جاتی ہے۔
انسانی ساختہ تباہ کن ہتھیاروں کے بعد سب سے وسیع پیمانے پر جانی و مالی
نقصان کا باعث بننے والی وہ ناگہانی آفات ہوتی ہیں جن کو قدرتی آفات کہا
جاتا ہے ان قدرتی آفات سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا صرف مناسب احتیاطی
تدابیر کے ذریعے ان سے پہنچنے والے نقصان کو کسی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔
سائنسی علم کی تحقیق اپنی جگہ، لیکن قانونِ قدرت ہے کہ جب بستیاں نیک لوگوں
سے خالی ہوتی ہیں، خوف ِ خدا ختم ہوتا ہے، قوم فحاشی، عریانی، شراب نوشی،
زنا کاری، شرک اور بددیانتی جیسے گناہوں میں ڈوبتی ہے، تو نظام قدرت متنبہ
کرنے کے لیے حرکت میں آتا ہے۔
امت محمدیہ پر قرآن کریم کی رو سے عذاب نہیں آئے گا، البتہ سرزنش قیامت تک
ہوتی رہے گی۔آفات ارضی و سماوی دُنیا میں اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً انسانوں
پر ایسی آزمائش بھیجتا رہتا ہے جو انہیں اپنی بے بسی کا احساس دلاتی ہیں۔
جن کا مقصد ہوش میں لانا ہے کہ اگر وہ باغیانہ طرزِ عمل کو ترک کرکے راہ
راست پر آجائیں تو وہ عذاب اکبر سے نجات پا سکتے ہیں۔ سورۃ السجدہ نمبر 32،
آیت نمبر 21کا ترجمہ ملاحظہ ہو: ”اور ہم ضرور چکھاتے رہیں گے انہیں تھوڑا
تھوڑا عذاب، بڑے عذاب سے پہلے تاکہ وہ فسق و فجور سے باز آجائیں“یعنی اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ابدی عذاب میں گرفتار ہونے سے پہلے ان غافلوں اور
سرکشوں کو ہم طرح طرح کی مصیبتوں اور رنج و الم میں مبتلا کر دیتے ہیں،
تاکہ وہ خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر اپنی اصلاح کرلیں اور عذاب جہنم سے بچنے
کی تدبیر سوچ لیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہے کہ وہ کسی تکلیف
اور مصیبت کو انسان کی اصلاح کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔ وہ نعمت و راحت جو
انسان کو غافل اور سرکش بنا دے اس سے وہ مصیبت ہزار درجہ بہتر ہے جو انسان
کو گناہوں سے باز رکھنے کا سبب بن جائے۔
سائنسی ایجادات اور انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے ارضیاتی تحقیقات کا دائرہ
وسیع تر ہوتا جارہا ہے، سیلابوں کی روک تھام کے کئی منصوبے مغرب میں روبہ
عمل لائے جارہے ہیں، ترقی یافتہ ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں کے کثیر جہتی
معاہدوں اور اقوام متحدہ کے ادارے گلوبل شعور کی بیداری کے لیے رکن ممالک
کو ہر ممکن انسدادی تدابیر اختیار کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
لائیو سائنس ڈاٹ کام کے مطابق گزشتہ کئی برسوں میں ارضیاتی کیفیت اور
سیزمولوجیکل حساسیت نے دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ایک سروے کے
مطابق عالمی سطح پر مختلف خطوں اور جزائر میں 5 لاکھ زلزلے آئے مگر محسوس
نہیں کیے گئے، ان میں ایک لاکھ جھٹکے ریکارڈ ہوئے، سروے کے مطابق ان زلزلوں
میں ایک سو کے لگ بھگ زلزلے تباہی لائے ہیں، چلی کے 27 فروری 2010 کے زلزلے
سے شہر دس فٹ سرک گیا تھا، ماہرین کا کہنا ہے کہ تیل کی ڈرلنگ بھی زلزلوں
کا پیش خیمہ بنتی ہے، پیسیفک ریجن، شرق اوسط کے کوہستانی اور ساحلی علاقے،
پاکستان کے سمندری اور ساحلی علاقوں مثلاً کراچی، منوڑہ جب کہ بدین، ٹھٹہ،
جاتی بندر کو طغیانی، سمندری کٹاؤ اور زیر زمیں پانی کی سطح کم ہونے کے
باعث زلزلوں کی فالٹ لائن میں شمارکیا جاتا ہے، بلوچستان کے شہر کوئٹہ کا
زلزلہ اپنی تباہی اور ہلاکتوں کے اعتبار سے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔
2005میں وادی کشمیراور ایبٹ آباد تباہ کن زلزلے سے شدید متاثر ہوئے، جسے
قیامت صغریٰ کا نام بھی دیا گیا جس کے باعث بے شمار انسانی جانیں تلف ہوئیں
اور کروڑوں اربوں کی املاک زمیں بوس ہوگئیں۔ زلزلوں کے اسباب پر ریسرچ کا
سلسلہ جاری ہے، ارضی پلیٹوں کی رگڑ، مستقل گڑگڑاہٹ، اور ہولناک تبدیلیوں کا
عمل سانحات کا باعث بن جاتا ہے، سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق 20 مستقل
جگہ بدلتی، سرکتی پلیٹوں کی اتھل پتھل سے آن واحد میں بلند و بالا عمارات
ریت کا ڈھیر اور ہزاروں انسان موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ عراق، ترکی،
ایران زلزلوں کی رینج میں ہیں، یہاں زلزلوں سے ہونے والے نقصانات عالمی
سماج کا دل دہلا دیتے ہیں، اپنے گھروں، دفتروں اور بازاروں میں بے خبر
انسان پل بھر میں زمین کی سفاکی کی نذر ہوجاتے ہیں، اور وہ ممالک جو صدہا
قسم کے سیاسی، معاشی، جنگی اور کاروباری مسابقت اور مفادات میں الجھے ہوئے
ہوتے ہیں، ماحولیاتی تباہ کاریوں سے بے نیازی کا افسوس ناک رویہ اختیار کیے
رہتے ہیں۔
سمندری طوفانوں، ماحولیاتی آلودگی اور بحری حیاتیات کو لاحق آلودگی سے ملکی
وسائل سے قوم محروم رہ جاتی ہے۔ ایک سائنسدان کا کہنا ہے کہ نسل انسانی نے
خود اپنے برپا کیے ہوئے ماحولیاتی بربادی کے اس تماشے کا سدباب نہ کیا تو
دُنیا فطرت کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکے گی۔ متاثرین نیلم کے لیے کے دکھی
اور غمزدہ عوام اور تکلیف میں مبتلا زخمیوں کی ہر ممکن مدد کی جانی چاہیے،
ہمیں اس دکھ کی گھڑی میں ان کی ہر طرح سے مدد کرنی چاہیے۔ایسے واقعات ہمیں
خود احتسابی، اعمال کا جائزہ لینے کاسبق دیتے ہیں۔
تاہم ٗآفات کو روکنا انسان کے بس میں تو نہیں، مگر ان کی تباہ کاریوں سے
بچنے کے ہمیں ہمہ وقت میکنزم تیار رہنا چاہیے۔ |