چیئر مین پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل کے ڈاکٹر محمد
عظیم خان کا کہنا ہے کہ کلائمیٹ چینج موجودہ دور کا اہم مسئلہ بن چُکا
ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے آئی پی سی سی کے مطابق 1970سے صنعتی دور کے آغاز
کے بعد درجہ حرارت میں اضافہ( 1.5ڈگری سینٹی گریڈ) گلوبل وارمینگ کا سبب
بنا ہے ا س موسمیاتی تبدیلی کے زراعت پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں
پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ جس کی معیشت کا بیشتر حصہ زراعت پر منحصر ہے
زراعت کا شعبہ کئی طرح کے مسائل سے دور چار ہے۔ ان مسائل کا اندازہ اس
تجزیہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ آزادی ملک کے وقت 1947میں جی ڈی پی میں زراعت
کا حصہ 53%تھا جوکہ حالیہ تجزیے (2018-19)کے مطابق 18.5%رہ گیا ہے۔ اسکی
وجہ پسماندہ معاشی صورت حال ،جدید ٹیکنالوجی کا فقدان ،لینڈ ریفارمز کا نہ
ہونا ،گورنمنٹ پالیساں ،کرپشن ،آبپاشی اور کلائمیٹ چینج/موسمیاتی تبدیلی
جیسے مسائل ہیں ان سب مسائل میں کلائمیٹ چینج وقت کی ایک اہم للکار ثابت ہو
رہی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کا اہم مسئلہ فصلوں میں نقصان دے کیڑوں کا بڑھتا ہوا حملہ
ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ ان کیڑوں کی تعداد میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
انڈین جرنل آف اینٹو مولوجی کی ایک رپورٹ کے مطابق مختلف کیڑوں کی 10,000سے
زیادہ سپیشیزپودوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں جس سے دُنیا بھر کی 40%سے زیادہ
غذائی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں ۔مختلف فصلوں میں کئی طرح کے نقصان دہ کیڑوں
کا حملہ ہوتا ہے۔ ان میں بوررز، سنڈیاں ،گھوڑا مکھی ، سست تیلہ،چست تیلہ،
جوئیں ،سفید مکھی ،ملی بگ اور سپائٹر مائٹ وغیرہ شامل ہیں ۔موسمیاتی تبدیلی
کیڑے مکوڑوں کی آبادی اور بھوک میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ حشرارت کا نظام
انہضام درجہ حرارت بڑھنے سے تیزی سے کام کرنے لگتا ہے۔ جو کہ خوراک کو جلدی
ہضم کردیتا ہے۔ اس وجہ سے ان کیڑوں کی خوراک کی مقدار بڑ ھ جاتی ہے۔ درجہ
حرارت کے اور بھی بہت بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔سخت سردی سے مرنے والے
کیڑے درجہ حرار ت کے بڑھنے کی وجہ سے زیادہ دیر تک زندہ رہ کر فصل کے نقصان
کا باعث بنتے ہیں ۔ اسکے علاوہ خط استواء کے قریب بڑھتا ہوا درجہ حرارت
کیڑے مکوڑوں کا شمالی اور جنوبی پولز کی طرف ہجرت کرنے کا سبب بنتا ہے جس
سے ٹمپریٹ آب ہو ا کے خطوں میں بھی فصلوں کے نقصان دہ کیڑوں کا رحجان بڑھ
رہا ہے۔
کلائمیٹ چینج کے دوران بڑھتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی پتوں میں شوگر کی
مقدار کو بڑھا کر نائٹروجن کی مقدار کو کم کر دیتی ہے۔شوگر کے بڑھنے سے
کیڑے مکوڑوں کا حملہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اور میٹا بولک سسٹم میں نائٹروجن کی
کمی کو پورا کرنے کے لیے کیڑے زیادہ سے زیادہ پتے کھاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ
یکساں اجناس اور فصلوں کا بار بار اُگانا، فصلوں کے ہیر پھیر کا نہ ہونا ،
کیمیائی زہروں کے خلاف قوت مدافعت اور ماحول کا توازن برقرار نہ رہنا بھی
نقصان دے کیڑوں کے بڑھاؤ کا ذریعہ ہیں ۔ ان کیڑوں نے زراعت پر گہرے اور
ضرررساں اثرات مرتب کیے ہیں ان کی وجہ سے فصلو ں کی پیداوار میں کمی ،
قدرتی ماحول میں عدم توازن ، صحت کے مسائل ، عالمی معیار فروخت میں کمی ،اور
ملکی معیشت کو نقصان جیسے مسائل شامل ہیں ایف اے او کی ایک رپورٹ کے مطابق
عالمی سطح پر سالانہ 1.3بلین ٹن اناج ضائع ہو رہا ہے۔گندم میں 10سے
28%،چاول میں 25سے 41%، مکئی میں 20سے 41%اور آلو میں 8سے 20%تک کا نقصان
دیکھا گیا ہے۔
فصلوں پر نقصان دہ کیڑوں کے حملے کو قابو کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اس وقت
دُنیا کی کل آبادی 7.5بلین سے بڑھ چُکی ہے ۔ اس بڑھتی ہوئی آبادی کی
ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فوڈ سکیورٹی موجودہ دور کا اہم تقاضا ہے۔ لیکن
فوڈ سیفٹی کے بغیر فوڈ سکیورٹی ناممکن ہے ایک ریسرچ کے مطابق زراعت کے بجٹ
کا 95%حصہ پیدا وار بڑھانے اور صرف 5%حصہ فصلوں کو نقصان سے بچانے کیلئے
خرچ کیا جاتا ہے(ایف اے او)۔جو کہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔ اور اس طرح
سے پیدا ہونے والی خوراک 200سے زیادہ بیماریوں کا سبب بن رہی ہے۔اس صورتحال
سے نمٹنے کے لیے ایک مر بوط طریقہ انسداد(آئی پی ایم)کی ضرورت ہے۔اس میں
کلچرل، فزیکل ، کیمیکل اور بائیولوجیکل طریقہ کار شامل ہیں کوئی بھی واحد
طریقہ کار گر ثابت نہیں ہوتا ۔ ہمارے ہاں کیمیائی طریقہ مربوط طریقہ سمجھا
جاتاہے۔ لیکن اس کی وجہ سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں پیدا واری لاگت میں
اضافہ اور ماحول پر اثرات کے ساتھ ساتھ صحت کے کئی مسائل جنم لے رہے ہیں
زہروں کے اثرات سے انسان کی اوسط عمر تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ایک اندازے کے
مطابق 2014میں اوسط عمر 78.9سال جبکہ 2017میں78.6سال ریکارڈ کی گئی اقوام
متحدہ کے ادارے ایف اے او کے مطابق نقصا ن دہ کیڑوں پر قابو پانے کے لیے
عالمی معیشت کو 70بلین ڈالر کا سالانہ نقصان ہو رہا ہے۔اس لیے کیمیائی
طریقہ کار کے ساتھ ساتھ دوسرے سستے اور ماحول دوست طریقے بھی اپنانے
چاہیں۔جیسا کہ بائیو کنٹرول جو کہ آئی پی ایم کا ایک اہم اور واضع پہلو
ہے۔بائیو کنٹرول /حیاتیاتی کنٹرول دیگر فائدہ مند کیڑوں کے استعمال سے فصل
کے نقصان دہ کیڑوں کا خاتمہ کرنا ہے۔ ماحول کے ذریعے ماحول کو واپس اصلی
حالت میں لانے کی ایک کاوش ہے۔یہ ایک ماحول دوست عمل ہے جس میں کسان دوست
کیڑ ا فصل کے نقصان دہ کیڑوں کا خاتمہ کرتا ہے۔جس کی شناخت بحیثیت حیاتیاتی
کنٹرول ایجنٹ انیسو یں صدی میں ہوئی ہے۔اس وجہ سے اس کوکسان دوست ، فصل
دوست اور ماحول دوست کیڑا کہا جاتا ہے۔ملک میں زراعت کی ترقی کے لیے ہر دور
حکومت میں مختلف منصوبے شروع کیے گے تا کہ فصلوں کی زیادہ سے زیادہ پیدا
وار حاصل کر کے کسانو ں کی خوشحالی کے لئے اقدامات کیے جائیں بائیو کنٹرول
کے سلسلے میں اس وقت پنجاب میں 11 لیبار ٹر یز کام کر رہی ہیں ۔اس کے علاوہ
مختلف شوگر ملز میں بھی 1995سے کسانوں کی ضروریا ت کو مد نظر رکھتے ہوئے
بائیو کنٹرول تجربہ گا ہیں قائم کی گئی جو کہ ماحول دوست کیڑے ٹرائیکوگراما
اور کرائی سو پرلا کی افزائش کر کے فصلوں میں منتقل کر رہی ہیں یہ کیڑے
کھیت میں جاتے ہی نقصان دے کیڑوں اور ان کے انڈوں کو کھانا شروع کردیتے ہیں
اور اس طرح ہماری فصلات ،سبزیات اور باغات وغیرہ نقصان دہ کیڑوں کے حملوں
سے محفوظ رہتے ہیں ۔اس کے باوجود بھی ابھی تک فصلوں کو نقصان سے بچانے کے
خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے ۔
پاکستا ن زرعی تحقیقاتی کونسل کی بائیو کنٹرول کے لیے کوششیں اپنی جگہ
یقینا قابل تحسین ہیں مگر جب تک پرائیویٹ پیسٹی سائیڈز کمپنیاں کیڑے مار
زہروں کو چھوڑ کر ماحول دوست عوامل نہ اپنائیں اورکسان کیمیائی زہروں پر
اندھے اعتماد کو کم کر کے ماحول دوست عناصر کی طرف ہاتھ نہ بڑھا ئیں ہم
کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ پاکستان زراعت کی ترقی کی وہ منزلیں طے کر سکے گا
جس سے ملک زرعی خوشحالی کی طرف گامزن ہو ۔وقت اور ضرورت کے مطابق گورنمنٹ
پالیساں ، کسانوں کے آگاہی پروگرام ، بجٹ کی مخصوص شرح ،سائنس دان اور
ماہرین کے ٹریننگ پروگرام ، عالمی سطح پر معلومات کا تبادلہ اور شارٹ کورسز
وہ اقدامات ہیں جن کے بغیرفصلوں کو نقصان سے بچا کر زراعت کی ترقی ناممکن
ہے۔ڈائریکٹر جنرل زراعت پنجاب ڈاکٹر محمد انجم علی، ڈائریکٹرفیصل آباد
ڈویژن چوہدری عبدالحمیداور ڈپٹی ڈائریکٹرجھنگ چوہدری اختر حُسین صوبائی و
ضلعی سطح پر بائیو کنٹرول لیبارٹریز کے لیے جو کاوشیں کر رہے ہیں انہیں
یقینا صراحا جانا چا ہیے مگر موجودہ حکومت ، جامعہ زرعیہ اور تحقیقاتی
ادارے جب تک وقت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے خاطر خواہ اقدامات نہ کریں ۔ تب
تک پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی مفلوج ہی رہے گی۔
٭٭٭ |