جنگ ستمبر 1965ء جب شروع ہوئی تو اس وقت جنر ل ایوب
خان کی حکومت تھی اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے گورنر امیر محمد خان تھے۔
گورنر امیر محمد خان لمبی موچھیں تاؤ دے کر رکھتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ
ایک موچ میری بدمعاشی ظاہر کرتی ہے جبکہ دوسری میں نے انتظامیہ کے لیے رکھی
ہے۔بلا کے اچھے منتظم تھے ،آغاز جنگ میں اعلان کیا کہ کسی تاجر کو ذخیرہ
اندوزی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگر کسی پر ذخیرہ اندوزی کا الزام ثابت
ہو گیا تو وہ میرے انصاف سے بچ نہیں سکے گا۔ انصاف پسند گورنر کا ڈرا اور
خوف اس بلا کا تھا کہ تمام ذخیرہ اندوزتاجر اپنے اسٹاک مارکیٹ میں لے آئے
اور یوں سترہ روزہ جنگ کے دوران کوئی خوارک کا بحران نہیں ہوا۔ گورنر نے
حکم دیا تھا کہ میری عوام کو یہ محسوس نہ ہو کہ یہ ملک حالت جنگ میں ہے۔
اب آئیے موجودہ دور میں جہاں گورنس کا یہ عالم ہے کہ ایک سے بڑھ کر ایک
بحرانی تحفہ اس ملک کی غریب عوام کے دروازے پر آئے روز دستک دیتا ہے جوکبھی
ادویات ،کبھی چینی ، کبھی ٹماٹر ،کبھی آلو، کبھی پیڑول، کبھی سی این جی اور
کبھی آٹا بحران کی شکل میں عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔عوام موسم سرما میں گیس
کی قلت سے پہلے ہی سخت اذیت میں مبتلاتھے کہ اچانک ان پر آٹے کی نایابی
قہربن کر ٹوٹ پڑی اور اب آگے چینی کا بحران سرا ُٹھا رہا ہے ناجائز منافع
خور مافیا ہر دورحکومت میں عوام سے ان کی حلال کی پائی پائی نکلوانے کے
درپے ہیں۔پنجاب میں 25لاکھ ٹن گندم کے ذخائر کے باوجود آٹے کے بحران کے ذمہ
دار کون؟ وجہ کیا بنی؟حکومت تعین کرنے میں ناکام ہو گئی ہے ۔مافیاز نے
کروڑوں روپے کما لیے ہیں۔دستیاب اعداد و شمار کے مطابق رواں سال مجموعی طور
پر 36لاکھ ٹن گندم خریدی گئی جبکہ 10لاکھ ٹن گندم گزشتہ سال سے نئے سال میں
منتقل کی گئی۔کسی بھی ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے ایک ملین ٹن گندم کا ذخیرہ
لازم ہوتا ہے ،بھاری ذخیرہ کے باوجود گندم فلور ملز کو جاری کیوں نہیں کی
گئی ؟محکمہ خوراک کے اعلیٰ حکام نے فیلڈ افسران کی طرف سے بروقت بحران کے
بارے میں آگاہی کے باوجود فلور ملز کا کوٹہ نہ بڑھا یا جس وجہ سے آٹے کا
بحران پیدا ہو ا۔ آٹے کے مہنگے ہونے کی ایک بڑی وجہ ا وپن مارکیٹ میں گندم
کی قیمت کا 22سو روپے تک پہنچنا ہے ، فلور ملز کا کوٹہ نہ بڑھنے کی وجہ سے
مارکیٹ میں آٹے کی کمی ہو گئی جس سے گندم کی قیمت میں اضافہ ہوا تو چکی
مالکان نے فی کلو قیمت 70روپے کر دی۔بادی النظرمیں آٹے کے بحران کے ذمہ د
ار محکمہ خوراک کے اعلیٰ حکام ہیں جن کی غفلت، لاپرواہی اور بدانتظامی کی
وجہ سے آٹے کی قیمتوں میں اضافہ اور بحران پیدا ہو ا ہے جبکہ بظاہرملک میں
گندم کے ذخائر کی کمی نہیں ۔
بحران کی دوسر ی بڑی وجہ صوبوں اور وفاق میں افسر شاہی اور وزارتوں کے
مابین عدم تعاون اور واضح پالیسی موجودہ نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں آٹے اور
گندم کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ وزارت خوراک کے ا عداد و شمار
کے مطابق اس وقت ملک میں مجموعی طور پر 41 لاکھ 44 ہزار ٹن گندم سرکاری
گوداموں میں موجود ہے تاہم فلور ملوں اور بڑے زمینداروں کی جانب سے ذخیرہ
اندوزی کے باعث مصنوعی بحران نے ملک بھر کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔وفاقی
وزارت خوراک کے مطابق ر واں سیزن کے دوران سرکاری سطح پر صوبوں نے کاشتکار
سے مجموعی طور پر 40 لاکھ 18 ہزار ٹن گندم کی خریداری کی۔ سندھ حکومت کی
جانب سے گندم کی سرکاری خریداری صفر رہی۔ایک محتاط اندازے کے مطابق گندم کی
کْل خریداری 40 لاکھ 18 ہزار ٹن حجم میں سے 67 ہزار ٹن گندم خریداری کے
موسم میں کرپشن کی نظر ہو جاتی ہے۔
حزب اختلا ف کی سیاسی جماعتیں آٹا بحران کو لے کر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیکر
اپنی اپنی خفت مٹانے کی درپے ہیں۔ چینی یا آٹا کا بحران ہو تو جہانگیر ترین
اور خسرو بخیتار کا نام لیا جاتا ہے کہ ان بحرانوں کے پیجھے یہ بااثر سیاسی
شخصیات ہیں کیونکہ شوگر ، فلور ملیں اور گندم کے یہ بڑے مالکان اور زمیندار
شمار کیے جاتے ہیں۔ گندم کی در آمد میں تاخیر اور ایران و افغانستان سمگلنگ
بھی بحران کی وجہ ہو سکتی ہے۔حکومتی نااہلی بھی آٹا بحران کی ایک بڑی وجہ
ہے۔حکومتی ترجمان وزراء بھی اپنی اپنی ہانک رہے ہیں کسی کو کچھ پتا نہیں کہ
اصل حقائق کیا ہیں اور ان کا تدارک کیسے کیا جا سکتا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے
کہ طلب و رسد کو مانیٹر کرنے والے ادارے پلاننگ کرنے میں نااہل ہیں یہی وجہ
ہے کہ گندم کے ذخیرہ اور طلب کا اندازہ کئے بغیر حکومت نے برآمد جاری رکھی۔
ملک میں پہلے پانچ لاکھ میڑک ٹن گندم برآمد کی گئی اور اب ذخائر کو مدنظر
رکھے بغیر دوبارہ تین لاکھ ٹن درآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔یاد رہے کہ
پاکستان بیس سالوں میں دوسری مرتبہ گندم درآمد کرے گا۔اس وقت بھی پرویز
الہی ، جہانگیر ترین اور خسرو بختیار حکومت کا حصہ تھے اور موجودہ حکومت
میں بھی یہ تینوں شخصیات براجمان ہیں۔منگوائی گئی گندم 31 مارچ کو پاکستان
پہنچے گی جبکہ سندھ کے زمینداروں کی گندم کی فصل 15 مارچ تک مارکیٹ میں
پہنچ جائیگی یو ں مقامی کسان کو نقصان پہنچے گا۔ برآمد اور درآمدکے چکرمیں
بھی منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں نے خوب مال پانی بنایا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کا اعتماد بحال کر نے کے لیے ایسے مثبت اور
تعمیری اقداما ت کرے جس سے عام آدمی کا حکومت پر اعتماد بحال ہو۔ اشیاء
خوردونوش کی قیمتوں میں بے لگام اضافہ کو پرائس مجسٹریٹس کے ذریعے حکومتی
نرخوں پر یقینی بنایا جائے ۔ عام آدمی کوریلیف فراہم کرے تاکہ اس کی قوت
خرید بحال ہو سکے۔ اگرچہ پرائم منسٹرنے ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں
ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے جو آٹا بحران کی تحقیقات کرے گی۔میں حکومت
سے گذارش کروں گا کہ اگر کوئی مافیا یا حکومتی ادارہ اس بحران میں ملوث
پایا جائے تو اسے قرار واقعی سزاء دی جائے چاہے وہ حکومتی صفوں سے ہی کیوں
نہ ہو، تاکہ آئیندہ ایسا کرنے کا کوئی سوچ بھی نہ سکے۔حکومت کو انتظامی
افسران پر گورنر امیر محمد خان کی طرح کڑی نگرانی رکھنی ہو گی تاکہ وہ عوام
کے حقیقی خادم بن کر ڈیلور کر سکیں اور ملک معاشی و معاشرتی سطح پر ترقی کر
سکے۔میں حکومت کو خبردار کرتا ہوں کہ اگر حکومت نے اپنی نااہلیوں پر جلد
قابو نہ پایا تو پھر حالات افراتفری کی طرف مائل ہو سکتے ہیں جس کا ہمارا
ملک متحمل نہیں ہو سکتاحکومت کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے۔میڈیا کو بھی چاہیے
کہ وہ کسی بھی ایشوکو اندھا دھند رپورٹ کرنے کے بجائے ایسے معاملات کو زیر
بحث لائے جس سے تعمیری سوچ پروان چڑھ سکے۔
|