عمران خان نہ صرف اچھے کھلاڑی تھے بلکہ وہ ایکا کامیاب
سیاستدان، ایک مصلح قوم ایک ماہر معیشت کےطور پر بھی اپنا لوہا منوا چکے
ہیں ۔
انکی کامیاب پالیسیوں کے سبب ملک میں ہفت وار مہنگائی بڑھ رہی ہے ۔جو ا نکے
نزدیک خوش آئند ہے۔
وہ خود ایک درویش طبیعت انسان ہیں مادی چیزوں سے دور رہتے ہیں ۔یار دوست
کھلا پلا دیتے ہیں ۔وہ صبر شکر کرکے کھا لیتے ہیں ۔
انہوں نے ایک قیمتی نکتہ بیان کیا ہے کہ ہماری پالیسوں کے نتیجے میں تیس
فیصد امپورٹ میں کمی واقع ہوئی ہے۔جس کے نتیجے میں برامدی اشیاء کی قیمتوں
میں تیس فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔مگر وہ خود یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ تیس
فیصد امپورٹ کم ہونے سے اندرونی پیداواری اشیاء مثلا آٹا چاول چینی دودھ
گوشت میں 50/52 فیصد اضافہ کیوں ہوچکا ہے۔اور مالیاتی تجزیوں کے مطابق
مہنگائی میں ہفتہ وار بیس فیصد کیوں اضافہ ہورہا ہے جس کے نتیجے میں اگلے
پانچ چھ ماہ میں بتدریج 100 فیصد اضافہ
متوقع ہے۔
خان صاحب ایک motivational speaker بھی ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں ۔دل
مضبوط رکھو۔
میرے ہوتے ہوئے سکون و اطمینان کی توقع رکھنا بیکار ہے۔
کیونکہ زندگی میں خوشیاں نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی یہ خوشی اطمینان
افسانوی باتیں ہیں ۔
عوام کیلئے روزگار ختم کرکے مفت لنگر سجا دئیے گئے ہیں ۔
جہاں کے کھاتے وزیراعظم ہاوس سے بھی زیادہ مزیدار ہیں ۔
وزیر تجارت رزاق داود عوام کی جہالت پرجھنجلا اٹھے ہیں
وہ کہتے ہیں کہ عوام بہت ہی بے صبری اور کم عقل یے ۔
کچھ عقل و فہم سے کام لے۔
البتہ اگر کوئی زیادہ گھبراہٹ کا شکار ہے تو قبر میں جاکر اطمینان سے رہیے
۔
وہی آپکے لئے گوشہ عافیت ہوگا۔
مرغی انڈوں بھینس پالیسی کی کامیابی کے بعد حکومت
اس سلسلے میں جلد کوئی اسکیم متعارف کروائے گی۔
جسکے بعد نہ صرف عوام کافی ریلیف محسوس کرنے لگیں گے ۔بلکہ آبادی میں بھی
خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔
حال ہی میں ا نہوں نے اپنی معیشت کی کامیابی دیکھنے
کیلئے utility store کا دورہ کیا وہاں وہ یہ دیکھ کر
خوش ہوئے کہ مارکیٹ میں کوئی گاہک موجود نہیں تھا
یقینا وہ سب اطمینان کی تلاش میں نکل گئے ہونگے اور مہگائی سے بے نیاز
ہوچکے ہوں گے۔
واقفان حال بتاتے ہیں جب وزیر اعظم نے گوشت مارکیٹ کا دورہ کیا تو انتہائی
توصاف و شفاف مارکیٹ میں چہل قدمی کرتے ہوئے وزیراعظم ایک قصائی کے پاس
جاکر کھڑے ہوئے اور ان سے بات چیت کے بعد ان کے پاس موجود صاف و شفاف گوشت
دیکھ کر تعریف کی اور پوچھا گوشت تو خوب بکتا ہوگا؟۔
قصائی : گوشت تو واقعی اچھا ہے لیکن آج ابھی تک صبح سے ایک کلو بھی فروخت
نہیں ہوا-
وزیراعظم : فروخت نہ ہونے کی کیا وجہ ہے؟
قصائی : کیونکہ آپ کے آنے کے سبب خریداروں کو مارکیٹ آنے ہی نہیں دیا گیا -
وزیراعظم : اوہو پھر تو میں چار کلو خرید لوں گا -
قصائی : میں آپ کو گوشت نہیں دے سکتا -
وزیراعظم : کیوں؟
قصائی:کیونکہ آپ کی حفاظت کے لئے ہم سے چھریاں لے لی گئی ہیں۔
وزیراعظم : تو تم بغیر کاٹے بھی مجھے دے سکتے ہو
قصائی : نہیں میں نہیں دے سکتا -
وزیراعظم : کیوں؟
قصائی : کیونکہ میں سیکیورٹی ادارے کا آفیسر ہوں،قصائی نہیں-
وزیراعظم (غصے سے) : جاؤ فوری طور پر اپنے سینئر آفیسر کو بلا کر لاؤ
قصائی : سوری سر ایسا نہیں ہو سکتا
وزیراعظم:کیوں؟
قصائی : کیونکہ سامنے والی دوکان پر وہ مچھلی فروش بن کر کھڑے ہیں۔ اس
دوران گفتگو M D utility store
نے وزیراعظم کو آگاہ کیا کہ پاکستان میں لوگوں کے منہ بند کرنے کے دس ہزار
طریقے ہیں ۔بات سمجھنا چاہتے ہیں تو مجھ سے سمجھ لیں ۔عمر لودھی نے مزید
کہا کہ کسی کا منہ بند کرنا ہوتو پانچ کلو آتا یا چینی دے دیں پتہ نہیں آپ
کو کب عقل آئے گی۔
خانصاحب کو عقل اچکی ہے انکی فاتحانہ انداز میں
یوٹیلیٹی اسٹور کے دورے کی جھلک زیر نطر تصویر میں
بخوبی دیکھی جاسکتی ہے۔جو زبان حال سے انکی دلی کیفیت بیان کررہی ہے۔
اکبر الا ابادی نے کیا خوب کہا تھا !
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی کلرکی کر اور خوشی سے پھول جا۔
محمد منورسعید
|