امیت شاہ: کل یگ کے چانکیہ کا عبرت ناک انجام

اس سرخی سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ امیت شاہ نے وزیرداخلہ کا عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے بلکہ ابھی تووہ نہ نہ کرکے صرف پارٹی کی صدارت سے دستبردار ہوئے ہیں جلد یا بہ دیر وہ خوشخبری بھی آجائے گی ۔ راجناتھ سنگھ نے مئی ؁۲۰۱۴ میں وزیرداخلہ بننے کے بعد دوماہ کے اندر جولائی میں پارٹی کی صدارت امیت شاہ کو سونپ دی تھی ۔ امیت شاہ اپنے پیش رو کی مانند آسانی سے صدارت نہیں چھوڑ سکے بلکہ جے پی نڈا کو عبوری ذمہ داری تھما کر خود پارٹی کی کمان سنبھالے رہے۔ وزیر داخلہ بن جانے کے باوجود سارے تنظیمی فیصلے و ہی صادر فرماتے رہے۔ مختلف ریاستوں میں منعقد ہونے والے انتخابات کی حکمت عملی بناتے رہے اور مہمات چلاتے رہے ۔ یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ پارٹی میں کوئی عبوری صدر بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاہ جی کو اپنے چانکیہ ہونے کا بہت گھمنڈ تھا مگر وہی خودپسندی اور رعونت ان کی ذلت و رسوائی کا سبب بن گئی۔

قومی انتخاب سے فوراً پہلے اور بعد میں ملک کے اندر۶ صوبوں میں انتخابات کا انعقاد ہوا۔ ان میں سے ایک بھی مقام پر شاہ جی بی جے پی کو اکثریت دلانے میں کامیاب نہ ہوسکے اور ہر جگہ پارٹی کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ ایک کامیاب سپہ سالار کی حیثیت سے سبکدوش ہونے کے چکر میں شاہ جی نے بہت ہاتھ پیر مارا لیکن مشیت ایزدی نے ہر چال کو ان کے سر پر الٹ دی ۔ قومی انتخاب میں زبردست کامیابی کے باوجود ہریانہ میں وہ کسی طرح جوڑ توڑ کرکے حکومت سازی میں تو کامیاب ہوگئے لیکن مہاراشٹر میں اقتدار کا پیالہ بالکل ہونٹوں کے پاس آکر چھن گیا اور وہ ہاتھ ملتے رہ گئے۔ جھارکھنڈ میں ایسی کراری ہار ملی کہ شاہ جی کو حکومت سازی کا خیال تک نہیں آیا ۔ اس طرح امیت شاہ کی صدارت کے ساتھ ان کا چانکیہ والا لقب بھی دریا برد ہوگیا ۔ انہوں نے کل یگ کا چانکیہ نامی لقب کو اتنا بدنام کردیا ہے کہ اگر کوئی جے پی نڈا کو اس نام سے پکارے تو بعید نہیں وہ اس کا منہ نوچ لیں گے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کو اپنی داخلی جمہوریت پر بڑا فخر ہے اور وہ آئے دن اپنے حریفوں پر طنز و تشنیع کرتی رہتی ہے لیکن اس کے باوجود پارٹی کے اندر صدارت کے لیے انتخاب کبھی نہیں ہوتا ۔ کوئی ایک نام پارٹی کے رہنما کی مرضی یا سنگھ کے مرکز کی جانب سے تجویز کیاجاتا ہے اور سبھی لوگ اس کی تائید کردیتے ہیں ۔ اس بار بھی یہی ہوا کہ وزیراعظم مودی ، وزیردفاع راجناتھ ، وزیر مواصلات گڈکری سمیت سارے وزرائے اعلیٰ اور ان کے نائبین نے جے پی نڈا کا نام پیش کیا اور اتفاق رائے سے انتخاب ہو گیا۔ سوال یہ ہے کسی اور نے اپنا کاغذات نامزدگی داخل کرکے جے پی نڈا کو چیلنج کرنے کی جرأت کیوں نہیں کی ؟ شاید اس لیے کہ ایسا کرنا مودی سے بغاوت مانا جاتا اور آگے چل کراس بیچارے کا قافیہ تنگ کردیا جاتا۔ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ نئے صدر کا نام پیش کرنے والوں میں سابق صدر امیت شاہ کا نام کیوں شامل نہیں تھا ؟ کیا وہ نہیں چاہتے کہ جے پی نڈا صدر بنیں ؟ وہ کسی اور کو صدارت پر دیکھنے کے خواہشمند تھے یا انہیں اپنے سوا کوئی اس عہدے کے لیے مناسب نظر نہیں آتا تھا اور آئینی نے انہیں اس پر مجبورکیا۔

جے پی نڈا کی تاجپوشی کے وقت اگر وزیراعظم کی تقریر نہ ہوتی تو کس کی ہوتی؟ انہوں اپنی مشہور زمانہ لفاظی سے تعریف کے پلُ باندھتے ہوے کہا کہ نڈا جی نے پارٹی کی ترقی میں بڑا حصہ لگایا ہے ۔ یہ بات انہیں اس لیے معلوم ہے کہ انہوں نے نڈا کے ساتھ اسکوٹر پر بیٹھ کر پارٹی کا کام کیا ہے۔ بی جے پی کے ڈھونگ دھتورے میں مودی جی کی چائے اور اسکوٹر کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ نہ جانے کس کس نے ان کی خیالی چائے پی کر تصوراتی اسکوٹر کی سواری کی ہے۔ سابق صدر امیت شاہ کے بارے میں مودی نے اختصار سے کام لیتے ہوے بس اتنا کہا کہ ان کی مدت کار کو تین باتوں کے لیے یاد کیا جائے گا۔ پہلی تو ٹکنالوجی ، دوسرے پارٹی کی توسیع اور کارکنان کے لیے کام کرنا ۔ اس میں قوم کی کسی خدمت کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ انتخاب میں کامیابی کا کریڈٹ دیتے وقت بھی انہوں نے رسماً امیت شاہ کے ساتھ راجناتھ کو شریک کردیا کیونکہ وہ اس کا سہرہ اپنے سوا کسی کے سر باندھ ہی نہیں سکتے ۔

اس تقریب کی اہم ترین بات یہ ہے کہ اپنے بعد آنے والے کے صدر کے استقبال میں امیت شاہ کی زبان سے ایک لفظ بھی نہیں پھوٹا۔اس طرح کی نرگسیت کا شکار پہلے تو صرف مودی تھے لیکن اب شاہ بھی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایسی نفسیات کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دور تک اور دیرتک نہیں چل پاتے ۔ مودی اور شاہ کا ساتھ کب تک قائم و دائم رہتا ہے یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ان دونوں کے درمیان کا خط مستقیم اب ایک ن مثلث میں تبدیل ہو گیا ہے۔انسٹھ سالہ جے پی نڈا کو وزیر اعظم نریندر مودی اور امیت شاہ کے انتہائیفرمانبردار دست راست سمجھا جاتاہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی بساط پر کوئی کسی کا وفادار نہیں ہوتا ۔ ایک زمانے میں مودی بھی اڈوانی کے سعادتمند شاگرد ہوا کرتے لیکن موقع ملنے پر انہوں اپنے گرو کے ساتھ وہی کیا جو اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے پیش رو حکمراں شاہجہاں کے ساتھ کیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ ان دونوں کے درمیان باپ بیٹے کا رشتہ بھی تھا لیکن اقتدار کے بعد اس کی حیثیت ثانوی ہوگئی تھی۔ فی الحال یشونت سنہا اور جینت سنہا کا بھی یہی حال ہے۔

جے پی نڈا کی تاجپوشی کے وقت وزیراعظم نریندر مودی نےیہ اہم انکشاف کیا کہ اقتدار میں رہتے ہوئے پارٹی کو چلانا ایک بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ایسے میں سیاسی جماعت بھی سرکار کا حصہ لگنے لگتی ہے ۔ وزیراعظم نے یہ عہد کیا کہ ہم حکومت اور جماعت کے بیچ کی لکیر کو مٹنے نہیں دیں گے ۔ یہ دعویٰ کرناجتنا آسان ہے اس پر عمل آوری اتنی ہی مشکل ہے ۔ جے پی نڈا نے بی جے پی کی قیادت ایک ایسے وقت میں سنبھالی ہے، جب متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ عالمی سطح پر اس قانون نے ملک کو بدنام کردیا ہے۔ مظاہرین میں پھوٹ ڈالنے کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیں، مگر شاہ جی اس پر اڑے ہوئے ہیں ۔

حکومت کے ناعاقبت اندیشانہ فیصلے کی حمایت میں پارٹی کو میدان میں آنا پڑا ہے ۔اس نازک صورتحال میں بی جے پی کو گھر گھر جاکر لوگوں کو سمجھاناپڑ رہا ہے ۔ آسام اور دیگر کئی مقامات پرعوام ڈنڈا لے کر بی جے پی کارکنان کی خبر لے رہے ہیں ۔ مسلمانوں کے علاوہ ہندو لوگ بھی انہیں دوڑا رہے ہیں ۔ مجبوراً اسے بلاواسطہ موبائل کے ذریعہ رابطے کا راستہ اختیار کرنا پڑا تاکہ عوام کے غم وغصے سے بچا جاسکے ۔ دنیا کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کا دم بھرنے والی بی جے پی فی الحال مس کال کے ذریعہ عوام کی حمایتجٹانے کے لیے گڑگڑا رہی ہے۔ مودی سرکار اس سے قبل بڑی بڑی غلطیاں کرچکی ہے لیکن ایسی نوبت نہ تو نوٹ بندی کے بعدآئی تھی اور ن یہ حالت ہ دفع ۳۷۰ کو ختم کرنے بعد ہوئی ۔ ایسے میں امیت شاہ سے وراثت میں ملنے والے مسائل سے نڈا کیسے نمٹیں گے یہ تو وقت ہی بتائےگا؟

بی جے پی کے سابق مرکزی وزیر یشونت سنہاکے مطابق امیت شاہ نے پارٹی میں ایک کارکن کی طرح نہیں بلکہ آقاکی طرح کام کیا اوربی جے پی کے تشخص کو اندر اور باہر دونوں ہی جگہ بدل کر رکھ دیا ۔ یہ اب ایک کارپوریٹ کمپنی بن کر رہ گئی ہے۔ امیت شاہ کے برعکس جے پی نڈا چونکہ مستقل مزاج اور ہنس مکھ شخصیت کے مالک کم گو انسان ہیں اس لیے پارٹی کلچر پر اس کا جزوی اثر ضرور پڑے گا ۔ وائس چانسلر کے بیٹے جے پی نڈا کی کوئی ڈگری جعلی نہیں ہے۔وہ مودی جی کی طرح چائے بیچنے کا پاکھنڈ نہیں کرتے اور نہ انہوں نے شاہ جی کی مانندغنڈوں کی صحبت میں رہ کر رنگدار ی وصول کرنے کا کاروبار کیا ہے۔ اس کے باوجود امکان کم ہے کہ امیت شاہ کے اثرات پارٹی پر کم ہو ں گے کیونکہ کانگریس کی طرح بی جے پی میں پارٹی کا صدر سب سے زیادہ طاقت ور نہیں ہوتا بلکہ وہاں وزیر اعظم ہی سب کچھ ہوتاہے اور مودی راج کا کلمہ ہی ہے کہ ’’ہر ہر مودی ، گھر گھر مودی ‘۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449996 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.