پاکستان کی ترقی وخوشحالی کا
ضامن کالا باغ ڈیم.....کالا باغ ڈیم کی تعمیر گھٹائی کا شکار کیوں ..؟
سیاستدانوں کی انا اور خود غرضی اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر......
آج میرا ملک سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی وجہ سے جن سنگین بحرانوں میں
مبتلا ہے ،اَب اِن سے نکلنا اِس کے لئے دن بدن مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا
ہے،اِس کی کیا وجہ ہے ...؟یہ بھی حکمرانِ وقت ،سیاستدان اور مدبرانِ قوم کو
بھی معلوم ہے ،مگر افسوس ہے کہ آج مصالحت پسندی کے بھنور میں جکڑے افراد
میں سے کوئی بھی ایسا دانا شخص موجود نہیں ہے جو ملک کو اِن بحرانوں سے
نکالنے کے لئے ایک قدم بھی آگے بڑھ کر اِسے تھام لے اور کو ئی تجویز دے سکے
کہ ملک اِن سنگین بحرانوں کے دلدل سے نکال جائے جن میں یہ دھنستا چلا جا
رہا ہے۔
اگرچہ اِس سے انکار ممکن نہیں کہ میرے ملک کو اِن سنگین بحرانوں سے دوچار
کرنے میں 63سالوں میں اِس پر حکمرانی کرنے والے اُن سول اور فوجی حاکم وقت
اور اناپرست سیاستدانوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے ،جن کی محدود سوچوں اور ناعاقبت
اندیشیوں اور اِن کی ناقص حکمت عملیوں نے اِسے اِس نہج پر پہنچانے اور
مسائل پیدا کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے، جو اِس سمیت اور دوسرے ڈیموں کی
تعمیر کے مخالف رہے اور جنہوں نے ملک میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت
کو اپنی سیاست کا اُوڑھنا بچھونا بنایا،اور اِنہوں نے ملکی ایوانوں اور
عوامی جلسے جلوسوں میں بالخصوص کالا باغ ڈیم اور دوسرے ڈیموں کی تعمیر کی
مخالفت کو کھلم کھلا اپنی تقریروں اور اپنی شعلہ بیانی کے ذریعے اپنی سیاست
چمکانے کا ایک بہترین ذریعہ قراد دے کر اپنے عوام کو بھی اِس کی مخالفت کے
لئے بھڑکایا اور اِس طرح یہ سیاست دان اپنی آخری سانسوں تک کالا باغ کی
تعمیر کی مخالفت پر قائم رہے ،اور اِس کی تعمیر کو اپنی انا کی زینت بنائے
رہے آج جن میں سے کچھ تو اپنی زندگیوں سے گزر گئے اور کچھ باقی بچے ہیں وہ
سیاست سے ریٹائرڈ ہوچکے ہیں ۔اور اَب اِن کا چھوڑا ہوا یہی کام ملکی سیاست
میں آنے والے اِن کے شاگرد اور اِن کے ہمدرد کر رہے ہیں۔ جس پر ہم جیسے
پاکستانی کا دل ملول ہے اپنی اِسی کیفیت پر یہ شعر یا د آگیا کہ
سینہ غم حیات میں اپنا ہے داغ داغ
روشن ہیں اُن کی راہوں میں ہرہر قدم چراغ
اک ہم کہ کالاباغ کے غم میں ملول ہیں
اک وہ مسرتوں کے دکھاتے ہیں سبز باغ
یہاں یہ امر قرار واقع ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر ایک خوشحال اور مستحکم
پاکستان کے لئے اتنی ہی لازم وملزوم ہے جتنی کسی انسان کو زندہ رہنے کے لئے
ہوا،پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے ،اسی طرح پاکستان کو بھی اپنے مستقبل
کی راہ پر پہلا قدم رکھنے کے لئے کالا باغ ڈیم اور اِس جیسے سیکڑوں اور
ہزاروں چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر ایک ایسا زینہ ثابت ہوسکتی ہے جس کے ذریعے
پاکستان خوشحالی کی منزلیں سر کر سکتا ہے مگر اِس سے قطع نظر یہ کہ اِن
ساری باتوں کے باوجود بھی اِس کی تعمیر کو دانستہ طور پر ایک متنازع مسئلہ
بنا کر یوں پیش کر دیا گیا ہے کہ جیسے اگر یہ تعمیر ہوگیا تو خدا جانے ملک
پر کون سی آفت آپڑے گی۔
یہاں یہ امر اِنتہائی حوصلہ شکن ہے کہ ایک اندازے کے مطابق 1985یا اِس سے
کچھ سال پہلے یا بعد سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر ہمارے یہاں سیاسی ماحول
میں شدت آئی، ایک طبقہ اِس کی تعمیر کے حق میں رہا تو دوسرے نے اِس کی
مخالفت کو اپنی موت اور زندگی کے مسئلے سے تعبیر کیا اور آخرکار دوسرے طبقے
کی مخالفت کا یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ ہمارا ملک توانائی اور پانی کے
بحرانوں سے اِس قدر دوچار ہوگیا ہے کہ اِن کے بغیر ملک کی ترقی یقینی طور
پر رک کر رہ گئی ہے،جو کسی بھی لحاظ میں ملک اور قوم کے بہتر مفادات میں
نہیں ہے۔
اگرچہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ملک کو اُوپری سطور میں درج جن مسائل سے
دانستہ طور پر دوچار کرانے کے لئے ہمارے یہاں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی
مخالفت ایک مخصوص سوچ اور محض مفرضوں کی بنیاد پر دو صوبوں سے تعلق رکھنے
والے ملک کے طاقتور ترین طبقے نے کی ہے اِن کی جانب سے کالا باغ ڈیم سمیت
اور دوسرے ڈیموں کی تعمیر کی مخالفت اب تک پوری شدت سے جاری ہے اِن میں سے
صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں، عوام اور وڈیروں کا خیال یہ ہے
کہ اگر کالا باغ ڈیم کی تکمیل ہوگئی تو اِن کے صوبے کو ملنے والے پانی کی
مقدار کم ہوجائے گی اور ان کے صوبے کے سمندر میں پانی کم آئے گا جس سے اِن
کے کچھ علاقے جیسے ٹھٹھہ اور بدین سمیت اِن سے ملحقہ علاقے بری طرح سے
متاثر ہوں گے اور جس کی وجہ سے یہاں کی زمینوں کا ایک بڑا رقبہ بنجر ہوجائے
گا جو یہاں کے لوگ کسی بھی حال میں برداشت نہیں کریں گے اور صوبے میں ایک
سیاسی بحرانی کیفیت جنم لے گی ،جو کسی بھی حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنچ ہوگی
اِس لئے اِس صُورت حال سے بچنے کے لئے کالا باغ ڈیم تعمیر نہ کیا جائے تو
نہ صرف صوبے کے لئے ہی بہتر ہوگا بلکہ ملکی سیاست کے لحاظ سے بھی یہ کیفیت
مناسب نہ ہوگی اور اِسی طرح دوسرے صوبے سے تعلق رکھنے والے اکثر لوگوں کا
یہ خودساختہ مفروضہ ہے کہ اگر کالا باغ ڈیم بن گیا تو اِن کے صوبے خیبر
پختونخواہ کے کچھ علاقے خاص طور پر نوشہرہ اور دیگر علاقوں کو اِس میں آنے
والے زائد پانی سے شدید خطرات لاحق ہوں گے اور وہ کسی بھی وقت ڈوب سکتے ہیں
۔
اَب یہاں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ کالا باغ ڈیم کے مخالفین اِس کی تعمیر پر
اپنی بیجا مخالفت کر کے جہاں اپنی تسکین کررہے ہیں تو وہیں یہ لوگ اِس طرح
اپنے ازلی پڑوسی دشمن ملک بھارت کے اُن عزائم کی بھی تکمیل میں اپنی
بھرپورمعاونت کررہے ہیں جو یہ نہیں چاہتا ہے کہ پاکستان میں کالا باغ ڈیم
جیسا کوئی ایسا منصوبہ تیار ہوسکے جو پاکستان کی زرعی اور توانائی کے شعبوں
میں اپنا متحرک فعال انجام دے سکے۔اور اِسے اِن دونوں شعبوں کے مسائل سے
چھٹکارہ دلاکر اِسے ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرسکے۔
جبکہ اَب یہ حقیقت بھی پوری طرح نہ صرف پاکستانی قوم پر بلکہ ساری دنیا پر
بھی عیاں ہوچکی ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق فیریبلیٹی کا کام
مکمل ہوئے بھی ایک عشرہ گزر چکا ہے مگر اِس کی تعمیر میں سب سے بڑی رکاوٹ
یہ ہی دو صوبے ہیں جنہوں نے اپنے تئیں مفروضے قائم کر کے اِس کی مخالفت
شروع کر رکھی ہے جس کا نقصان پوری قوم کو توانائی اور خوراک کے بحرانوں کا
سامنا کرنے بھگتنا پڑ رہا ہے۔
آج لاقانونیت ہے امن کا فقدان ہے
آج ہر کالج ہماراجنگ کا میدان ہے
جس طرف بھی جائیے طوفان ہی طوفان ہے
جس طرف کو دیکھئے بحران ہی بحران ہے
اگرچہ آج اِس بات کا انکار کالا باغ ڈیم کے مخالفین خود بھی نہ کرسکیں گے
اِن کی اِس بیجا مخالفت کی وجہ سے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا عمل رک
کر رہ گیا ہے اور اِن کی بے مقصد مخالفت کی وجہ سے ہی آج میرے ملک کے لوگوں
کو بجلی کی شدید لوڈشیڈنگ کا جو عذاب سہنا پڑ رہا ہے اِس کے بھی یہی عناصر
ذمہ دار ہیں جنہوں نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو اپنی اپنی انا کا مسئلہ بنا
رکھا ہے۔اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگرآج ملک میں کالا باغ
ڈیم جس کی اونچائی912فٹ ہے تعمیر ہوچکا ہوتا تو ملک میں اعدادوشمار کے
مطابق26.1ملین ایکٹر فٹ بارش کا وہ پانی جو ہم سمندر کی نظر کردیتے ہیں وہ
سمندر میں جانے سے رہ جاتا اور اِس طرح اِسے ہم جمع کر کے اِس سے وہ سارے
کام لے سکتے تھے جس کی عدم دستیابی سے آج ہم طرح طرح کے بحرانوں جن میں
پانی اور بجلی کا بحران سرفہرست ہے اِن سے دوچار ہیں۔
اور اِسی طرح کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ملک میں فوری طور پر حکومت سنجیدگی کا مظاہر ہ
کرے تو کالا باغ ڈیم کی تعمیر اِس کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے یہ اِس ڈیم
کی افادیت سے اُن لوگوں کو آگاہ کرے جو اِس کی مخالفت کو اپنی انا کا مسئلہ
بناکر ملک کو مسائل سے دور کئے ہوئے ہیں اِن کا کہنا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی
تعمیر سے ہم ملک میں ہر سال ہونے والی بارش سے 6.1ملین ایکٹر پانی جمع کر
کے اِس سے صوبہ سندہ کے 8لاکھ ایکٹر،صوبہ پنجاب کے6لاکھ 80ہزار ایکڑ،صوبہ
بلوچستان کے5لاکھ 10ہزار ایکٹر اور اِسی طرح صوبہ خیبر پختونخواہ کے
4لاکھ40ہزار ایکٹر کا زائد رقبہ زیرکاشت کرسکتے ہیں۔ جس سے ملک میں اجناس
کی پیداوار میں جہاں اضافہ ہوگا تو وہیں ہم اُپنی ضروریات کو پورا کرنے کے
علاوہ اِس سے عالمی منڈیوں تک رسائی دلاکر اربوں ڈالر زرِمبادلہ بھی کما
سکتے ہیں اور اِس کے ساتھ ہی اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ڈیم ہمیں بنیادی
طور پر30ملین ایکٹر فٹ پانی اور ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے فوری
طورپر 36000میگاواٹ بجلی بڑی آسانی سے دے سکتا ہے۔
مگر یہاں ضرورت تو اِس امر کی ہے کہ سیاسی مصالحتوں کو بالائے طاق رکھتے
ہوئے ،ملک کی تمام بڑی چھوٹی سیاسی جماعتوں کو اِس نکتے پر باہم متحد اور
منظم کرنے اور خالصتاَ َقومی اتفاق رائے کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اِن تمام
خوبیوں کے حامل اِس کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے کون ہے ....؟جو آگے بڑھ
کر ملک کو مسائل سے نجات دلانے میں اپنی خدمات انجام دے سکتا ہے۔ |