فسطائی قیادت، بھارت بدترین خطرناک ملک قرار

انتہا پسندی، تنگ نظری، عدم برداشت، اورعدم رواداری جیسے افعال بد واعمال بد کو کسی مہذب جمہوری معاشرے میں زیادہ عرصہ تک اگر پنپنے دیا جائے تو گھٹن زدہ ایسے سماج اور ایسے معاشرے تادیر اپنا مستقبل برقرار نہیں رکھ پاتے، ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں اور بکھر جا تے ہیں۔

عوامی جمہوریت کی نشوونما وسیع النظر،وسعت قلب،فکری آزادی کے ہمہ گیر انسانیت پرور ماحول میں ہی پروان چڑھ پاتی ہے، کسی نگرانی چوکسی اورروک ٹوک کے بغیر کھلے ڈلے سماجی اور معاشرتی ماحول میں جمہوریت کے ثمرات عوامی دہلیز تک بہت تیزی سے پہنچتے ہیں۔

جمہوریت کی ترقی سے اقوام کی ترقی فروغ پاتی ہے اور انسان اپنے آپ کو آزاد جمہوری معاشروں میں باوقار تصور کرتا ہے۔ قوموں کی فلاح وبہبود اْن کے جان ومال کا تحفظ اْن کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے معاملات جمہوریت کے بنیادی اصول وضوابط سے پیوستہ ہوتے ہیں اصل میں یہی جمہوریت کہلاتی ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریہ سمجھا جانے والا بھارت نریندر مودی کے دورِ حکومت میں آر ایس ایس کی فسطائی فکر کا جس بری طرح شکار ہو چکا ہے، دنیا اُسے اب بچشم سر دیکھ رہی ہے۔
نریندر مودی کی سخت گیر ہندو پالیسی نے خود بھارت کی داخلی سیاست میں بے پناہ مسائل پیدا کردیے ہیں۔بھارت سمیت عالمی دُنیا میں بھی بھارت کی تصویر منفی انداز میں پیش ہورہی ہے۔

بین الاقوامی ادارے اسپیکٹیٹر انڈیکس نے بھارت کو دُنیا بھر میں رہنے کیلئے 5واں بدترین خطرناک ملک قرار دیدیا۔ عالمی ادارے اسپیکٹیٹر انڈیکس نے 2019ء کیلئے دُنیا بھر کے 20 خطرناک ممالک کی فہرست جاری کردی،فہرست میں برازیل پہلے، جنوبی افریقا دوسرے، نائیجریا تیسرے اور ارجنٹینا چوتھے نمبر پر ہیں،فہرست میں پیرو چھٹے،کینیا ساتویں، یوکرین آٹھویں،ترکی نویں اورکولمبیا دسویں نمبر پرموجود ہیں،حیرت انگیز طور پر اسپیکٹیٹر انڈیکس کی فہرست میں برطانیہ 12 ویں اور امریکا 16 ویں نمبر پر ہے، فہرست کے مطابق میکسیکو کو گیارہویں نمبر پر دُنیا کا خطرناک ترین ملک قرردیا گیا ہے، تیرہویں نمبر پرمصر، چودھویں نمبر پرفلپائن،پندرہویں نمبر پر اٹلی، سترہویں پر انڈونیشیا، اٹھارہویں پریونان، انیسویں پر کویت اور بیسویں نمبر پر تھائی،لینڈ شامل ہے،بھارت کو فہرست میں پانچویں نمبر پرخطرناک ملک قرار دیا گیا ہے۔

مودی سرکار کی انسانیت سوز پالیساں نہ صرف مسلمانوں بلکہ خود بھارت کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو رہی ہیں۔

اس معاملے میں ایک طرف بھارت کی شدت پسند ہندو حکومت ہے تو دوسری طرف ہمیں بھارت کے میڈیا میں بھی ایسے سخت گیر ہندواتہ کی حمایت کرنے والے لوگوں کی اکثریت تجزیوں نگاروں، اینکرز پرسنز اور رپورٹروں کی غالب نظر آتی ہے جو ماحول میں کشیدگی یا انتہا پسندی کو ختم کرنے یا اسے چیلنج کرنے کی بجائے خود آگے بڑھ کر نریندر مودی کی حکومتی اقدامات کو کسی نہ کسی شکل میں تحفظ یا حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

بھارت کے سیکولر سیاست سے جڑے افراد سمجھتے ہیں کہ مودی حکومت ایک ایسا انتہا پسندی پر مبنی راستہ اختیار کررہی جو بھارت کو سیاسی، مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت بھار ت میں مودی مخالف عناصر میں جو نعرہ سب سے زیادہ مقبول ہورہا ہے اس میں ”ہمیں مودی کی بھارت نہیں بلکہ آئین کا بھارت“ درکار ہے۔ یہ سوچ ظاہر کرتی ہے کہ ا س وقت بھارت کی سرکار آئین اور قانون سے زیادہ مودی کی سخت گیر پالیسی سے آگے بڑھ رہی ہے اور مودی حکومت کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ اس ملک کا آئین اور قانون کیا کہتا ہے۔

یہ نعرے سیکولر سیاسی جماعتوں سے نکل کر سول سوسائٹی اور خاص طور پر یونیورسٹی کی سطح پر پڑھنے والے لڑکوں اور لڑکیوں مقبولیت حاصل کررہے ہیں۔ ویڈیوز میں نوجوانوں میں جوش اور مودی حکومت کے خلاف غصہ کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ اس غصہ میں مختلف شہروں کی یونیورسٹیوں کے ہندو اور مسلم نوجوان نمایاں نظر آتے ہیں۔

بہت سے مقامات پر ہندو اور مسلم اتحاد دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ہندو اور مسلم اکٹھے کھڑے یا ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہم میں کوئی نفرت نہیں بلکہ مودی حکومت خود نفرت کے بیج بو کر مسلم ہندو فساد کو بڑھا رہی ہے۔ یوم ِ جمہوریہ بھارت کے دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا، جس میں برسلز میں بھارت کے سفارت خانے میں احتجاج کیا گیا، یہ ہی مزاحمت ہمیں بھارت کی صورتحال کے تناظر میں عالمی انسانی حقوق سے جڑے اداروں کی مختلف رپورٹس میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ دُنیا کی سول سوسائٹی اس وقت بھارت کے داخلی معالات پر اپنی تشویش رکھتی ہے اور برملا یہ اعتراف کررہی ہے کہ مودی حکومت کا طرز عمل بھارت میں کئی حوالوں سے خطرناک رجحانات کی نشاندہی کرتا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں دُنیا کی تاریخ کا طویل ترین لاک ڈاون، کرفیو اور انسانی حقو ق کی بدترین پامالی پرپہلے ہی سخت مزاحمت موجود ہے۔ مودی سرکار کو ڈر ہے کہ اگر کرفیویا لاک ڈاون ختم کیا گیا تو اندر سے حکومت کو کشمیری نوجوانوں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کشمیر اور آسام کے معاملات کو دیکھیں تو اس کا جان بوجھ کر لسانی اور فرقہ وارانہ فساد میں بھی تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

بھارت پر ہندو برتری کی خواہشمند انتہا پسند اور نسل پرست نظریات کی قائل مودی حکومت قابض ہے۔ مودی حکومت نے 90 لاکھ کشمیریوں کو مقبوضہ کشمیر میں قیدکر رکھا ہے جس نے پوری دُنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

نسل پرستی اور شدت پسندی بھارتی وزیر اعظم کی رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے۔ مودی نے گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کو قتل کروایا۔ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد پورے بھارت میں اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے غنڈہ تنظیم آر ایس ایس کو بے لگام کردیا گیا۔

مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت کا خاتمہ مودی کی دہشتگرد سوچ کا عکاس ہے۔ مودی سرکار نے نام نہاد سیکولر بھارت کا اقتدار سنبھالتے ہی اپنے طے شدہ ایجنڈے کے تحت مقبوضہ وادی میں مظالم کا سلسلہ تیزکیا اورآزادی کے لیے آواز بلند کرنیوالے کشمیری نوجوانوں کو جدید ہتھیاروں اور پیلٹ گنوں کی فائرنگ کا چن چن کر نشانہ بنایا۔

بھارتی وحشت وبربریت کے خلاف کشمیری عوام کا ردعمل فطری تھا، چنانچہ مودی سرکارکی جنونیت نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں ایک نیا جذبہ پیدا کردیا جنھوں نے بھارتی فوجوں کے سامنے سینہ سپر ہوکر شہادتوں سے لبریز داستانیں رقم کیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے دُنیا بھر میں بھارتی قصاب کا مکروہ چہرہ دکھا دیا۔

بھارت نے کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے ترغیب و تخویف سمیت ہر ہتھکنڈہ آزمایا، مگر وہ کشمیریوں کے پائے استقلال میں ہلکی سی بھی لچک پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ جذبہ حریت کو بندوق و بارود سے نابود کرنا ممکن ہوتا تو تحریک آزادی کشمیر کب کی دم توڑ چکی ہوتی اور بھارتی فوج کے بے پناہ انسانیت سوز مظالم کے آگے کشمیری سرنگوں ہو جاتے لیکن ایسا نہیں ہوا اور آج پورا کشمیر بھارتی مظالم کے خلاف سینہ سپر ہے۔

مودی سرکار کے انوکھے مظالم کے باوجود کشمیری عوام نے اپنی پرعزم جدوجہد میں کوئی کمی نہیں آنے دی اور عالمی برادری کے سامنے ہندو انتہاء پسند مودی سرکارکا جنونی چہرہ بے نقاب کرنے کا سلسلہ بھی ساتھ ہی ساتھ جاری رکھا ہوا ہے۔

خود بھارت کے انصاف پسند حلقوں میں بھی مودی حکومت کے اس ناجائز اقدام کے خلاف شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔

مودی سرکار کی ہٹ دھرمی نہ صرف پڑوسی ممالک، بلکہ دُنیا کے امن کے لیے بھی خطرناک ہیں۔مودی سرکار کی فسطائی پالیسیوں کی وجہ سے بھارت رہنے کے لیے دُنیا کا پانچواں خطرناک ملک قرار دیا جا چکا ہے، جو کہ ان انسانیت سوز پالیسوں کا منہ بو لتا ثبوت ہے۔

Abid Hashmi
About the Author: Abid Hashmi Read More Articles by Abid Hashmi: 192 Articles with 170284 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.