ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے اعدادوشمار کا بغور جائزہ لیں
تو پتا چلتا ہے کہ ہر آنے والے وقت میں کرپشن مزید بڑھتی جا رہی ہے اس کی
بنیادی وجہ اداروں میں چیک اینڈ بیلنس کا نہ ہونا اور بیوروکریسی کا شطر بے
مہار ہونا ہے۔بہت سے ادارے ایسے افسران پر مشتمل ہیں جوکہ ڈیپوٹیشن پر
اداروں میں کچھ عرصہ کے لیے تعینات کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ بیوروکریسی نے
گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوتا ہے اور کرپشن کے ہر داؤ پیج کو بخوبی جانتے ہیں۔
اسی طرح نئی حکومت کے آنے سے بیوروکریسی نے اکاؤنٹبلٹی کے نام سے خوف کو
ظاہر کرتے ہوئے مطلقاً کام کرنا چھوڑ دیا اور اس کی آڑ میں اپنے ناجائز
عزائم کو پورا کرنے میں جھٹ گئی۔ نئی سیاسی نابالغ حکومت جس کو بیوروکریسی
کے چلانے کا کوئی بھی تجربہ نہیں تھا ان کے ہاتھوں یرغمال ہوکر رہ گئی۔
اس یرغمالی کی زندہ مثال ہمارے سامنے پنجاب سوشل سیکیورٹی انسٹیٹیوٹ کی ہے
جس کے صوبائی وزیر ہمارے ہر دلعزیز جناب انصر مجید خان نیازی صاحب ہیں جو
کہ پہلی دفعہ ایم پی اے کا الیکشن جیت کر صوبہ پنجاب کے ایوان کے نمائندہ
بنے تو انکو محنت و افرادی قوت کی وزارت کا قلمدان سونپ دیا گیا۔ انفرادی
طور پر اگر دیکھا جائے تو موصوف اپنے تائیں بہت فراخ دل اور مزدور طبقہ کے
غم کا مداوا کرنے والے سمجھے جاتے ہیں لیکن جیسے بیان کیا گیا ہے کہ
بیوروکریسی جانتی ہے کہ ہرکام میں ابہام کیسے پیدا کرنا ہے اور اس کو
استعمال کرتے ہوئے اپنے ناجائز عزائم کو کیسے پایا تکمیل تک پہنچانا ہے، اس
منافع بخش ادارے کی ایسی تصویر کھینچی گئی کہ جس سے ایوان سے باہر بیٹھے
ہوئے کچھ نہ اہل لوگوں کو فائدہ پہنچایا جائے۔اس گھناؤنے دھندے کا آغاز
اگست 2018 میں ہوا جب نئی صوبائی گورنمنٹ نے تمام بیوروکریسی کی بڑے پیمانے
پر اکھاڑ پچھاڑ کی تو اس کے نتیجے میں ادارے کو مایہ ناز کھلاڑی عطا کیا
گیا جسے وائس کمشنر کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔ ویسے تو دنیا بھر میں
عورتیں بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں اور اپنے ملک و قوم کا نام روشن کرنے
میں آگے آگے ہیں لیکن یہ بھی بات قابل غور ہے کہ اسلام میں عورت کی حکمرانی
کی حوصلہ شکنی کی گئی۔
نئی بیوروکریسی نے اپنا چارج سنبھالتے ہی اس بات کا اعادہ کیا کہ پہلے سے
موجود ادارے میں کام کرنے والے عارضی ملازمین کو برخاست کیا جائے اور اپنے
من پسند لوگوں کو بھرتی کیا جائے، اس پرانی ریٹینرشپ یا انٹرنشپ کے پے
پیکیج کو بڑھایا جائے تاکہ کہ نئے آنے والے لوگوں کو بہتر طریقے سے نوازا
جا سکے۔ چنانچہ اس ضمن میں گورننگ باڈی کا 139th اجلاس بلایا گیا اور اس
میں نئی ریٹینرشپ پالیسی کا عندیہ دیا گیا۔اس پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے
وائس کمشنر کلثوم ثاقب کو سلیکشن کمیٹی کی چیئرمین نامزد کیا گیا تاکہ تمام
تعیناتیاں مروجہ قانون کے تحت میرٹ پر کی جائیں۔بس پھر کیا تھا کہ میرٹ کی
اس طرح دھجیاں بکھیریں گئیں کہ اس کی رام کہانی سن کر رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔
وہ حکومت جو عوام کو ایک کروڑ نوکریوں کا سہانا خواب دیکھا کر اقتدار میں
آئی جس بیوروکریسی نے اس خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا
کرنا تھا اس کے برعکس عوام کو بے روزگاری کی اندھیر نگری کی طرف دکھیلنا
شروع کر دیا اور تمام پرانے ملازمین کو کام کرنے سے روک دیا گیا اس طرح
کافی عرصہ تک ادارہ ملازمین کی کمی کے باعث اپنے مطلوبہ اہداف پورا نہ کر
سکا۔اور جب بعد میں تعیناتیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو اپنے من پسند لوگوں کو
نوازنا شروع کر دیا گیا جس میں ہر کیڈر کے افسر نے اپنی اپنی بساط کے مطابق
حصہ ڈالا اور اپنے عزیز و اقرباء اور رشتہ داروں کو نوکریاں دلوائیں۔
جس میں ادارے کا ایڈمن سیل پیش پیش رہا جہاں ادارے کے ہر چھوٹے بڑے ملازم
کے رشتے داروں کو خصوصی طور پر نوازا گیا جیسا کہ آفس سپریٹنڈنٹ، اسسٹنٹ
ڈائریکٹر،ڈائریکٹر کے ''پی اے'' وائس کمشنر کے ڈرائیور اور نائب قاصد۔اور
بہت سے ایسے لوگ جو پہلے کسی چھوٹی پوسٹ پر کام کر رہے تھے ان کو بہتر پے
سکیل پر گریڈ 16 اور 17 کی پوسٹوں سے نوازا گیا۔ افرادی قوت کی کمی اور آئی
ٹی کے زیر سایہ چلنے والی تمام ایپلی کیشنز کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے
سسٹم کولیپس کر گیا جس کو نااہلی کی ایسی تصویر بنا کر پیش کیا گیا جس کی
آڑ میں آئی ٹی کے ڈائریکٹر کو برخاست کرکے اپنے پسند کے امیدوار کو ایک سال
کی ریٹینر شپ پالیسی کے تحت ڈائریکٹر بنا دیا گیا ساتھ ہی ساتھ گریڈ17 کی
بہت سی پوسٹوں پر بھاری رقم وصول کرکے ناتجربہ کار لوگوں کو بھرتی کیا گیا
گیا۔ جس میں ایک سیاسی بیگرونڈ رکھنے والے امیدوار کو تین بار گریڈ17 کی
مختلف اسامیوں پر تعینات کیا گیا جو کہ سراسر قانون کی دھجیاں اڑانے کے
مترادف ہے۔ اور جب ان لوگوں سے معاملہ سنبھل نہ پایا تو I.T کی سروس کو
ٹھیکے پر دینے کی بازگشت ہونے لگی اور ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہوئے
نجکاری کی طرف دھکیلنے کی باتیں ہونے لگی۔اس ساری کرپٹ پریکٹس کے پیچھے
سلیکشن کمیٹی کی چیئرپرسن، ادارے کی وائس کمشنر کلثوم ثاقب اور ڈائریکٹر
ریفارمز فاطمہ پیش پیش رہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اداروں میں موجود کالی
بھیڑوں کو ڈھونڈ کر عبرت کا نشان بنایا جائے تاکہ کرپشن جیسی لعنت سے
چھٹکارا حاصل کیا جاسکے کے۔ |