ٹرمپ جارحیت،خطے میں نئی جنگ کا آغاز؟

بغدادعراق میں امریکی فضائی حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور عراق میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا پاپولرموبلائزیشن فورس (پی ایم ایف) کے ڈپٹی کمانڈرابومہدی المہندس جو قاسم کے استقبال کیلئے وہاں پہنچے تھے، جاں بحق ہوگئے ۔ابھی ایرانی ردِّ عمل جاری تھاکہ امریکی فضائیہ نے ایک اورحملے میں حشد الشعیبی پیرا ملٹری فورس کے کمانڈر کو نشانہ بناڈالا ۔ امریکا اور ایران کے درمیان ڈرامائی انداز میں سنگین کشیدگی میں اضافہ کے نتائج میں ایران نے ہرحال میں اس کابدلہ لینے کااعلان کردیاہے جس کے بعدجوابی حملے کا خطرہ کی بناء پر اسرائیلی جنگی طیاروں نے لبنان پرپروازیں شروع کردی ہیں۔ردعمل کااس سلسلہ نے دونوں ممالک کو جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ اوبامہ کے دور صدارت میں وائٹ ہاؤس میں مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس سے متعلق رابطہ کار فلپ گورڈن کے خیال میں یہ ہلاکت امریکا کی طرف سے ایک ایسا اعلان ہے کہ جس کے بعد “اعلان جنگ”ہی باقی رہ جاتا ہے جبکہ ٹرمپ کے مطابق قاسم سلیمانی کو مارنے کا فیصلہ ’ ’جنگ روکنے‘ ‘ کے لیے کیااورایران کیلئے مزیداقدامات کرنے کیلئے مکمل تیارہیں۔

قدس فورس ایران کی سکیورٹی فورسز کی وہ شاخ ہے جس کے پاس ایران سے باہر فوجی آپریشن کرنے کی ذمہ داری ہے۔ چاہے یہ لبنان، عراق، شام یا کوئی اور جگہ ہو سالہا سال سے جنرل سلیمانی ایران کے ایسے کمانڈر تھے جن کا کام فوجی کارروائیوں کے ذریعے ان مقامات پر ایران کے دائرہ اثر کوبڑھانایاوہاں تہران کے مقامی اتحادیوں کو مزید مضبوط کرنا تھا۔ جنرل سلیمانی امریکی پابندیوں اور دباؤ کے خلاف تہران کی جوابی حکمت عملی کو لے کر آگے بڑھ رہے تھے اورکئی امریکیوں کی ہلاکت اورعراق میں اپنے فوجی اڈوں پر راکٹ حملے، خلیج میں آئل ٹینکرز کے خلاف آپریشن، امریکا کے ڈرون کو مار گرانا، حتیٰ کہ ایران کی طرف سے سعودی تیل کی تنصیبات پرحملوں کے علاوہ ہزاروں امریکیوں کی ہلاکت کا قاسم سلیمانی کوذمہ دار سمجھتا تھا۔ جہاں تک عراق میں امریکی فوجی اڈوں پرحملوں کاتعلق ہے تو امریکی محکمۂ دفاع پہلے ہی ایران نواز ملیشیا پر، جس کے بارے میں یہ خیال ہے کہ وہ ان حملوں کے پیچھے ہے،حملہ کرچکاہے۔اس حملے کے نتیجے میں ہی بغداد میں امریکی سفارتخانے پر دھاوا بولا گیا تھا۔ تاہم اس سے قبل امریکا نے ایران کی طرف سے کسی جارحیت کا جواب نہیں دیا۔

ایرانی جنرل کی ہلاکت کی وضاحت کرتے ہوئے پینٹاگون نے ماضی کے واقعات کو وجہ بتاتے ہوئے کہا یہ قدم آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے اٹھایا گیا ہے۔ ہلاک کیے جانے والے ایرانی جنرل ، امریکی سفارتکاروں اور دیگر اہلکاروں کے خلاف عراق اور دیگر مقامات پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے تھے ۔ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ اس ڈرامائی کارروائی کے نتیجے میں جہاں ایک طرف وہ ایران کو جھکانے میں کامیاب ہوئے ہیں وہیں دوسری طرف وہ خطے میں اپنے دو اتحادیوں اسرائیل اور سعودی عرب کی بڑھتی بےچینی کو بھی یہ کہہ کر ختم کر سکتے ہیں کہ امریکا کی دھاک اب بھی بیٹھی ہوئی ہے۔ تاہم اب یہ سوچنے کی بات نہیں رہی کہ ایران جلد یا بدیر کوئی سخت جوابی کارروائی کرے گا یا نہیں۔

عراق میں امریکا کے 5000 فوجی اب ایران کے نشانے پر ہو سکتے ہیں۔ یہ اس طرح کے اہداف ہیں کہ جن کو ماضی میں ایران نے خود یا اپنے پروردہ کی مدد سے حملے کا نشانہ بنایا۔ اب خلیج میں کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔ اس میں بھی کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اب تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ امریکا اور اس کے اتحادی اب اپنے دفاع کا جائزہ لے رہے ہوں گے۔ امریکا نے پہلے ہی بغداد میں واقع اپنے سفارتخانے میں کچھ مزید فوجی بھیج کر کمک پہنچا دی ہے اور ب اس معاملے کوبنیادبناکر خطے میں امریکا جلد مزید فوجی بھیج سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے عام امریکیوں کو عراق سے نکل جانے کو بھی کہا ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ ایران کا جواب فوری اور اس قدر شدید نہ ہو جتنا کہ ان کا نقصان ہوا ہے۔ وہ ہلاک ہونے والے جنرل سلیمانی کے تیار کردہ گروہوں کے ذریعے ہی بدلہ لے سکتا ہے ۔ مثال کے طور پر ایران بغداد میں امریکی سفارتخانے کے محاصرے جیسے عمل کو بھی دہرا سکتا ہے اور وہاں امریکی فوجیوں کی تعیناتی پر سوالات اٹھا سکتا ہے۔یہ مظاہرے دیگر مقامات تک بھی پھیل سکتے ہیں جن کی آڑ میں حملے بھی ہو سکتے ہیں۔

قدس فورس کے سربراہ کے خلاف امریکی حملہ واضح طور پر امریکی انٹیلی جنس اور صلاحیتوں کا مظاہرہ تھا۔ خطے میں بہت سے لوگ اس ہلاکت پر افسردہ نہیں ہوں گےلیکن کیا یہ ٹرمپ کا کوئی بہت عقلمندانہ اقدام تھا؟ اس سب کے نتائج کو بھگتنے کیلئے امریکی محکمۂ دفاع کتنا تیار ہے؟ کیا یہ حملہ ہمیں ٹرمپ کی خطے سے متعلق پالیسی کا مکمل پتا دیتا ہے؟ کیا اس سے یہ (پالیسی) بدل چکی ہے؟ کیا اب ایرانی کارروائیوں کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا؟ یا محض ٹرمپ ایک ایسے ایرانی کمانڈر کاخاتمہ چاہتے تھے جسے وہ “ایک بہت برا انسان”قرار دیتے رہے ہیں؟؟؟لیکن میں سمجھتاہوں کہ ٹرمپ اپنے مواخذے کی تحریک سے فوری توجہ ہٹانے اورآئندہ انتخابات میں فائدہ اٹھانے کیلئے اس کاروائی سے ضرورفائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے تاہم ٹرمپ کی اس جارحیت کی ہرحال میں مذمت ہونی چاہئے تھی جوابھی تک مہذب دنیاپرقرض ہے۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355712 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.