عالمی یومِ حجاب

"حیا اور ایمان ایک دوسرے کے ساتھی ہیں جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے" آئیے دیکھتے ہیں اور غور کرتے ہیں کہ آخر یہ حجاب ہے کیا اور اس کو کرنے کا حکم کیوں دیا گیا؟ عالمی دن کیوں منایا جاتا ہے؟حجاب کے لغوی معنی دو چیزوں کے درمیان آڑ یا رکاوٹ کے ہیں جس کی وجہ سے دونوں چیزیں ایک دوسرے سے اوجھل ہوجاتی ہیں.حجاب اسلامی شعار اور امت مسلمہ کا تشخص ہے اور اس کا مقصد ستر حاصل کرنا اور فتنے سے بچنا ہے,حجاب محض سر ڈھانپنے والا کپڑا نہیں بلکہ مسلم و پاکیزہ عورت کی شناخت اور عصمت کا محافظ ہے.حقیقی حسن بے حیائی اور بے حجابی میں نہیں بلکہ حقیقی حسن وہ ہے جو آنکھوں کو حیا اور دل کو ایمان و تقوی سے مامور کرتا ہے. حجاب کا تعلق نظر,زبان اور لباس سے ہے.شرم و حیا عورت کا زیور ہے اور پردہ وحیا دونوں باہم مشروط ہیں.فرمان نبوی ہے کہ:
"عورت پوشیدہ چیز ہے جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک جھانک میں لگا رہتا ہے"

اللہ تعالی نے جب شیطان کو حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کے جرم میں جنت سے نکالنے کا حکم دیا تو ابلیس نے انسان کو قیامت تک گمراہ کرنے کی مہلت مانگی اور کہا کہ"اے اللّٰہ تیری عزت کی قسم میں آدم اور اس کی اولاد کو گمراہ کرتا رہوں گا"حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام جنت میں زندگی گزر بسر کر رہے تھے کے ایک دن شیطان ان کے پاس پہنچ گیا اس کا مقصد انہیں بے پردہ کرنا تھا اور وہ اس میں کامیاب ہوگیا.اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ:"پھر شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ وہ ان کی شرمگاہوں کو بے پردہ کر دے ,جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں". چناچہ انہوں نے شرمندہ ہو کہ اپنی شرمگاہوں کو ڈھانپنا شروع کر دیا.

بے پردگی شیطان کی پہلی ترجیح ہے شیطان نے کئی قوموں کو بے پردگی کا شکار بنا کر تباہ و برباد کردیا.شیطان اور اس کے چیلوں کا مقصد دنیا میں بے حیائی, فحاشی اور عریانی کو عام کرنا ہے. جیسے اہل یونان پر نفس پرستی اور شہوت کا اس قدر غلبہ تھا کہ وہ اس کو قابل فخر سمجھتے تھے. حالات یہاں تک پہنچے کہ وہ قوم لوط کے عمل کی پیروی کی بنا پر قہر الہی کا شکار ہوئے یونانیوں کا حال بھی کچھ کم نہ تھا جہاں بےحیائی نے مردوعورت کی تمیز کو ہی پس پشت ڈال دیا اور پھر وہ اپنے انجام کو پہنچے اس حوالے سے دیکھا جائے تو کئی معاشروں میں عورت کو صرف نفس کی بھوک مٹانے کا ذریعہ سمجھا گیا ہے.اسلام سے قبل عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی اسلام نے آکر عورت کو اس کا مقام دیا اس کی حیثیت معاشرے پہ واضح کی اس کو ایک ایسا محفوظ طریقہ کار بتایا جس میں وہ سب کی نظروں سے محفوظ رہ سکے پس اب یہ عورت پہ منحصر ہے کہ وہ سیپ کے موتی کی طرح محفوظ رہنا چاہتی ہیں یا ٹی وی اسٹیج پے ناچنے والی اداکارہ کی طرح سب کی تفریح کا سامان بننا چاہتی ہے.

اسلام نے عورت کو بہت معتبر مقام دیا ہے .عورت ایک انمول آبگینا ہے وہ ایک موتی ہے جس میں شرم و حیا مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو".پردہ کرنے کا حکم صرف عورتوں کے لیے نہیں بلکہ یہ حکم دونوں کے لیے ہے.عورت کا اپنے جسم کو اس طرح چھپا لینا کہ اس کا بدن اور زینت اجنبی مردوں پر ظاہر نہ ہو پردے کی تعریف میں آتا ہے اسی طرح مردوں کو حکم ہے کہ اپنا جسم ناف سے لے کر گھٹنوں تک چھپائیں.

موجودہ دور میں اگر نظر ڈالی جائے تو اسلامی معاشرے کے تباہ ہونے کی اصل وجہ یہی ہے کہ عورت نے پردے کو بوجھ سمجھنا شروع کر دیا ہے اس میں میڈیا نے اہم کردار ادا کیا ہے وہ عورت کو تفریح کا سامان بنا رہا ہے نام نہاد آزادی کا ڈھول پیٹ کے.عورتوں کے حقوق کا نام نہاد پرچار کرکے اس نے ڈھکی چھپی عورت کو دقیانوسی اور عریانی و ماڈرن لباس میں ملبوس عورت کو ایک ترقی یافتہ معاشرے کی پہچان قرار دیا ہے.فرانس کی جانب سے 2003 میں حجاب پر پابندی کے بعد 4 ستمبر 2004 کو عالمی اسلامی تحریکوں کے ایک اجتماع میں قانون پاس ہوا جس کے بعد ہر سال 4ستمبر کو یوم حجاب منایا جاتا ہے.اس کا مقصد عالم دنیا میں یہ پیغام پہنچانا ہے کہ حجاب میں ہی عورت کی معراج ہے دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ ہمارا دین کتنا پیارا ہے جس نے عورت کو چھپا کر رکھنے کی ہدایت دی.اس کی مثال ایسے لی جاسکتی ہے کہ ہم عورت کو تو بےپردہ پھراتے ہیں مگر ایک پاؤ گوشت تھیلے میں چھپا کر لے جاتے ہیں کہیں چیل نہ لے اڑے, ایک پاؤ دودھ کو بلی سے چھپاتے ہیں کہیں وہ منہ نہ ماردے اور اگر ایک ہزار کا نوٹ جیب میں ہو تو مسلسل اس جیب کا دھیان رکھتے ہیں تو ہمیں اپنے گھر کی ملکہ کا خیال کیوں نہیں رکھنا کیوں اسے حجاب سے روکتے ہیں.ایک بہت ہی افسوسناک واقعہ مولانا حکیم اختر صاحب کی کتاب بے پردگی میں پڑھا جو کچھ یوں ہے "تقسیم ہند سے قبل ایک شوہر اپنی اپ ٹو ڈیٹ بیوی کو خوب عمدہ لباس پہنا کر شملہ پہاڑ کی ہوا کھلا رہا تھا وہاں ایک انگریز افسر کے گھر کے باہر دو فوجی چوکیدار کھڑے تھے یہ مسٹر اپ ٹو ڈیٹ ٹائی لگائے ہوئے اپنی نوجوان بے پردہ بیوی کو خوب بنا سنوار کر اس کے فیشن دکھا رہے تھے کہ یہ ماڈرن زمانہ ہے, ہم تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ لوگ ہیں نعوذباللّٰہ اب حضور اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ نہیں. ان دونوں چوکیداروں کو لندن سے آئے ہوئے سال سے زیادہ ہوگیا تھا شہوت کی آگ لگی ہوئی تھی پس جو ایک خوبصورت بے پردہ عورت کو دیکھا تو حال برا ہوگیا. چنانچہ اُن دونوں فوجیوں نے بندوق کی زور پر اُس اپ ٹو ڈیٹ شخص کی بیوی کو گھسیٹا اور اسی کے سامنے منہ کالا کیا. کاش کوئی اُس کو عقل دیتا کہ شریک حیات ہو یا کوئی بھی عورت وہ کھلے عام دعوت پیش کرتی ہے اگر بے پردہ ہو تو.

عورت کی معراج تو یہ ہے کہ وہ دنیا کے سامنے حجاب میں آئے جیسا کے طیب اردوان کی حلف برداری میں خاتون اول نے عثمانی طرز کا حجاب اور گاؤن پہنا جو سب کی توجہ کا مرکز بن گیا دنیا کے سامنے عورت کا مقام بلند ترین ہوگیا. اسی طرح کا واقعہ عمران خان صاحب کی حلف برداری میں دیکھا گیا جب خاتون اول حجاب میں ملبوس وزیراعظم کے ساتھ تقریب میں شریک ہوئیں. عورت کی اصل خوبصورتی حجاب میں ہی ہے. مغرب میں "اسلام فوبیا" ایک مستقل اصطلاح بنتی چلی جا رہی ہے.یکم جولائی 2009 کو ایک مسلمان خاتون مروہ شربینی کو حجاب کے جرم میں جرمنی کی بھری عدالت میں شہید کر دیا گیا اور وہاں کی حکومت نے کوئی سنجیدہ ایکشن تک نہ لیا.ہمیں کبھی مروہ قواچی کی صورت ملک بدر کیا گیا تو کبھی مروہ شربینی کی صورت قتل مگر حجاب کا عزم توانا سے توانا ہوتا جارہا ہے.

امریکا کی مشہور تھنک ٹینک Pew Research Center کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سات مسلم اکثریتی ممالک پاکستان,مصر,لبنان,سعودی عرب,عراق,ترکی اور تیونس میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں اٹھانوے فیصد افراد گھر سے باہر نکلتے وقت عورت کو پردے کی کسی نہ کسی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ صرف دو فیصد افراد عورت کے ننگے سر باہر نکلنے کے حامی ہیں.انھیں لوگوں کی تعداد سعودی عرب میں 3 فیصد, عراق میں 4 فیصد ,مصر میں 4فیصد, تیونس میں 15 فیصد,ترکی میں 32 فیصد اور لبنان میں سب سے زیادہ 49فیصد ہیں.اس سروے کے مطابق لبنان کے 51 فیصد لوگ جبکہ باقی مسلم ممالک جیسے پاکستان کے 98 فیصد, سعودی عرب 97فیصد,ترکی 68 فیصد,عراق 97فیصد,مصر 96فیصد اور تیونس کے 85 فیصد لوگ پردے کی کسی نہ کسی حد کے ساتھ عورت کے باہر نکلنے کے حامی ہیں.مگر افسوس مغربی میڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستانی میڈیا نے بھی اس رپورٹ کو اہمیت دینا گوارہ نہیں کیا کیونکہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کی فیشن انڈسٹری تباہی کا شکار ہوجائے گی ایک عورت ہی تو ان کا کھلونا ہے جس کو وہ استعمال کرکے اپنی اشیاء کو بیچتے ہیں پھر اسی عورت کی مظلومیت لوگوں کو دکھاتے ہیں. اگر میڈیا اتنی ہی عورت کی عزت کرتا ہے ,تحفظ دلاتا ہے اور اس کے حق کی بات کرتا ہے وہ اتنا ہی وفادار ہے تو اسے چاہیے کہ ہر جگہ عورت کو استعمال نہ کرے.مارننگ شو ہو,کمرشل ہو یا نیوز ہیڈلائنز وہ عورت کا وقار نیچا کر رہا ہے ہر ایک ٹی وی دیکھنے والے کی نظروں میں تو حیا نہیں ہوتی.چنانچہ جب وہ دن رات ایسے مناظر دیکھتے ہیں تو وہ نفس کی بھوک مٹانے کے لیے شکار تلاش کرتے ہیں اور پھر زینب اور اُس جیسی کئی معصوم بچیاں ان درندوں کا نشانہ بنتی ہیں پھر یہی نام نہاد خیرخواہ میڈیا اُس زیادتی کے خلاف آواز اٹھانا شروع کر دیتا ہے.سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر یہ ہمارا اتنا ہی خیرخواہ ہے توکیوں ایسے مناظر دکھانے بند نہیں کرتا.کیوں بنا رہا ہے گھر گھر کو فحاشی اڈا. یہ کاروباری میڈیا صرف پیسے بنا رہا ہے.اس کو کوئی غرض نہیں کہ ٹی وی پہ چلنے والے مناظر کا بچوں اور نوجوان نسل پر کیا اثر ہوگا.درحقیقت میڈیا اِن بچوں کابچپن چھین لیتا ہے.

پس ضرورت اِس امر کی ہےکہ یوم حجاب کے دن یہ عہد کیا جائے کہ حجاب ہی مسلم عورت کی پہچان ہے.حجاب میں بھی خواتین ہر میدان میں آگے ہیں.حجاب زبردستی اور جبر کا نام نہیں بلکہ محبت,ترغیب اور تعلیم کا نام ہے کہ عورت کے احترام و عزت میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے.
 

Hafsa Abdul Qayum
About the Author: Hafsa Abdul Qayum Read More Articles by Hafsa Abdul Qayum: 6 Articles with 4503 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.