ڈاکٹر رئیس احمد صمدنی۔ علمی و ادبی شخصیت
شامِ آگہی بنام ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی میں بطور مہمان خصوصی پڑھاگیا
ڈاکٹر تنویر انور خان(افسانہ نگار)
ہماری ویب رائیٹرز کلب کے منتظمین کی شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے مجھے
آج معروف علمی ادبی شخصیت پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی صاحب کے اعزاز
میں منعقدہونے والی شامِ آگہی میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا۔ ڈاکٹر صمدانی
بجا طور پر اس مقام پر ہیں کہ ان کی شخصیت اور ان کی علمی و ادبی خدمات کا
احاطہ کیا جاتا۔ ہماری ویب رائیٹرز کلب کی انتظامیہ نے یہ تقریب منعقد کر
کے قابل ذکر علمی فریضہ انجام دیا ہے۔ میرے اورڈاکٹر صمدانی کے تعلق ذریعہ
میرے افسانوں کے مجموعے ہیں جنہیں انہوں نے پسند ہی نہیں کیا بلکہ ان پر
اپنی رائے کااظہار بھی کیا، اسی طرح میں ان کی تحریروں سے ان سے واقف
ہوئی۔گویا کتاب ہمارے مابین قدر مشترک ہے۔ آج میری ڈاکٹر صمدانی صاحب سے
پہلی ملاقات ہے، اس سے قبل ان سے گفتگو ہوتی رہی، انہوں نے میرے افسانوں کے
مجموعوں پر اپنی رائے کا اظہار کیا، میں نے ڈاکٹر صمدانی کی ایک تازہ کتاب
جو ان کے نثری مضامین پر مشتمل ہے کا تفصیلی مطالعہ کیا، میرے آج کے خیالات
اسی کتاب کے مطالعہ کا حاصل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی اس کتاب کے آغاز میں انہو ں
نے اپنا ایک شعر تحریر کیا ہے جو مجھے بہت پسند آیا،وہ کچھ اس طرح ہے۔
روشنی یونہی دینا میں پھیلی رہے گی علم و ادب کی
چلا میں جاؤں گا کاوشیں ہی باقی رہ جائیں گی
ڈاکٹر صمدانی کے مضامین پر مشتمل کتاب نے سے میرے علم میں اضافہ ہوا۔ بہت
سی معلومات فراہم ہوئیں، وہ اردو و انگریزی کی کوئی 35کتابیں لکھ چکے ہیں
جب کہ ہزار کے قریب مضامین اور کالم ان کے رشحات قلم سے منظر عام پر آچکے
ہیں۔ حال ہی میں معروف پبلشرفضلی سنز نے ان کی ایک کتاب ”وہ جو اب ہم میں
نہیں“ شائع کی ہے۔ یہ کتاب مرحوم ادیبوں، دانشوروں اور شاعروں پر مضامین کا
مجموعہ ہے۔ ان کی تدریسی خدمات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کالجوں
کے علاوہ جامعات میں بھی درس و تدریس سے وابسطہ رہ چکے ہیں، سرگودھا
یونیورسٹی، منہاج یونیورسٹی لاہور، ہمدرد یونیورسٹی کے علاوہ علامہ اقبال
اوپن یونیورسٹی سے بھی وابستہ ہیں۔ ان کے زیر نگرانی کئی طلبہ نے ایم فل کی
سند حاصل کی اور اس وقت بھی کئی طالب علم ایم فل اور پی ایچ ڈی تحقیق کر
رہے ہیں۔ یہ بات بھی قابل فخر ہے کہ خود انہوں نے عالمی شہرت یافتہ علمی و
ادبی شخصیت محترم حکیم محمد سعید پر تحقیق کر کے 2009ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری
حاصل کی۔ڈاکٹرصمدانی شہید حکیم محمد سعید پر پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے محقق
ہیں۔ وہ حکیم صاحب مرحوم کو اپنا آئیڈیل تصور کرتے ہیں، ان کو قریب سے
دیکھا، اور ان کی بہت سے صفات کو ڈاکٹر صمدانی نے اپنانے کی کوشش بھی کی۔
پی ایچ ڈی مقالہ تو اپنی جگہ ڈاکٹر صمدانی نے حکیم سعید پر بے شمار مضامین
تحریر کیے، روزنامہ جناح نے حکیم محمد سعید پر ان کا مضمون تین قسطوں میں
شائع کیا۔
ڈاکٹر صاحب نثر نگاری، خاکہ نگاری، تجزیہ نگاری، کالم نگاری اور تنقید
نگاری میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں،آپ گزشتہ 45برس سے تصنیف و تالیف میں
مصروف ہیں، ابھی حال ہی میں لاہور یونیورسٹی کے سرگودھا کیمپس کے شعبہ اردو
میں ڈاکٹر صمدانی کی نثر نگاری پر محمد عدنان نے جناب تنویر مظہر کی نگرانی
میں ایم فل کا مقالہ تحریر کیاجس پر محمد عدنان کو ایم فل کی ڈگری تفویض
ہوئی، مقالہ کا عنوان ہے ”رئیس احمد صمدانی کی تخلیقی نثر(تحقیقی و تنقیدی
مقالہ برائے ایم فل (اردو)۔ ڈاکٹر صاحب کی تصنیف جس کا میں نے اوپر ذکر کیا
میں شامل ایک مضمون مجھے سب سے اچھا لگا جس کا عنوان ہے ”مَیں کیوں لکھتا
ہوں“،یہاں انہوں نے مطالعہ کی اہمیت بھی بیان کی، ان کا کہنا ہے مطالعہ سے
ذہنی سکون اور راحت میسر آتی ہے۔مطالعہ ہمیں ذہنی طور پر صحت مند رکھتا ہے،
غیر ضروری کاموں سے روکتا ہے، لکھنے والا علمی و ادبی مواد میں اضافے کا
باعث ہوتا ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم اپنے تجربات و مشاہدات آنے والی
نسلوں کے لیے چھوڑ جاتے ہیں۔
اس کتاب کے سب ہی مضامین اہم اور دلچسپ بھی ہیں جیسے دیباچہ نگاری، کسی بھی
کتاب کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے، جو مصنف کسی سینئر ادیب و شاعر سے لکھواتا
ہے، اس حوالے سے یہ مضمون اہم معلومات فراہم کرتا ہے۔ یہاں سرسید کا غالب
سے اپنی کتاب پر دیباچہ کی فرمائش کرنا اور غالب کا سرسید کی کتاب پر
تنقیدی دیباچہ لکھنے کا ذکر بھی ملتا ہے جسے سرسید نے اپنے کتاب میں شامل
نہیں کیاتھ ا لیکن بعد میں یہ دیباچہ منظر عام پر آگیا، دیباچہ نگاری میں
پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور بابائے اردو مولوی عبدالحق کا ذکر بھی
ہمیں اس مضمون میں ملتا ہے۔ اسی طرح ایک مضمون تبصرہ نگاری پر اس کتاب میں
موجود ہے، خلاصہ نگاری، خطوط نگاری پر مضامین اپنے موضوع پر عمدہ معلومات
فراہم کرتے ہیں۔ڈاکٹر صمدانی سیاسیات کے طالب علم بھی رہے، کالم نگاری ان
کا اہم مشغلہ ہے وہ کئی سو کالم تحریر کرچکے ہیں، ان کے کالموں کا مجموعہ
”رشحات قلم“ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ عالمی حالات کے علاوہ ملکی سیاست
اور معاشی، معاشرتی حالات، واقعات ان کے خاص موضوع ہوتے ہیں۔وہ مسائل کی
نشاندھی کرتے ہیں اور تجاویز بھی پیش کرتے ہیں۔ سوانح نگاری سے تو ڈاکٹر
صمدانی کی نثر نگاری کی ابتدا ہوئی، ان کا پہلا سوانحی مضمون حضرت علی ؓ پر
تھاجو 1978 ء میں شائع ہوا، اس کے بعد شخصیات پر لکھنا گویا ان کی زندگی کا
اہم حصہ ہوگیا اور انہوں نے سو سے زیادہ علمی، ادبی شخصیات کے علاوہ دوستوں
اور جاننے والوں کے خاکے اور سوانحی مضامین تحریر کیے۔چند شخصیات کا ذکر
کرنا چاہوں گی، تمام کا احاطہ تو ممکن نہیں، ان شخصیات میں فیض احمد
فیض،ڈاکٹر طاہر تونسو ی، فر خندہ لودھی،عبد الستار ایدھی، حکیم محمد
سعیدشہید ،ڈاکٹر طحہٰ حسین، فرزندِ اقبال،جسٹس جاوید اقبال،جمیل الدین
عالی۔انتظار حسین،فاطمہ ثریابجیا، پروفیسر سحر انصاری، میر ، غالب،بیخود
دہلوی، اقبال،بہادر شاہ ظفر، احسان دانش،عدم،ناصر کاظمی، احمد فراز، بانو
قدسیہ، حبیب جا لب،پروفیسر صابر لودھی، جو ش ملیح آبادی،ڈاکٹر اسلم فرخی،
بابائے اردو مولوی عبدالحق، حسرت موہانی،فرمان فتح پوری،ممتاز مفتی،سر
سید،ڈاکٹر ستیہ پال آنند، ڈاکٹر خلیق انجم،عبد اللہ حسین اور دیگر شامل
ہیں،میرا خیال ہے کہ انہوں نے کسی شاعر اور ادیب کو نہیں چھوڑا، سب ہی پر
وہ لکھ چکے ہیں اور لکھ رہے ہیں۔فہرست بہت طویل ہے اسی پر اکتفا کرتی ہوں۔
کتاب ڈاکٹر صمدانی کی زندگی کا اہم جذو ہے، ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کئی
سو کتابوں پر مختصر اور بعض پر تفصیلی تبصرے تحریر کیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان
کے لکھنے کی وجہ کتاب ہے، ان کی پہلی کتاب ”کتابوں کی کتاب“ ہی تھی یعنی
توضیعی کتابیات جس میں چار پانچ سو کتابوں پر تبصرہ لکھا گیاتھا، یہی عمل
انہیں کتاب کے اتنے قریب لے گیا کہ کتاب ان کی زندگی کا حصہ بن گئی۔ شخصیات
کے بعد اگر کوئی اور موضوع جس پر ڈاکٹر صمدانی لکھا وہ کتاب ہے۔ کتاب اور
علم کے حوالے سے ان کا یک شعر دیکھئے۔
حصول علم ہے ہر اک فعل سے بہتر
نہیں ہے دوست کوئی کتاب سے بہتر
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی افسانہ نگار بھی ہیں لیکن انہوں نے کم کم افسانے
تحریر کیے البتہ افسانہ نگاری کیا ہے،اس کا جائزہ انہوں نے اپنے ایک مضمون
میں سیر حاصل لیا ہے، انہوں نے بے شمار افسانوں کے مجموعوں پر اپنی رائے کا
اظہار بھی کیا ہے۔ میری کئی تصانیف پر انہوں نے اپنے خیالات کااظہار کیا،
میں اپنی تقریر کے اختتام پر اپنے افسانوں کے مجموعوں پر ان کی رائے ضرور
پڑھنا چاہوں گی۔ خاص طور پر ”ہلالی کنگن“اور ”بے قیمت“ پر تحریر کیا۔ جن
احباب نے ڈاکٹر صمدانی صاحب کی علمی وادبی خدمات اور نجی زندگی کے حوالے سے
خیالات کا اظہار کیا وہ قابل قدر ہے۔ ان تمام کی تقاریر سے ڈاکٹر صاحب کی
علمی ادبی، تصنیفی خدمات کے علاوہ ان کی نجی زندگی ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔
کسی بھی لکھنے والے کا مقصد لکھنا ہوتا، اب اس کی کاوشوں سے جو فائدہ
اٹھانا چاہے وہ اٹھا سکتا ہے۔یہ بات خوشی کی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی تصنیفی
خدمات کو جامعاتی سطح پر تحقیق کا موضوع بنایا گیا ہے، امید ہے ان کے علمی
کارناموں پر تحقیق آگے بڑھے گی۔ آخر میں مَیں ہماری ویب رائیٹرز کلب کی بے
حد شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے شام ِ آگہی میں پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد
صمدانی کے بارے میں کچھ کہنے کا موقع دیااور پھر مجھے سنا بھی اور برداشت
بھی کیا، بہت اچھی محفل کے لیے سب کا شکریہ۔
ڈاکٹر تنویر انور خان
|