قیام پاکستان سے قبل کشمیریون نے پاکستان کے ساتھ الحاق
کا اعلان کر دیا تھا لیکن بھارت غاصب نے کشمیر پر قبضہ جمایا ،مسئلہ کشمیر
تقسیم ہندوستان سے چلا آ رہا ہے۔ کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور ہندوستان
کے مابین تین جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ پہلی جنگ 1947، دوسری 1965 اور
تیسری1999 میں لڑی گئی۔ اس کے علاوہ آئے دن مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کی
سرحد جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے پر بھی گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا
ہے۔ جس میں اکثر پاکستانی شہری آبادی نشانہ بنتی رہی ہے۔مقبوضہ کشمیر کے
عوام ریاست جموں کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانا چاہتے ہیں جبکہ ہندوستان
پورے جموں کشمیر پر ملکیت کا دعوے دار ہے۔ 2010 میں ہندوستان کا کنٹرول 43
فیصد حصے پر تھا جس میں مقبوضہ کشمیر، جموں، لداخ اور سیاچن گلیشئر شامل
ہیں جبکہ پاکستان کے پاس 37 فیصد حصہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی شکل
میں ہے۔پاکستان اور بھارت دونوں مسئلہ کشمیر پر ایک بنیادی نظریے پر کھڑے
ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں۔ تقسیم ہند کے دوران جموں و کشمیر برطانوی راج کے
زیر تسلط ایک ریاست ہوتا تھا۔جس کی آبادی 95 فیصد آبادی مسلم تھی۔ جب
ہندوستان کو تقسیم کیا جارہا تھا تو جن علاقوں میں مسلم اکثریت تھی وہ
علاقے پاکستان اور جہاں ہندو اکثریت تھی وہ علاقے بھارت کو دیئے گئے۔ کشمیر
میں اکثریتی آبادی تو مسلمان تھے لیکن یہاں کا حکمران ایک سکھ تھا اور سیکھ
حکمران چاہتا تھا کہ کشمیر بھارت کے ساتھ ہوجائے۔ لیکن تحریک پاکستان کے
رہنماؤں نے اس بات کو مسترد کیا۔ آج بھی پاکستان کا ماننا ہے کہ کشمیر میں
مسلمان زیادہ ہیں اسلئے یہ پاکستان کا حصہ ہے اور بھارت کا ماننا ہے کہ اس
پر سکھ حکمران تھا جو بھارت سے الحاق کرنا چاہتا تھا اسلئے یہ بھارت کا حصہ
ہے۔
کشمیری اس وقت دنیا کے محروم ترین انسانوں میں شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی
واضح قراردادیں ہونے کے باوجود انہیں بنیادی حق خودارادیت سے محروم رکھا
جارہا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں نے اس جدوجہد میں اپنی جانوں کی
قربانی دی ہے۔ پلوامہ واقعہ کو بنیاد بنا کر 1971ء کے بعد پہلی بار بھارت
نے پاکستان کی سرحد کو عبور کیا جس کا انجام اس نے دیکھ لیا۔ یہ ان کے لئے
واضح پیغام تھا کہ وہ کسی جارحیت کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کا بھرپور جواب
دیا جائے گا۔ آزاد کشمیر کے عوام نے بھارتی افواج سے لڑ کر یہ خطہ آزاد
کرایا۔ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں متاثر کن
تقریر میں دنیا کے لئے جن چار بڑے خطرات کی نشاندہی کی ان میں ایک تنازعہ
کشمیر بھی ہے۔ کشمیریوں کا یہ اٹل فیصلہ ہے کہ وہ تیسرے درجے کے شہری کے
طور پر بھارت کے ساتھ نہیں رہیں گے۔ مودی اور امیت شاہ آر ایس ایس کے نظریہ
پر کاربند ہو کر یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ 5 اگست جیسے اقدامات اٹھا کر
کشمیریوں کو دبا دیں گے لیکن کشمیریوں نے اس کا بھرپور جواب دیا ہے، پہلی
بار امریکہ میں بنیادی انسانی حقوق کے مسئلے پر بھارت سے سخت سوالات اٹھائے
گئے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری کو 48 برطانوی ممبران پارلیمنٹ نے خطوط لکھے
ہیں، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے رپورٹس شائع کی ہیں،
جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے دہلی ایئرپورٹ پر بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف
ورزیوں کے حوالے سے بیان دیا، لیبر کانفرنس نے کشمیر پر قرارداد پاس کی، 5
اگست کے بعد عالمی میڈیا نے مقبوضہ کشمیر میں معاشی تباہی کو بھی اجاگر
کیا۔ پاکستان کی پارلیمان نے کشمیر پر دو قراردادیں منظور کی ہیں ۔ کشمیری
مظالم کے باوجود ’ہم سب پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘ کے نعرے بلند کرتے
ہیں۔ وہ اپنے شہداء کو پاکستانی پرچموں میں لپیٹ کر دفناتے ہیں اس لئے یہ
پاکستانی قوم کا قومی فریضہ ہے کہ وہ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر گھروں سے
نکلیں، پاکستان نے سفارتی سطح پر کشمیر پر کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں، آج
دنیا اس مسئلے کی حمایت کر رہی ہے، آر ایس ایس کے نظریئے کو دنیا جان چکی
ہے، اگر پانچ اگست کے اقدام کے بعد وزیراعظم لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ
کرنے کی اجازت دیتے تو بھارت دنیا کے سامنے یہ پراپیگنڈا کرتا کہ پاکستان
نے ہم پر حملہ کر دیا ہے جبکہ دنیا میں پاکستان کی ساکھ اب بدل چکی ہے اور
دنیا جو پہلے ہم پر دہشت گردی کا الزام لگاتی تھی اب وہ جان چکی ہے کہ دہشت
گردی کے پیچھے بھارت ہے۔
مقبوضہ ریاست جموں کشمیرمیں بڑھتی ہوئی بھارتی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے
میں ایک لاکھ سے زائد افراد شہید،ہزاروں زخمی اور ہزاروں حراستی مراکز میں
سالہا سال سے داد رسی کے منتظرہیں۔گزشتہ عرصے میں دس ہزار لاپتہ شہداء کی
قبروں کی دریافت پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی نشاندہی کے باوجود قابض فوج
اور ایجنسیوں کے ایجنٹوں کے ذمہ دار افراد کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے
انہیں عہدوں اوراعزازات سے نوازاجارہاہے۔ قائدین حریت باالخصوص جناب سید
علی گیلانی کی مسلسل نظر بندی اور نقل و حرکت پر پابندی ،حج عمرہ اور بیرون
ملک علاج معالجہ کی اجازت نہ دینا۔ حتیٰ کہ مقبوضہ ریاست کے شہریوں کو
بیرون ملک بالخصوص پاکستان میں اپنے عزیز و اقارب سے ٹیلی فون رابطے تک کی
اجازت نہ دینا نام نہاد دنیا کی بڑی جمہوریت کی طرف سے انسانی حقوق کی
پامالی کی بدترین مثال ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ ایک کروڑ سے زائد کشمیری
عوام کو بندوق کی نوک پر غلام بنا کر رکھا گیاہے۔ بھارت نے کشمیری مسلمانوں
کے حقوق غصب کر رکھے ہیں۔اپاکستان کی قومی پالیسی میں کشمیر ترجیح اول
ہوناچاہیے۔ ملک کی سلامتی اور بقا کشمیر کی آزادی کے ساتھ وابستہ ہے۔ بین
الاقوامی دباؤ میں آ کر حکمرانوں کے قدم ڈگمگاجاتے ہیں اور وہ دو قدم آگے
بڑھتے ہیں تو چار قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں اب یہ پالیسی نہیں چلے گی۔ حکمران
کشمیری عوام سے دھوکا کر سکتے ہیں مگر پاکستان کے غیور عوام اپنے کشمیری
بھائیوں کو کسی صورت تنہا نہیں چھوڑیں گے اور کشمیر کی آزادی کی تحریک اس
وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بن جاتا۔ مقبوضہ
کشمیر کے عوام نے بے شمار قربانیاں دینے اور بچوں کے لاشے اٹھانے کے باوجود
ہتھیار نہیں ڈالے۔ وہ آج بھی پوری جرا ت کیساتھ بھارت کے سامنے ڈٹے ہوئے
ہیں مگر افسوس ہے کہ ماضی میں بزدل پاکستانی حکمرانوں نے کشمیریوں کی
قربانی کو سبوتاڑ کیا اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے ہمیشہ نمک
پاشی کی۔ بھارت کا جمہوری چہرہ سراسر دھوکا اور فریب ہے بھارت انسانیت کے
چہرے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو
چاہئے کہ وہ خطے کو کسی بڑی تباہی سے بچانے کے لیے بھارت پر سفارتی اور
اقتصادی دباؤ بڑھاتے ہوئے اسے مجبور کریں کہ وہ فوجی انخلا کرتے ہوئے کشمیر
یوں کو حق خودورایت دینے کا وعدہ پوراکرے۔ حکومت پاکستان کشمیر پر اپنے
موقف کا اعادہ کرتے ہوئے تحریک آزادی کشمیر کی بھرپور پشتیبانی کرے اور
بھارتی ریاستی دہشت گردی اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی
سازشوں کو اقوام متحدہ اور اوآئی سی سمیت تمام بین الاقوامی اداروں میں بے
نقاب اور کشمیریوں کے حق خودارایت کے لیے بھرپور سفارتی مہم کا اہتمام
کرے۔کشمیر کشمیریوں کا ہے بھارت جتنی جلدی یہ بات سمجھ لے اتنا ہی اس کا
فائدہ ہے۔انڈیا ایک جارح ملک ہے جو کشمیر میں قتل عا م کر رہاہے۔ بھارت کی
آٹھ لاکھ افواج نے کشمیریوں کو بندوق کی نوک پر غلام بنارکھاہے۔ بھارت
پاکستان پر تین جنگیں مسلط کر چکاہے۔یوم یکجہتی کشمیر کو بھر پور قومی
پذیرائی حاصل ہے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں، قائدین اور ہر حکومت نے
کشمیر کی آزادی کے لیے خدمات انجام دی ہیں۔ یہ ہماری متفقہ آواز ہے
۔پاکستانی قوم کایہی پیغام جانا چاہئے ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں، کوئی
مسئلہ کشمیر پر دو قدم پیچھے ہے نہ اس کی آواز کم ہے، ہر کوئی مسئلہ کشمیر
کا اتنا ہی درد رکھتا ہے جتنا باقی تمام کے دلوں میں ہے پوری پاکستانی قوم
کشمیر کاز کی حمایت کرتی ہے۔ |