نمونیا ہوگا تو علاج ۔۔۔

انسان کی بنیادی ضروریات میں تعلیم اور صحت کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ تعلیم کے زیور کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا ہے اور ’جان ہے تو جہان ہے ‘ کے مصداق صحت کے بغیر انسانی زندگی کا تصور ممکن نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں نظام صحت کا ڈھانچہ تین ستونوں پر استوار ہے۔ اول، افراد کی بنیادی صحت کے لئے بنیادی ہیلتھ یونٹس ( بی ایچ یوز ) اور دیہی ہیلتھ سنٹر (آر ایچ سنٹر ) قائم کئے گئے ہیں جو کہ بالترتیب پچیس ہزار اور ایک لاکھ کی آبادی کی خدمات پر مامور ہیں۔ ملک بھر میں ان مراکز کی تعداد بالترتیب پانچ ہزار اور چھ سو کے لگ بھگ ہے۔ زمینی حقائق دیکھے جائیں تو ان مراکز سے مستفید ہونے والوں کا محض فرضی ڈیٹا روزانہ کی بنیادوں پر کاغذات کی زینت بنتا ہے جب کہ حقیقت میں مریض سوائے ایمرجنسی کے یہاں کا رُخ نہیں کرتے۔ یاد رہے کہ ملک کی زیادہ تر آبادی دیہات میں رہتی ہے اور ان مراکز پر طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مریض شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔ دوم ، افراد کی صحت کے حوالے سے دوسرا ستون ثانوی صحت کی دیکھ بھال ہے جس کے لئے تحصیل ہیڈکوارٹر اور ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال موجود ہیں جو کہ بالترتیب پانچ سے دس لاکھ اور دس لاکھ سے تیس لاکھ افراد پر محیط آبادی کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ان ہسپتالوں کی تعداد 136 اضلاع اور اُن کی ملحقہ تحصیلوں میں ایک ہزار کے قریب ہے اور قلیل بجٹ کے باعث ان کی حالات زار سالوں پرانی بوسیدہ عماراتوں کی طرح مخدوش ہے جو کسی بھی وقت آن گر سکتی ہیں۔ سوم ، افراد کی صحت کے حوالے سے تیسرا ستون ٹیچنگ اور خصوصی ہسپتال ہیں۔ یہاں گزارے لائق سہولیات کی بدولت مریضوں کی کافی بھیڑ نظر آتی ہے۔ پاکستان کے غریب عوام کے لئے نظام صحت کا یہ ڈھانچہ عرصہ درازسے موجود ہے ، کیا اس نظام میں دو ٹیکوں سے حوروں کا دیدار ممکن ہے ؟ اگر حکومت واقعی اس نظام میں بہتری کی خواہاں ہے تو پھر صحت کے لئے مختص بجٹ میں اضافہ کرنا ہوگا اور ان تین ستونوں کے بجٹ استعمال میں ایک منصفانہ تقسیم لانی پڑے گی تاکہ مریضوں کی بھیڑ میں عدم توازن پیدا نہ ہو اور آئین کے آرٹیکل 38 کے تحت ہر شہری کو بلا امتیاز ، مذہب ، ذات ، عقیدہ اور نسل کے زندگی کی بنیادی ضرورتوں بشمول صحت اور علاج معالجہ کی بہترین سہولتیں مل سکیں۔ہماری حکومتوں کی صحت بارے سنجئدگی کا یہ عالم ہے کہ 2017-2018 کے وفاقی بجٹ میں صحت کے لئے 48 ارب روپے مختص کئے گئے تھے جب کہ بجٹ 2018-2019 میں صحت کے لئے پچیس ارب روپے ، یعنی تیئس ارب روپے کی کٹوتی کے ساتھ مختص کئے گئے اور جس میں مریضوں کے علاج کے لئے رقم نہایت قلیل بنتی ہے۔ اس کمزور اور لاغر نظام صحت کے لئے کورونا وائرس دروازے پر دستک دیئے کھڑا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے چین کے علاوہ دیگر ممالک میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے واقعات ( تا حال دس ہزار افراد متاثر ہو چکے ہیں )کے تناظر میں اسے عالمی ایمرجنسی قرار دیا ہے۔ ادارے کی جانب سے عالمی ایمرجنسی کے لئے معیار چار سوالات ہیں جن میں اگر دو کے جوابات مثبت میں آجائیں تو عالمی ایمرجنسی کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ پہلا سوال یہ ہے ، کیا بیماری نئی یا غیر معمولی ہے۔ دوسرا اور تیسرا سوال بیماری کے اسی علاقے اور دیگر ممالک میں پھیلاؤ سے متعلق ہیں۔ چوتھا سوال یہ ہے ، بیماری سے ہلاکتوں کی شرح کیا ہے۔ جہاں تک کورونا وائرس سے متعلق ان چار سوالات کا تعلق ہے تو صد فیصد جوابات مثبت میں ملتے ہیں۔ یہی وجہ کہ ڈبلیو ایچ اور کی جانب سے عالمی ایمرجنسی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ ادارے کے چیف نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا وائرس ان ممالک میں زیادہ پھیل سکتا ہے جہاں طبی نظام کمزور ہے۔ شاید اسی بات کو مد نظر رکھ کر وزیر مملکت برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا ہے ۔ ’’ عالمی ادارہ صحت نے تجویز دی ہے کہ چین سے لوگوں کو باہر نہ نکالا جائے۔ اگر ہم غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے وہاں سے لوگوں کو نکالنا شروع کر دیں تو یہ وبا جنگل کی آگ کی طرح پھیل جائے گی۔ ‘‘ گزشتہ روز سینیٹ کے اجلاس میں اسی موضوع پر گرما گرم بحث ہوئی۔حزب اختلاف کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ حکومت دیگر ممالک کی طرح ووہان شہر میں زیر تعلیم طلباء کو واپس وطن لانے کے لئے انتظامات کرے تاکہ طلباء اور اُن کے پریشان حال والدین و رشتہ دار سکھ کا سانس لے سکیں۔جب کہ حکومتی نمائندوں کا کہنا تھا کہ ووہان شہر میں پھنسے طلباء کو واپس پاکستان اس لئے نہیں لایا جارہا ہے کہ وہاں علاج کی بہترین سہولیات موجود ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق صرف چار پاکستانی طالب علم اس مہلک وائرس سے متاثر ہوئے ہیں اور ان کی صحت بہتری کی جانب گامزن ہے ، یعنی باقی رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ طلباء محفوظ ہیں۔ اَب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے صحت مند طلباء اور شہریوں کو ووہان شہر سے واپس کیوں نہیں لارہے ہیں۔ خدا نخواستہ ہم اس بات کا انتظار تو نہیں کر رہے ہیں کہ وہ اس بیماری میں مبتلا ہوجائیں کیوں کہ چین میں اس کا علاج اور سہولیات میسر ہیں۔ کہتے ہیں کہ سخت ٹھنڈ میں ڈاکٹر کے پاس سینے کے انفیکشن میں مبتلا ایک مریض آیا۔ ڈاکٹر نے سرسری معائنے کے بعد مریض سے کہا کہ وہ گھر جا کر ٹھنڈے پانی سے نہائے۔ مریض نے سردی سے کانپتے ہوئے کہا ۔ ’’ ڈاکٹر صاحب ! ٹھنڈے پانی سے نہانے کے بعد تو مجھے نمونیا ہوجائے گا۔ ‘‘ ڈاکٹر نے وضاحت کرتے ہوئے مسکرا کرکہا کہ میں نمونیے کا ٖڈاکٹر ہوں ، پس آپ کو نمونیا ہوگا تو ہی علاج کروں گا۔ کہیں ہماری حکومت ووہان شہر میں پھنسے ہوئے طلباء کے ساتھ نمونیے کا یہ کھیل تو نہیں کھیل رہی ہے۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 226 Articles with 301470 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.