علاماتِ نفاق-۳

(۹)قرآن کریم، سنتِ مطہرہ، یا رسول اللہﷺ کا مذاق اُڑانا:
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شرعی حکم منافق کو گراں گزرتا ہے وہ اس کا مذاق اُڑاتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کا جو عمل ان کی طبیعت پر بار ہو اسے کھیل کی چیز سمجھتے اور اس پر لطیفے بازی کرتے ہیں۔ڈاکٹر عبداللہ عائض قرنی صاحب نے اس قسم کا ایک واقعہ بھی ذکر کیا ہے جس میں شرعی معاملات کو مذاق بنایا گیا ہے اور اس ایک واقعے سے ہم بھی اپنے گرد وپیش میں ایسے کرداروں کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ” اِس زمانے کے ایک ماڈرن فاجر کے بارے میں، میں نے سنا کہ چند نوجوانوں کے ساتھ وہ بیٹھا تھا اور انہیں جنت کے راستے سے بھٹکا کر جہنم کے راستے کی طرف بہکا رہا تھا۔ اس نے ساتھیوں سے پوچھا: ابوہریرہ سے مروی چند حدیثیں کیا تمہیں نہ سناﺅں؟ ساتھیوں نے کہا: ہاں ،ہاں! ابوہریرہ سے مروی حدیثیں ہمیں بھی سناﺅ! اس نے کہا:( نقل کفر، کفر نہ باشد و نعوذ باﷲ من الکفرو النفاق)” مجھے میری پھوپھی نے بتایا، اُس نے کہا کہ اسے اُس کی خالہ نے بتایا کہ اس کی دادی نے حضور اکرمﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ ایک دن آپﷺ نے اپنے اردگرد بیٹھے صحابہ کرام سے دریافت کیا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ پیپسی کسے کہتے ہیں؟( واضح رہے کہ آپﷺ کے زمانے میں پیپسی نہیں تھی، لیکن اس نے مذاق بنایا) صحابہ ؓ نے کہا: ہم پیپسی کو نہیں جانتے تو آپﷺ نے فرمایا: یہاں سے اُٹھ جاﺅ، تمہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ پیپسی کیا ہوتی ہے۔“

اسے کافر قرار دینے کے لئے اس کی یہی حرکت کافی ہے۔ اس گفتگو کی وجہ سے وہ کافر قرار پاتا ہے، اس کا خون رائیگاں ہے، اس کے نصیب میں اب صرف تلوار ہے۔ اس پر جنازہ نہیں پڑھا جائے گا نہ کفن دیا جائے گا اور نہ ہی مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا، بلکہ اس کا شمار کافروں میں ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ” ان سے کہو! تمہاری ہنسی دل لگی ،اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول ہی کے ساتھ تھی؟ اب عذر نہ تراشو، تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے۔“

اللہ تعالیٰ رحم فرمائیں، یہ بہت بری خصلت ہے ۔کتنے ہی اسلام کے مضبوط قلعوں کو ایسے بدخصلت لوگوں نے تباہ کیا ہے، اور کتنے ہی گھروں کو برباد کیا ہے۔ اور کتنے ہی شہروں کو اجاڑ دیا ہے۔ ان کی سزا جہنم کی آگ ہے اور وہ بہت بھیانک ٹھکانہ ہے۔

اسی طرح کپڑوں کی لمبائی(جو ستر کو اچھی طرح چھپانے کے لیے ہو)، مسواک، داڑھی، بیٹھنے کے آداب ،تعلیم وتعلم ،حجاب ،جہاد اور اسی طرح کے دوسرے شرعی احکام سے دل لگی کے پیچھے دراصل رسول اللہﷺ کی سنتوں کا مذاق اڑانے کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے اور عمداً ایسی چیزوں کا مذاق اڑانے والا کافر ہے۔

(۰۱) اپنے تحفظ کی خاطر قسمیں کھانا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:” ان(منافقوں) نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے۔“

یعنی قسمیں ان کی حفاظت کا کام کر رہی ہیں۔ جب تم نے کسی چیز کے بارے میں پوچھ گچھ کی تو سب سے آسان چیز اس کے ہاں قسم کھانا ہے، حالانکہ وہ جھوٹا ہوتا ہے۔ مثلاً اگر وہ کسی کی غیبت کر چکا ہے تو جس کی غیبت کی اس کے سوال پر قسم کھا کر کہتا ہے کہ میں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی،اللہ کی قسم تم تو مجھے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہو، اللہ کی قسم تم تو میرے دوست ہو،گویا جھوٹ پر جھوٹ بولتا ہے اور قسم کو اپنے تحفظ کی خاطر استعمال کر تا ہے۔

یہ منافق کی پہچان ہے کہ وہ بہت زیادہ جھوٹی قسمیں کھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:” ہر گز نہ مانو کسی ایسے شخص کی جو بہت زیادہ قسمیں کھانے والا بے وُقعت آدمی ہے۔“

قرآن کے لفظ” حَلّاف“ سے مراد ہے، بہت زیادہ قسمیں کھانے والا۔ یہ مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی مسلسل قسمیں کھانے والا۔ حالانکہ حضرات علماء وصلحاء سچی قسم کھانے کو بھی بڑی بات سمجھتے اور اس سے گریز کرتے تھے۔ امام شافعیؒ بیان کرتے ہیں:” میں نے اللہ کے نام کی نہ کبھی سچی قسم کھائی ہے اور نہ کبھی جھوٹی“۔

(۱۱)بزدلی پیدا کرنا
منافقوں کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی صفوں میں بزدلی ا ور کم ہمتی پیدا کرتے ہیں۔ ان کے ہاں بزدلی پیدا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ مایوسی پھیلائیں گے، مثلاً یہ کہ ” کافر مسلمانوں کے مقابلے میں کہیں طاقتور ہیں، اسرائیل کے پاس بے شمار فوجی سازو سامان ہے“۔کبھی بطور تمسخر کہیں گے” کیا یہ تمام مسلمان مل کر بھی امریکہ کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ جس کے پاس ایٹمی اسلحہ ہے اور جوہری بم ہیں۔ ظاہر بات ہے امریکہ کا مقابلہ نہیں ہو سکتا، ہم مسلمان تو تباہ ہو چکے ہیں، ہلاکت میں ہیں، بہت ہی کمزور اور مسکین ہیں اور مجاہدین نے ان طاقتوروں کو چھیڑ کر خود کو ہلاکت میں ڈال دیا ہے ،وغیرہ“۔ ایسی باتیں کرنا ان کی عادت بن چکی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جو منافق یورپ اور امریکہ کا چکر لگا کر آئیں، حالانکہ وہ ہماری اپنی ہی نسل سے ہیں، لیکن ان کے دماغ دھو دیئے جاتے ہیں اور وہ کافروں کی تصویر بن کر واپس آتے ہیں اور باہر سے مسلط ہونے والے استعمار کے ایجنٹ نظر آتے ہیں۔ ہمیشہ امریکہ اور دیگر کافر وں کی عظمت کے قصے بیان کرتے ہیں، اس کی طاقت ، اس کے میزائل، اس کے ہوائی جہازوں کے تذکرے ان کی زبان پر ہوتے ہیں اور اس کے بالمقابل مسلمانوں کی کمزوری ورسوائی بیان کرتے ہیں، اس لئے کہ انہوں نے ذہنی طور پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ نسبت میں عزت کا مقام دیکھا ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں:” اگر اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں۔“

دوسری جگہ فرمایا:” جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرست بنا لئے ہیں ان کی مثال مکڑی جیسی ہے، جو اپنا ایک گھر بناتی ہے، اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے۔“

لیکن منافق کو اس کی خبر ہی نہیں کہ عزت اللہ ہی کی طرف سے ملتی ہے۔ وہ ہمیشہ بزدلی کی باتیں ہی کرتا ہے۔ اگر تم اس کے سامنے افغان جہاد کا تذکرہ کرو تو اس کا جواب ہو گا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ امریکہ افغانیوں کی جان چھوڑ دے گا؟ وہ تو انہیں پیس کر رکھ دے گا، اس کا کیا مقابلہ؟ امریکہ کے پاس اس قدر سامان جنگ ہے کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اگر اس منافق کو پتہ چلے کہ کچھ نوجوان جہاد کے لئے جا رہے ہیں تو وہ کہتا ہے: میرے خیال میں انہیں نہیں جانا چاہیے، وہاں سے تو سخت جنگ کی خبریں آ رہی ہیں اور مجاہدین بری طرح کچلے جا رہے ہیں۔ اسی طرح وعظ وارشاد کی مجالس سے روکنے اور انہیں بے فائدہ ثابت کرنے کے لیے مختلف حیلے بہانے بناتا ہے۔ یہ ساری کی ساری حرکتیں مسلمانوں کو بزدل بنانے اور اسلام سے دور رکھنے کے لیے ہیں اور یہ بری خصلت نفاق کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔ والعیاذ باللہ من ذلک!

(۲۱)اضطراب انگیز اَفواہیں پھیلانا
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:” اگر منافقین، اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے اور جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے....“

بزدلی پید اکرنے والوں اور افواہ سازوں کے درمیان کئی باتیں مشترک ہیں۔ البتہ اَفواہ ساز ،مسلمانوں کے نقصانات والے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، اگر کوئی چھوٹی سی بات ہو جائے تو اسے کئی گنا بڑھا کر پیش کرتے ہیں بطور مثال اگر ایک مجاہد معرکے میں شہید ہو جائے تو افواہ ساز کہے گا کہ میں نے سنا ہے کہ سو مجاہد مارا گیا۔ اگر کسی عالم دین سے کسی چھوٹے سے مسئلے پر غلطی سرزد ہوجائے تو کہے گا: اللہ ہمیں اور اسے ہدایت دے، فلاں عالم نے کئی غلط مسئلے بیان کئے ہیں، یہ کیسا عالم ہے، اسے کسی چیز کا پتہ ہی نہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی اس کی کردار کشی شروع کر دے گا، خواہ اس داعی اور مقرّر میں بے شمار خوبیاں ہوں اور اس میں کئی عمدہ خصلتیں ہوں، تو ایسی باتوں کا وہ لوگوں کے سامنے قطعاً تذکرہ نہیں کرے گا۔امام شعبیؒ کہتے ہیں: میں نے افواہ سازوں جیسا کم ظرف کسی کو نہیں پایا، اگر تم ننانوے صحیح اور ایک بات غلط کر لو تو ننانوے کو بھول جائیں گے اور ایک غلطی کو شمار کرنے بیٹھ جائیں گے۔

(۳۱)نیک لوگوں کی عزت پر حرف زنی کرنا
حرف زنی سے مراد غیبت ، طعن، تشنیع اور عیب جوئی جیسے نازیبا کام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:” یہ(منافق) لوگ فائدوں کے حریص بن کر قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبانیں لئے تمہارے استقبال کو آ جاتے ہیں۔“

قرآنی لفظ” حِدَاد“ سے مراد ہے تلوار کی طرح تیز۔ منافقوں کی نشانی یہ ہے کہ جب نیک لوگوں کے پاس سے اُٹھ کر جاتے ہیں تو ان کے بارے میں زبان درازی کرتے ہیں، ان پر الزام تراشی کرتے ہیں، ان پر دانت پیستے ہیں اور محفلوں میں بیٹھ کر ان کے خلاف غیبت کرتے ہیں۔بلکہ اس ٹوہ میں رہتے ہیں کہ اس نیک آدمی سے کوئی غلطی سرزد ہو اور انہیں طعن وتشنیع کرنے کو خوب موقع ملے۔واقعہ ہے کہ ایک آدمی کسی نیک بزرگ کی محفل میں حاضر ہو کر اپنے بھائی کی غیبت کرنے لگا۔ نیک آدمی نے اُس سے دریافت کیا: کیا رومیوں کے خلاف تو نے جہاد کیا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ انہوں نے پھر دریافت کیا: کیا ایرانیوں کے خلاف جہاد کیا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ نیک آدمی نے کہا: رومی اور ایرانی تو تجھ سے محفوظ رہ سکتے ہیں البتہ اپنا مسلمان بھائی محفوظ نہیں رہ سکتا،اٹھو! میری محفل سے چلے جاﺅ۔

(۴۱)نماز با جماعت سے پیچھے رہنا
یہ ایک بہت بڑا اور سخت مضرّ مرض ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:” نماز با جماعت سے صرف ایسا منافق ہی پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق معروف و مشہور تھا۔“

جب تم کسی ایسے آدمی کو دیکھو جو صحت مند، تندرست و توانا اور فارغ ہو اور اس کے پاس کوئی شرعی عذر بھی نہ ہو۔ اگر اس کے باوجود وہ اذان سننے کے بعد مسجد میں نہیں آتا تو سمجھ لو کہ اس میں یہ نفاق بری طرح سرایت کررہا ہے۔

حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں نے پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ میں نماز کھڑی کرنے کا حکم دوں، پھر خود پیچھے رہ کر ان لوگوں کی خبر لوں جو ہمارے ساتھ نماز عشاء میں شریک نہیں ہوتے۔( ایک روایت میں نماز کا لفظ ہے) پھر ان سمیت ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔“

(۵۱)اصلاح کے دعوے کے ساتھ زمین میں فساد پھیلانا
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:” جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ خبردار حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعور نہیں ہے۔“

تم ایسے منافق اور فسادی کو دیکھو گے کہ لوگوں میں چغلیاں کرتا پھر رہا ہے، جھوٹی گواہی دے رہا ہے، دو بھائیوں کے درمیان یا باپ بیٹے کے درمیان جھگڑا کھڑا کر رہا ہے، دوسروں کو لڑانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ ایسا آدمی گھاس پھوس کی آگ کی مانند ہوتا ہے جو گھروں کو جلا دیتا ہے اور معاشرے کو تباہ کر دیتا ہے۔ اگر کوئی اسے بطور نصیحت کہہ دے کہ تیرا ستیاناس! اللہ سے ڈر، تو قسم کھا کر کہتا ہے کہ میں تو اِصلاح کی کوششوں میں لگا ہوا ہوں۔ حالانکہ خاندانوں اور برادریوں میں ایسے منافق ہی اکثر فساد کا موجب بنا کرتے ہیں۔ ایسا فساد ی گواہی میں جھوٹا، بہت باتونی، خود غرض، مذموم مقاصد والا اور نفاق سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اس قسم کے فسادی کو جب دو بھائیوں میں غلط فہمی کا پتہ چلتا ہے تو پرائی آگ میں فوراً کود پڑتا ہے۔ پھر پوچھتا ہے تمہارا کیسا جھگڑا ہے، مجھے کل ہی اس اس طرح پتہ چلا، مجھے اس کا بہت دکھ ہوا، میں تو ساری رات سو نہ سکا( خواہ وہ پچھلی رات خوب خراٹے بھر کر سویا ہو اور اسے یہ بھی خبر نہ رہی ہو کہ وہ کہاں سو رہا ہے؟ )بظاہر وہ اصلاح کنندہ کا کردار ظاہر کر تا ہے لیکن کوشش یہی ہوتی ہے کہ ان کا آپس میں اتفاق نہ رہے اور لڑائی جھگڑا بھڑک اٹھے۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372699 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.