از قلم : منہال زاہد سخی
کبھی تو کسی کو دنیا میں اس کے حق سے نوازا جارہا ہوتا ہے تو کبھی کسی کو ۔
کبھی کسی کے ناجائز مطالبوں کو مانا جاتا ہے ۔ کبھی دنیا کے نام نہاد دہشت
گرد اور درندہ صفت آدم خوروں کو عالمی عدالت میں جرم سے بر طرف کیا جارہا
ہوتا ہے ۔ تو کبھی ان کو مفادات کی خاطر تحفظ اور آزادی دی جاتی ہے۔
یہ جو لوگ بھی بھی ہیں پر مسلم نہیں ہیں ۔ ان میں
امریکہ،اندیا،برطانیہ،اسرائیل،روس اور دنیا کے دیگر غیر اسلامی ممالک ہیں
جنہیں ان کے جرم سے بر طرف کر دیا جاتا ہے ۔ کبھی بھی ان کی طرف سے حق کی
آواز اٹھے تو انہیں اقوام متحدہ کی طرف سے فیصلہ سنا کر ان کا حق دلایا
جاتا ہے ۔
ان کا بیان چاہے 15 منٹ کا ہو اس کی اہمیت ہوتی ہے۔ اگر اسلامی سربراہ 50
منٹ کا بیان دے تو اسے روز مرہ زندگی کا تکیہ کلام سمجھ کر ٹال دیا جاتا ہے
۔ یاں انہیں الزام تراش کے کہہ کر اپنی سیاہی کو ان کے چہروں پر ڈال دیتے
ہیں ۔ اور ان کی بات کی اہمیت نہ رکھتے ہوئے انہیں عالمی میڈیا کے سامنے
دہشتگرد کہہ کر بدنام کیا جاتا ہے ۔
سچائی ایک بار پھر دب گئی ۔ اگر یہ حق کی بات کر بھی دیں تو انہیں میں سے
ان کے حمایتیوں کو خرید کر پروپیگنڈا کروانا اور سچائی ایک بار پھر دب گئی۔
برما،شام،فلسطین،عراق کے علاوہ ایک کشمیر بھی ہے جو مسائل میں اور بد امنی
میں ان ہی کے مشابہت کھتا ہے۔
کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ ا س شہ رگ پر بھارتی درندہ صفت فوج نے 1948 میں
غاصبانہ قبضہ کیا ۔ آج اس کشمیر کو 72 سال ہو گئے ہیں بھارت کے قبضے میں۔
پیلٹ گنوں سے معصوم بچوں پر فائرنگ کرکے ان کی بینائی کو ضائع کر کے درندگی
اور سفاکیت کا عملی ثبوت آئے دن ملتا ہے۔ چھوٹے بچوں کو بھی سلاخوں کے
پیچھے پہنچا کر بے شرمی انتہا آئے دن ملتی ہے ۔ بوڑھوں کو ان کی داڑھی سے
نوچ کر احترام کو پامال کرنے کی مثال آئے دن قائم ہوتی ہے۔ ماؤں بہنوں کے
آنچلوں کو پھینک کر ان کی عزت کی چادر کو تار تار کر کے بے غیرتی کی انتہا
میں اضافہ اور اور بے غیرتوں کا اضافہ بنیاد روز ہے ۔
6 ماہ سے زائد ہو گیا اور کشمیری محصور ہیں ۔ تعلیمی اداروں کو تالوں کے
نذر کر کے کشمیریوں کو ایک فرض سے دور رکھا جارہا ہے۔ مسجدوں کو بند کرکے
عبادت میں خلل دالا جارہا ہے۔ مسجدوں کو شہید کر کے بربریت کی مثال کو
تاریخ کے اوراق کے سپرد کیا جارہا ہے۔ بازاروں اور دکانوں کے شٹر گرا گر ان
کے منہ کا نوالہ بے مقصد اور حسرت کے نذر کیا جارہا ہے۔
کیا کسی کو اس کشمیر کی حالتِ تشویشناک کی خبر نہیں؟ ہاں! ہے پر اس لئے کہ
یہ مسلمانوں کا ہے ا سلئے اس کا حق ادا نہیں کیا جارہا ۔ کیا کسی نے ان کا
حق دنیا کے سامنے متعارف نہیں کروایا؟
کروایا! بالکل کروایا آئے دن سوشل میڈیا پر کشمیر کے نام سے ہیش ٹیگ کردہ
کتنے ٹرینٹ چل رہے ہیں ۔ کشمیر کے نغمے پڑھنا روز مرہ کا کام ہوگیا ہے۔ ا س
پر لکھنا بھی معمول کی بات ہو گئی ہے ۔ سب مسائل حل ہو جاتے ہیں ۔ بڑے ہو
یاں چھوٹے ہوں ان کا حل ہوجاتا ہے ۔ پر اس 72 سالہ مسئلہ کو پس پشت کیوں
ڈالا جارہا ہے ؟ کیونکہ اس مسئلہ کو وجود میں لانے والے بھی غیر مسلم ہیں
اور اس کو حل کرنے والے بھی انہی کے ساتھ سر فہرست ہیں ۔ نبی(ص) نے فرمایا
تھا : سارے کفار ایک ہیں ۔ بس یہی وجہ ہے ا س مسئلہ کے حل نہ ہونے کا ۔ ملے
ہوئے ہیں یہ آپس میں ۔
نبی (ص) نے فرمایا مسلمان ایک جسم کی مانند ہے ۔ لگتا ہے ہمارے خون میں
ملاوت ہوگئی ہے ۔ یاں دل اتنا پر خلوص اور احساس مند نہیں جو خلوص کے ساتھ
اپنوں کی تکلیف کو محسوس نہیں کر سکتا ۔ ان کو ہالی وڈ کی فلم میں کسی کے
مرنے کا دکھ ضرور ہوگا ۔ بالی ووڈ کی فلم میں کسی کے رونے میں ان کی کیفیت
بدل کر غم کی صورت اختیار کر جائے گی۔ ڈرامے دیکھ کر رونے والے افسانہ نگار
اور افسانوی خیالات کو کو تسلیم کر لیتے ہیں ۔ اور حقیقت کا مذاق کا اڑاتے
ہیں ۔ یاں حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے۔
یاد رکھو اگر کشمیر مذاکرات سے آزاد ہوجاتا تو اس وقت تک مقبوضہ نہ ہوتا ۔
تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا مسلمانوں نے مذاکرات سے فتح حاصل کی
ہو ۔ فتح تو جنگ ہمت اور حوصلے سے لڑی جاتی ہے اور ایمان اور جذبے سے جیتی
جاتی ہے۔ دنیا کی فطرت تبدیل ہوتے نہیں ہوگی ۔ قدم اٹھانا پڑے گا اور اگر
مذاکرات پر ہی اڑے رہے تو نجانے کتنے 5 فروری اور یکجہتی کشمیر کیلئے لکھنا
پڑے گا ۔
ڈر کس بات پاکستان اس کے نشانے پر ہے اس کی زد پر ہے اس کا قرضہ لوٹانا یے
۔ بہانے بننے سے بنتے چلے جائیں اور خون میں آہستہ آہستہ کرکے بے غیرتی رچ
بس جائے گی ۔ اور ایک دن پورے بے غیرت ہونے میں کوئی کسر باقی نہ رہے گی۔
تبوک میں پاؤں میں کچھ نہیں تھا ۔ بدر میں لڑنے کو کچھ نہیں تھا ۔ خندق میں
پتھر باندھنے پڑے۔ موتہ میں تین سالار شہید ہوئے ۔ احد میں 70 صحابہ شہید
ہوگئے ۔ فارس کو فتح کرنے کیلئے کتنی دفع کمک منگوانے کیلئے قاصد دورائے۔
پھر جاکے سب ہاتھ آیا ۔ میدان میں اترنے سے پہلے جیت نہیں ہوتی البتہ جذبوں
کی ہار ہو جاتی ہے۔
کشمیر پھر ایک تماشہ بن جائے گا ۔ کہیں تحاریر کا خوبصورت موضوع ہوگا ۔
کہیں اقوال کی زینت ہوگا ۔ پر آزاد نہیں ہوگا۔ جذبوں کو جیتنے والا بنائیں
۔ نہ کہ خود کو حقیقت سے بھگوڑا۔
انشاللہ وہ دن دور نہیں جس دن ہم کشمیر کو آزاد دیکھیں گے ۔ کیونکہ کشمیر
ہماری سانس سا ہے۔ ہمیں ان کے بھرپور نعروں کی لاج رکھنی ہے ۔ اور ان کی
عزت کا محافظ بن کر ۔ اپنے خون کو غیرت سے بخشنا ہے۔
#قلم-سخی |