شہریت ترمیمی قانون اور اس سے متعلق حکومت کے بعض دیگر
فیصلے نہ صرف یہ کہ دستورِ ہند کے مزاج کے خلاف ہیں بلکہ یہ عوام کو پریشان
کرنے والے ہیں اور ان کی وجہ سے پورے ملک میں ایک افرا تفری کی کیفیت پیدا
ہو گئی ہے۔ جہاں یہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے ہندوراشٹر کے قیام کی طرف
پیش قدمی کی راہ ہموار کرنے والا بنیادی فیصلہ ہے وہیں ملک کے اصل مسائل سے
عوام کی توجہ ہٹانے کے ایک تکنیک بھی ہے۔ ہر ہندوستانی کی ذمہ داری ہے کہ
وہ ممکنہ قانونی وسائل سے اس قانون کے خلاف کھڑا ہو۔ ملک کی بھاری اکثریت
اس قانون کو غلط سمجھتی ہے۔ عام ہندوستانیوں کی ایک اچھی تعداد اس قانون کے
خلاف سرگرم جد و جہد کر رہی ہے۔ اس جدو جہد کی قیادت کوئی سیاسی یا مذہبی
لیڈر نہیں کر رہا ہے بلکہ خود عوام کر رہی ہے اور طلبہ ، نوجوان اور بطورِ
خاص خواتین نے پورے عزم و ہمت کے ساتھ اس قانون کے خلاف جدو جہد چھیڑ رکھی
ہے۔ ایک ایسے وقت جب کہ ملک دو راہے پر کھڑا ہےہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ
میدانِ عمل میں سرگرام ان ماؤں ، بہنوں، طلبہ، نوجوانوں، اور جہد کاروں کی
حوصلہ افزائی کرے۔ بیرونِ ملک مقیم افراد بھی درج ذیل شکلوں میں اس مہم کا
بھرپور حصہ بن سکتے ہیں:
1۔ قانون کی تفصیلات اور اس کے منفی اثرات سے آگاہی حاصل کریں۔ کس طرح یہ
قانون دستور کی روح کے خلاف ہے یہ جانیں۔ دوسروں تک معلومات پہونچائیں۔
اپنی گفتگووں اور مباحثوں میں اس کے مختلف پہلووں کو اجاگر کریں۔ اس قانون
کی خرابیوں پر قانونی ماہرین نے جن نکات کو واضح کیا ہے انہیں ذہن میں
رکھیں۔
2۔ ہم جہاں کہیں بھی مقیم ہیں وہاں کے افراد کو اس قانون کی ہولناکی سے
مناسب ذرائع سے آگاہ کرنے کی کوشش کریں۔ با اثر شخصیات سے انفرادی اور وفود
کی شکل میں ملاقاتیں کریں۔ اس سے متعلق مضامین لکھ کر شائع کرنے اور حلقہ
تعارف میں انہیں پھیلانے کی کوشش کریں۔ یہ کام ایک دو دن کرنے کے بجائے
پیہم کریں۔ یہ ایک لمبی جدو جہد ہے۔
2۔ ہندوستان میں موجود اپنے اہلِ خانہ، دوست و احباب، رشتہ داروں ، محلے کے
افراد اور متعلقین سے مسلسل رابطہ رکھا جائے۔ مظاہروں میں شرکت اور مظاہرین
کی ہر طرح سے مدد کے لیے انہیں آمادہ کرنے کی کوشش کی جائے ۔ جو لوگ بھی ان
کوششوں میں شامل ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اس جدو جہد کو جاری
رکھنے کے لیے وسائل کی فراہمی میں ان کی مدد کی جائے۔ ہندوستان میں ہر سطح
پر ہونے والے مظاہروں نے ملک کے اندر حزبِ اختلاف کی کمی کی تلافی کی ہے۔
موجودہ لہر کو باقی رکھنے اور مثبت نتائج کے حصول تک ان کو جاری رکھنے پر
لوگوں کو آمادہ کیا جائے۔
3۔ جولوگ تعطیلات میں ملک کا سفر کر رہے ہیں وہ اپنی تعطیلات کا ایک حصہ اس
قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو طاقت پہونچانے میں صرف کریں۔ خود شرکت
کریں، دوسروں کو آمادہ کریں اور وسائل کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کریں۔
جو لوگ صرف ان مظاہروں کی حوصلہ افزائی کے لیے چھٹی لے کر ہندوستان کا سفر
کر سکتے ہوں ان کو سفر بھی کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیےکہ صرف
ایک ووٹ کے لیے ہزاروں کی تعداد میں ہندوستانیوں نے ملک کا سفر کیا تھا۔ یہ
لڑائی تو ایک الیکشن کے مقابلے میں بہت ہی بڑی لڑائی ہے لہذا یہ ہم سے
زیادہ توجہ کا مطالبہ کرتی ہے۔
4۔ ہم ملک اور بیرونِ ملک کے اہم اخبارات اور ٹی وی کے پروگراموں کے کمنٹ
سکشن میں اس پر اظہارِ خیال کریں۔ جہاں اس قانون کے خلاف تبصرے ہو رہے ہیں
ان کی تائید کریں۔ دلائل سے ان کی گفتگو کو مزید واضح کریں ۔ اس قانون کی
تائید میں ہونے والے تبصروں اور گفتگووں کا رد کریں۔ دلائل دیں ۔ اس کام کے
لیے منظم جد و جہد مطلوب ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ملنے والے کوریج کو زیادہ
سے زیادہ لوگوں تک پہونچائیں اور یہ بتائیں کہ کس طرح یہ قانون بین
الاقوامی قوانی اور معاہدون کی بھی خلاف ورزی ہے۔
5۔ ملکی اور بین الاقوامی اہم اداروں ، حقوقِ انسانی کی تنظمیوں کو روزانہ
بڑے پیمانے پر خطوط لکھیں۔ ان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر اس موضوع پر
ہونے والی اہم گفتگووں کو شیئر کریں۔ چھوٹی چھوٹی جد و جہد یکجا ہو جائے تو
بڑے اثرات چھوڑ سکتی ہے۔
5۔ سوشل میڈیا پر متحرک کردار ادا کریں۔ خود اس موضوع پر لکھیں۔ اس موضوع
پر لکھنے والوں کا ساتھ دیں۔ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنے والے رجحانات بھی
کئی پہلووں سے موثر ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ٹویٹر پر ٹرینڈ کرنے والے رجحانات
نہ صرف یہ کہ سوچنے سمجھنے والے افراد کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں بلکہ
مظاہرین کی حوصلہ افزائی کرتےہیں اور انہیں نفسیاتی کمک فراہم کرتے ہیں۔ ہم
بڑے پیمارے پر اپنے جاننے والوں کو سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر متحرک ہونے
کی دعوت دیں۔ مختلف ہیش ٹیگ شروع کریں۔ انہیں ٹرینڈ نگ تک پہونچانے کی کوشش
کریں۔ قریبی دنوں میں دنیا کے کئی ممالک حتیٰ کہ خلیجی ممالک میں بھی اس
طرح کے کئی کامیاب تجربات ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ ہونے والے ہیش
ٹیگس نے لوگوں کو متوجہ کیا ہے اور اس کی وجہ سے اس قانون کے مختلف پہلووں
سے لوگوں کو با خبر کرنے کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔
6۔ جو لوگ سوشل میڈیا پر کام کرنے کے خواہش مند ہوں اور اس کے لیے تربیت
اور رہنمائی کے خواہش مند ہوں انہیں سوشل میڈیا کے موثر استعمال کی تربیت
دی جائے۔ نئے افراد کی تربیت کے نتیجہ میں جاری جد و جہد کو طاقت پہونچانے
میں بڑی مدد ملی ہے۔ اس کام میں عام افراد کے ساتھ ساتھ طلبہ اور خواتین کا
بہت ہی موثر کردار ہو سکتا ہے۔ کوشش کی جائے کہ ہندوستانیوں کا ایک بہت بڑا
حصہ کسی نہ کسی شکل میں سی اے اے کے خلاف جد و جہد کا حصہ بنے۔ مقامی سطح
پر کام کرنے والی مختلف انجمنوں اور تنظیموں کا کردار اس سلسلے میں بہت اہم
ہے۔ ان تمام کو ساتھ لے کر کام کیا جا سکتا ہے۔ سی اے اے کے خلاف رابطۂ
عامہ کی کوششوں کے حیر ت انگیز نتائج سامنے آئے ہیں۔ لوگ ساتھ دینے کے لیے
تیار ہیں۔ ان کی بھر پور رہنمائی کی ضرورت ہے۔
7۔ ہم سے یہ بھی مطلوب ہے کہ اپنی جدو جہد میں بلا تفریقِ مذہب و ملت و
علاقہ، ملک کے تمام شہریوں کو شامل کریں۔ بیرونِ ملک مقیم افراد کی نظر کئی
معاملات میں وسیع ہوتی ہے۔ یہ ایک مثبت امر ہے جس سے ہمیں فائدہ اٹھانا
چاہیے اور اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہر مذہب اور علاقے کے لوگ اس کالے
قانو ن کے خلاف جدو جہد کا حصہ بنیں۔ دیگر اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے
افراد پر ہم خصوصی توجہ دیں۔ اس بات کی کوشش کی جائے کہ اسے فرقہ وارانہ
رنگ دینے والوں کی کوشش کامیاب نہ ہو۔ یہ ایک ملکی مسئلہ ہے اور لوگوں کے
سامنے اسی تناظر میں ہم اس مسئلہ کو رکھیں۔
8. اوپر بیان کیے گئے کام صرف ایک ، دو ون کی مہم سے نہیں انجام دیے جا
سکتے ۔ ہم یہ طئے کریں کہ روزانہ اس کے لیے کچھ وقت فارغ کریں گے۔ اپنا
مطلوبہ کر دار ادا کریں گے۔ جب تک یہ قانون رد نہیں ہوتا تب تک اس جد و جہد
کا ہم حصہ بنے رہیں گے۔ اس کے لیے ہمارے بعض روٹینی کام متاثر ہو رہے ہوں
تب بھی ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ ہندوستان میں ہمارے جو بھائی ، بہن اس جد و
جہد کا حصہ ہیں یقیناً ان کے ساتھ بھی کچھ مصروفیات ہوں گی لیکن انہوں نے
میدان میں رہ کر جد و جہد کرنے کو ترجیح دی ہے۔ ان سے ہمیں حوصلہ لینا
چاہیے۔ یاد رکھیں: جب بقا اور وجود کی لڑائی لڑی جا رہی ہو اس وقت دوسری
بہت سی چیزیں ثانوی ہو جاتی ہیں۔ ** **
مختصر تعارف
اشتیاق عالم فلاحی
وطن رانچی جھارکھنڈ، مقیم قطر
فضیلت :جامعۃ الفلاح بلریاگنج اعظم گڑھ 1999
ایم اے ٹرانسلیشن (گولڈ میڈلسٹ)، مانو حیدرآباد ،
اردو و عربی میں مضامین و مقالات لکھتے ہیں. عربی و انگریزی سے کئی کتابوں
کا اردو میں ترجمہ کیا ہے
|