مفاہمتی حکومت!عوام کو کیا ملے گا؟

تادم تحریر(بیس اپریل) تین سال اور بیس دن پہلے قائم ہونے والی حکومت ایک بار پھر سیاسی مشکلات کا شکار ہے ، یہ مشکلات اس قدر شدید ہیں کہ پیپلز پارٹی کے تمام اصول، منشور اور ازم تہس نہس کر رہی ہیں۔ اگرچہ یہ سلسلہ روز اول ہی سے جاری ہے اور اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے حکومت کو اپنے اتحادیوں کے ہاتھوں بلیک میلنگ اور ہر لمحہ بڑھتے مطالبات کا سامنا رہا ہے لیکن وفاقی کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے معاملات اس قدر گھمبیر رہے ہیں کہ آج پیپلز پارٹی کے پاؤں کی بیڑیاں بن چکے ہیں۔دو ہزار آٹھ کے عام انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالنے والی اس جماعت کا ستارہ تو اسی وقت گردش میں آگیا تھا جب معاہدوں کے مطابق ایک کے بعد ایک وزیر کابینہ کا حصہ بننے کا سلسلہ شروع ہوا ،شروع میں تو نئی نویلی دلہن کی طرح پیپلز پارٹی کو اس امر کے نتائج کا احساس ہی نہیں تھا تاہم جیسے جیسے وقت گزرتا گیا حکمران جماعت پر یہ اسرار کھلتا گیا کہ وہ ”اپنوں“ ہی کے ہاتھوں کھودے گڑھے میں گرتی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود پارٹی قیادت نے ”مزاحمت“ کا کوئی راستہ اپنایا اور نہ ہی بچاؤ کی کوئی تدبر۔نتیجہ ستر سے بھی زیادہ رکنی کابینہ کی صورت میں سامنے آیا اور معاشی بحرانوں سے دوچار ملک کی ”عوامی “ حکومت شہ خرچیوں کے سبب شدید تنقید کی زد میں آگئی۔

پانی جب سر سے گزرا تو جہازی سائز کابینہ میں کمی کا شور سنائی دینے لگا۔”وسیع تر“ عوامی مفاد کا ڈھنڈورا پٹا تو نہ چاہتے ہوئے بھی منتری منڈل کو سکیڑ دیا گیا ۔ توقع تو یہی تھی کہ یہ حکومتی اقدام پیپلز پارٹی کی رہی سہی ساکھ کی بحالی کے ساتھ ساتھ ملکی خزانے پر بوجھ میں بھی کمی آئے گی لیکن ایک بار پھر کابینہ میں توسیع پرانے اتحادیوں کے بعد ماضی کے بد ترین حکومتی مخالفین کی شمولیت کی خبروں نے جہاں متذکرہ امیدوں کو ہوا کر دیا ہے وہیں اصولوں کی سیاست کا نعرہ لگانے والی سیاسی جماعتوں کی کے دعوؤں کی قلعی بھی کھول دی ہے۔پاکستان کے ایوانوں میں وفاقی کابینہ میں ممکنہ توسیع کے معاملے پر ایک مرتبہ پھر سیاسی ہلچل پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہے جبکہ اس پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا یہ بیان کہ ملکی سیاست لمحہ بہ لمحہ بدل رہی ہے اور متحدہ قومی موومنٹ ، جمعیت علماءاسلام (ف) اور پاکستان مسلم لیگ ق کی وفاقی کابینہ میں شمولیت خارج از امکان نہیں، جہاں مزید سنسنی پیدا کر رہا ہے وہیں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملکر حکومت بنانے والی پیپلز پارٹی کے لئے ایک نیا ریکارڈ قائم کرنے میں بھی مدد گار بنتا دکھائی دے رہا ہے۔

پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت ق لیگ کے علاوہ سبھی جماعتوں کو حکومت میں شامل کرنے کا”اعزاز“ حاصل کرچکی ہے۔ اپنے قیام کے چند ماہ بعد پیپلز پارٹی نے تین نومبر دو ہزار آٹھ کو وفاقی کابینہ میں توسیع کی اور 22 وفاقی وزراءا ور 18 وزرائے مملکت نے صدر آصف علی زرداری کے ہاتھوں حلف اٹھایا جس کے بعد کابینہ کے ارکان کی تعداد 57 ہو گئی۔اس بار وفاقی کابینہ میں مسلم لیگ فنکشنل کو بھی نمائندگی دی گئی جبکہ اے این پی اور فاٹا کی نمائندگی میں اضافہ کردیا گیا۔مسلم لیگ فنکشنل کی نمائندگی سے اے این پی کے بعد مسلم لیگ فنکشنل کی صورت میں پیپلزپارٹی کو ایک اور مستقبل اتحادی مل گیا۔26 جنوری دو ہزار نو کو متحدہ قومی موومنٹ نے وفاقی کابینہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ایم کیوایم اور جے یو آئی ف کے دو ، دو وزراء سے صدر زرداری نے حلف لیا۔ اس طرح وفاقی وزراء کی تعداد 41 ہوگئی جبکہ وزرائے مملکت کی تعداد18 اور مشیروں کی تعداد 3 ہو گئی جبکہ کابینہ میں وزراء کی کل تعداد 62 تک جا پہنچی۔ اس طرح پیپلزپارٹی کی مرکزی حکومت میں اے این پی ، فاٹا ، مسلم لیگ (فنکشنل ) ، بی این پی ( عوامی) اور جے یو آئی کے ساتھ اب ایم کیو ایم بھی شامل ہو گئی۔14 دسمبر دو ہزار دس کو حج کرپشن کیس کے بعد ڈسپلن کی خلاف ورزی پر جمعیت علماء اسلام کے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم خان سواتی اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور حامد سعید کاظمی کو ان کے عہدوں سے برطرف کر دیا گیا جس کے بعد جے یو آئی ف نے احتجاجاً حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔

وفاقی کابینہ کے ہمراہ کس پارٹی نے کتنا عرصہ گزارا اگر اس بات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وفاقی کابینہ کے ساتھ سب سے کم سفر مسلم لیگ ن کا رہا جو صرف 43 دن پر محیط تھا۔ اس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ ایک سال گیارہ ماہ اور ایک دن تک کابینہ کا حصہ رہی جبکہ جے یو آئی ف نے الگ ہونے والی جماعتو ں میں سب سے زیادہ دو سال آٹھ ماہ اور 14 دن وفاق کے ہمراہ گزارے۔اگر اس بار حکمران جماعت پیپلزپارٹی قومی اسمبلی میں تیسری بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ( ق) کو وفاقی کابینہ میں شامل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ اس کی بہت بڑی کامیابی تصور ہوگی کیونکہ اب تک یہ واحد بڑی جماعت ہے جو ابھی تک وفاقی کابینہ میں شامل نہیں ہوئی۔ اس کے برخلاف مسلم لیگ( ن) سمیت ، متحدہ قومی موومنٹ ، جمعیت علماءاسلام (ف) ، عوامی نیشنل پارٹی ، مسلم لیگ فنکشنل ،بی این پی (عوامی) اور فاٹا کی نمائندگی، وفاقی کابینہ کو حاصل رہی ہے۔موجودہ حکومت کی پہلی24 رکنی کابینہ سے 31 مارچ 2008 کو سابق صدر پرویز مشرف نے حلف لیا تھا۔ 19 اپریل 2011 تک اس کی عمر تقریباً 3 سال اور19 دن بنتی ہے۔ اس عرصے میں شروع سے لیکر اب تک صرف عوامی نیشنل پارٹی واحد بڑی جماعت ہے جو پیپلزپارٹی کا ساتھ نبھاتی رہی جبکہ مسلم لیگ ن ، جمعیت علماءاسلام (ف) اور متحدہ قومی موومنٹ اس کا ساتھ چھوڑ چکی ہیں۔

27 دسمبر 2010 کو متحدہ قومی موومنٹ بھی اس وقت کے وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے ایک بیان جس میں انہوں نے کراچی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث بعض شر پسندوں کا تعلق ایم کیو ایم سے قرار دیا تھا ، اس پر احتجاجاً وفاقی کابینہ سے الگ ہو گئی۔9فروری دو ہزار گیارہ کو پیپلزپارٹی کی قیادت کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے تقریبا ً اسی ممبران پر مشتمل جہازی کابینہ مستعفی ہو گئی۔کابینہ کو تحلیل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اس کا حجم کم کر کے اٹھارویں ترمیم کے مطابق کیا جائے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما قمر الزمان قائرہ کے مطابق قومی اسمبلی کے کل 442 ارکان ہیں اور آئین کے تحت ان کا 11 فیصد نکالیں تو یہ تعداد 49 بنتی ہے۔11 فروری کو 22 ارکان پر مشتمل نئی کابینہ سے صدر آصف علی زرداری نے حلف لیا جس میں 21 وفاقی وزیر اور ایک وزیر مملکت شامل تھا۔ نئی کابینہ میں عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ فنکشنل کو بھی ایک ، ایک وزارت دے کر شامل کیا گیا۔قمر الزمان قائرہ کے اس بیان کی روشنی میں ابھی بھی وفاقی کابینہ میں مزید 27 اراکین کی گنجائش موجود ہے اور اس میں متحدہ قومی موومنٹ ، جے یو آئی ف کو دوبارہ شامل کرنے کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم ،مسلم لیگ (ق) کی آمد کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دے رہے جبکہ دوسری جانب قاف لیگی قیادت بھی حکومت کو چار نکاتی فارمولہ پیش کر چکی ہے اور اگر اس فارمولے پر اتفاق ہوجاتا ہے توپیپلز پارٹی کو تو سب کو ساتھ ملانے کا اعزاز حاصل ہوجائے گا لیکن مفاہمتی حکومت کے نام سے بننے والا نیا سیاسی اتحاد عوام کے لئے کس حد تک سود مند ثابت ہوگا؟اس کا جواب اپنے مفادات کے لئے اصولوں کی قربانی دینے والے دے سکتے ہیں یا پھر آنے والا وقت!
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 58415 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.