چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق
پرویز کیانی نے ضلع ڈیرہ بگٹی کی تحصیل سوئی سے دو ماہ میں فوج کو واپس
بلانے کا تاریخی اعلان کیا ہے جس سے صوبے کے حالات پر دورس اثرات مرتب ہوں
گے ۔گوادر میں گورنمنٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی افتتاحی تقریب سے خطاب
کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئندہ صوبے میں فوج کا کوئی سپاہی بھی کسی
آپریشن میں حصہ نہیں لے گا۔ اگر صوبے میں صوبائی حکومت کو امن و امان
برقرار رکھنے کے لئے ضرورت پڑی تو ایف سی وہ ذمہ داری پوری کرے گی۔ انہوں
نے کہا کہ صرف اچھا دفاع ہی سب کچھ نہیں بلکہ اندرونی طور پر محفوظ پاکستان
ضروری ہے جس کے لئے اقتصادی و سماجی ترقی سیاسی اتحاد، خوشحالی اور عوام کی
مضبوطی شامل ہے۔ قومی سلامتی میں سب ادارے اور عوام شامل ہوتے ہیں ۔ ملک کا
مضبوط دفاع صرف فوج اکیلے نہیں کرسکتی بلکہ اس کے لے عوام کا مضبوط اور
یکجا ہونا بھی ضروری ہے۔ پاک فوج نیشنل آرمی ہے جس پر ملک بھر کے عوام کا
اعتماد بہتری ہونا چاہئے۔بلوچستان عرصہ دراز سے غیرملکی ایجنسیوں کا تختہ
مشق بنا ہوا ہے۔ غیرملکی ایجنٹ افغانستان کے راستے چند مقامی کرداروں کے
ذریعے صوبے میں دہشت گردی کو ہوا دینے میں مصروف ہیں۔ یہ قوتیں ہرگز نہیں
چاہتیں کہ پاکستان کے اس اہم ترین صوبے میں امن قائم ہو۔ وہ اس خطے کو حقوق
کے چکر میں” آزاد“ کرانے کی ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں۔ اگر غور کیا جائے
تو یہ عناصر بلوچستان میں ایک نام نہاد شورش برپا کر کے پاکستان کی معاشی
اور تجارتی خوشحالی پر چھری پھیرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔وہ صوبے کے
عوام میں احساس محرومی جیسے جذبات پیدا کر کے انہیں وفاق کے خلاف بڑھکا رہے
ہیں۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ بلوچستان
کی اسٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے یہاں نو ممالک کی خفیہ ایجنسیاں منفی سرگرمیوں
میں ملوث پائی گئی ہیں ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بلوچستان کے وہ لوگ جو
وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اقتدار کے مزے لوٹ چکے ہیں اور متعدد مرتبہ
بلوچی عوام کے لئے مختص خطیر رقوم کو ہضم کرچکے ہیں، ان ریشہ دوانیوں میں
مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔صوبہ بلوچستان میں حقوق کے نام سے شروع کی جانے
والی تخریب کاری میں شدت اس وقت دیکھی گئی جب ایک معاہدے کے تحت چین نے
گوادر کے ساحل پر بندرگاہ کی تعمیر کا آغاز کیا۔ قدرتی گہرے سمندر کے ساحل
پر بندرگاہ کی تعمیریوں تو عالمی طاقتوں کے لئے ناقابل قبول تھی مگر بھارت
نے اس کی تعمیر کو رکوانے کے لئے فوری طور پر ریشہ دوانیوں کا لا متناہی
سلسلہ شروع کردیا۔حتیٰ کہ مئی2008ءکو بھارتی پارلیمنٹ میں ایک قرارداد پاس
کی گئی جس میں گوادر کو بھارت کی سلامتی کیلئے خطرناک قرار دیتے ہوئے اس کے
تدارک کا فیصلہ کیا گیا۔یہ تدارک مختلف طرح کے حملوں کی صورت میں تھا۔ مثلاً
بلوچستان میں مسلح مداخلت آباد کاروں کا قتل‘ علیحدگی پسندوں کی طرف سے اہم
سرکاری و دفاعی تنصیبات پر حملے‘ صوبہ سرحد و قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں
کی عسکری و مالی مدد اور پاکستان کے طول و عرض میں دھماکوں‘ خودکش حملوں کو
فروغ دیا گیا۔ اسی طرح امریکہ کی بھی خواہش تھی کہ چین کی معاشی و دفاعی
’لائف لائن“ گوادر تک دراز نہ ہوسکے۔ذیل میں بلوچستان کی ان خوبیوں کا ذکر
کیا جارہا ہے جن کی بدولت پاکستان کا یہ صوبہ عالمی سازشوں کا مرکز بن چکا
ہے۔ بلوچستان کو اس کے محل وقوع، گوادر پورٹ کو مستقبل میں تجارتی سرگرمیوں
کے بڑے مرکز ہونے، ایران گیس لائن منصوبے اور وہاں موجود معدنیات اور قدرتی
وسائل کے خزانوں کی بدولت ایک خاص اسٹریٹجک مقام حاصل ہے اور مستقبل میں
پاکستان کی ترقی اور خوشحالی گوادر پورٹ کے راستے یہاں ہونے والی معاشی و
تجارتی سرگرمیوں سے وابستہ ہوگی۔ بلوچستان کے محل وقوع کی ایک اور اہم بات
یہ ہے کہ اس کی سرحدیں پاکستان کے باقی تمام صوبوں سے بھی ملتی ہیں جبکہ
بین الاقومی لحاظ سے مغرب میں اس کی سرحد ایران سے خلیج فارس کے عین سامنے
اور شمال میں اس کی سرحد جنوبی افغانستان سے ملتی ہے۔ اگر قدرتی وسائل اور
معدنیات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو صوبہ بلوچستان پاکستان کا سب سے امیر
ترین صوبہ ہے۔ یہاں گیس ، لوہے، سونے، کاپر اور کوئلے کے بہت بڑے ذخائر
موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے مختلف قسم کی رکاوٹوں اور وجوہات کی بدولت ان تک
مکمل رسائی ممکن نہیں ہورہی۔ان رکاوٹوں میں غیرملکی ایجنسیوں کی تخریب کاری،
عدم تحفظ اور غیریقینی صورتحال قابل ذکر ہیں۔ پاکستان کی زیادہ تر ساحلی
پٹی بھی بلوچستان میں ہے جس کی سمندر کے ساتھ گہرائی ایک ہزار میٹر سے تین
ہزار میٹر تک ہے اور اس طرح یہ نہ صرف بڑے تجارتی بحری جہازوں بلکہ ہنگامی
حالات میں پاک بحریہ کے جہازوں کی نقل و حمل کے لئے بھی سود مند ہے۔ اس طرح
دفاعی لحاظ سے بھی اس کی اہمیت کسی طور کم نہیں۔ گوادر پورٹ کی تعمیر کے
بارے میں پاک چین اشتراک دنیا بھر کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے ۔ اس میں کوئی
شک نہیں کہ گوادر پورٹ کی تعمیر میں چین نے بھرپور تعاون کیا ہے اور اس کا
فائدہ بھی دونوں ممالک کو پہنچے گا۔چین کی بڑی تجارتی سرگرمیاں اس کی مشرقی
ساحلی پٹی کے ساتھ ہورہی ہیں۔ صوبہ سنکیانگ جس کی سرحدیں پاکستان اور وسط
ایشیائی ریاستوں سے ملتی ہیں،اس کے داراحکومت ارومکی میں چین نے قزاقستان
سے تیل کی پائپ لائن بچھانے کے ساتھ ساتھ وہاں نیشنل آئل ریفائنری لگائی
ہے۔گزشتہ پندرہ سال یہاں کی تجارتی سرگرمیوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
چونکہ اورمکی چین کی مشرقی بندرگاہوں اور گوادر سے تقریباً یکساں فاصلے پر
واقع ہے۔ تاہم چین کی یہ مشرقی بندرگاہیں چونکہ بحر الکاہل کے ذریعے براہ
راست امریکہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک تک رسائی حاصل کرتی ہیں لیکن
یہاں سے چینی جہازوں کو خلیج عدن تک پہنچنے کے لئے بحر ہند کے ساتھ ساتھ
اسٹریٹس آف ملاکہ کے راستے جانا پڑتا ہے۔ جہاں پہنچنے کے لئے انہیں تقریبا
پانچ ہزار میل کا طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ مگر گوادر سے خلیج عدن صرف
گیارہ سو میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس طرح مستقبل میں چین کی تجارت اس کے
مغربی حصے میں ہوگی اور وہاں سے گوادر کے ذریعے اس کے سامان کی ترسیل ہوگی۔
وسط ایشیائی ممالک بھی گوادر کے راستے کا بھرپور فائدہ اٹھا سکیں گے۔
بلوچستان میں ایکوڈیک ضلع چاغی کا پسماندہ ترین علاقہ ہے۔ ایک سروے کے
مطابق سونے کے بڑے ذخائر یہاں موجود ہیں۔
صوبہ بلوچستان کی اسی اہمیت کے پیش نظر عالمی طاقتیں یہاں بغاوت کو ہوا دے
رہے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین پر قائم بھارتی قونصل خانے بلوچستان میں اس
قدر مصروف عمل ہیں کہ مقامی سویلین انتظامیہ ان پر قابو پانے میں ناکام نظر
آتی ہے۔ صرف فرنٹیر کانسٹیبلری اپنے فرائض بڑی مستعدی سے انجام دے رہی ہے۔
اس کے افسروں اور جوانوں کو بیک وقت دو محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے۔اس کے
جوان ایک طرف بارڈر پر دراندازی کو روکنے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف شہری
علاقوں میں امن عامہ قائم کرنے کی تگ و دو کررہے ہیں۔ ایف سی جس انداز سے
دشمن کی مکروہ سرگرمیوں کا مقابلہ کررہی ہے، وطن عزیز کے دشمن اسے اپنے
عزائم کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ خیال کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف
حیلوں بہانوں سے اسے بدنام کرنے کی سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں۔ بہرحال جنرل
کیانی کا فوج کو واپس بیرکوں میں بھیجنے کا اعلان انتہائی مثبت ہے ۔اس طرح
کے اقدامات سے ناراض بلوچوں کا حکومت اور فوج پر اعتماد بڑھے گا۔ غلط
فہمیاں دور ہونگی اور غیرملکی عناصر کی سازشیں دم توڑنا شروع ہوجائیں گی۔
حکومت کو چاہئے کہ وہ ناراض بلوچوں سے مذاکرات کے ساتھ ساتھ ملک بدر
سرداروں کو قومی دھارے میں واپس لائے ۔روٹھے سرداروں کو بھی چاہئے کہ وہ
مان جائیں بصورت دیگر دشمن جس کی نظریں ہمارے وسائل پر جمی ہیں ہمیں دست و
گریبان دیکھ کر اسے ہڑپ کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ |