9/11 کے بعد سال 2001 سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ
میں امریکہ کا اتحادی بنا چلا آ رہا ہے اور ڈو مور کے ساتھ کبھی کبھار
satisfactory کے الفاظ بھی سنائی پڑ جاتے ہیں مگر مطالبہ پھر وہی ڈو مور۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ملک بھارت کا شروع سے مطالبہ رہا ہے کہ پاکستان سے
ہمیں خطرہ ہے اور کچھ لوگ ہمیں مطلوب ہیں اور امریکہ نے بھی ایک پاکستانی
شہری حافظ محمد سعید کے سر کی قیمت مقرر کر رکھی ہے۔ کس قدر مضحکہ خیز بات
ہے کہ بھارت اور امریکہ جس شخص کے خلاف واویلا کر رہے ہیں اس کے خلاف ثبوت
پیش کرنے سے قاصر ہیں بلکہ امریکہ نے تو سر کی قیمت ثبوت فراہم کرنے کے عوض
ہی رکھی ہے۔ شواہد و ثبوت کی عدم دستیابی کے باوجود امریکہ اور بھارت کی
خواہش ہے کہ پاکستان اس شخص کے خلاف کارروائی کرے۔
دوسری طرف خود بھارت میں ایک ثابت شدہ دہشت گرد، قاتل اور جنونی شخص حکمران
ہے جس پر نہ تو کوئی قدغن ہے اور نہ اس کے خلاف کوئی کارروائی۔ یہی بھارتی
حکومت امریکی صدر کی کشمیر کے حل میں ثالثی قبول کرنے کو تیار نہیں اور
امریکی صدر کے ایک بیان کے مطابق وہ بھارت کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے
پوری طرح مطمئن بھی نہیں، بھارت پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جاتی اور نہ
اس پر ڈو مور کا دباؤ ڈالا جاتا ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے پاکستان کو بطور خاص شکنجے میں لانے کے لیے ایف اے ٹی
ایف کا ڈرامہ رچا گیا اور پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کر دیا گیا۔ اب اسی
لسٹ سے نکلنے کے لیے پاکستان سے مطالبات منوائے جاتے ہیں اور نہ ماننے کی
صورت میں بلیک لسٹ میں ڈالنے کی دھمکی الگ دی جاتی ہے۔
بدھ کے روز پاکستانی عدالت نے بین الاقوامی طاقتوں اور بھارتی حکومت کی
خوشنودی کے لئے حافظ محمد سعید پر فرد جرم عائد کر کے انھیں اور ان کے
ساتھی کو دو مقدمات میں مجموعی طور پر 11 سال کی قید سنا دی ہے۔ بھارت میں
اس فیصلے پر خوشی کے شادیانے بجائے گئے کہ جس شخص کو ہم مجرم ثابت نہ کر
سکے پاکستان نے خود اس کو گرفتار کر کے سزا بھی سنا دی۔ اس فیصلے سے بھارت
میں تو عید کا سماں ہے مگر پاکستان اور کشمیر کے عوام کے لیے یہ ایک بڑی
بری خبر ہے۔
اس فیصلے سے ایک دن قبل میڈیا پر پاکستان کے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے
نکلنے کے روشن امکانات کا ذکر کیا گیا تھا اور لگتا ہے کہ یہ فیصلہ بین
الاقوامی لابی اور بھارت کو خوش کرنے کی کوششوں کی ایک کڑی ہے۔ قابل غور
بات ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت کچھ کھو دیا اس کے
باوجود اس کے اقدامات کو سراہا نہیں جاتا بلکہ ہر دفعہ ڈومور کی رٹ لگائی
جاتی ہے۔
پاکستان شروع سے ہی باہمی امور کو اتفاق رائے اور بات چیت سے حل کرنے کا
قائل رہا ہے اور گزشتہ برس فروری کے مہینے میں ہی بھارت کی جارحیت کے جواب
میں بھی امن کا ہی مظاہرہ کیا مگر بھارت ٹس سے مس ہونے کا نام نہیں لیتا
اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں عوام الناس کا ناطقہ بند کر رکھا ہے، چھے ماہ
سے زائد کا مسلسل کرفیو، میڈیا لاک ڈاؤن اور مظالم کی بھرمار کشمیری عوام
کا مقدر کر دیے گئے ہیں۔ بھارت میں بھی آئین میں ترمیم کر کے مسلمانوں کے
جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے اور اپنا انتہا پسندانہ چہرہ دنیا کے سامنے کھول
کر رکھ دیا ہے۔ بہرحال اب تو پاکستان امن کوششوں میں انتہائی اقدام کو پہنج
گیا ہے کہ اپنے ہی شہری جن پر بیرونی قوتیں نالاں ہیں پر مقدمات قائم کر کے
سزا کا نفاذ بھی کر دیا ہے۔ اب عالمی قوتوں اور بھارت کی ذمہ داری ہے کہ
مسئلہ کشمیر کو دوطرفہ بات چیت کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کر لیا جائے
وگرنہ پاکستان کے پاس بھی امن کا راگ الاپنے کا اور کوئی آپشن بچتا نظر
نہیں آتا۔ اس صورت حال پر صوفی شاعر بلھے شاہ کی کافی ایک اہم سبق سکھاتی
ہے اگر اس استعارے کو سمجھ کر فیصلہ کر لیا جائے تو بہتر ہو گا۔
چھیتی بوڑھیں وے طبیبانئیں تاں میں مرگئیا
تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا
تیرے عشقے ڈیرا میرے اندر کیتا
بھر کے زہر پیالہ میں تے آپے پیتا
جھبدے آویں وے طبیبا نہیں تے میں مر گئیا
تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا
چھپ گیا سورج باہر رہ گئیا لالی
ہوواں میں صدقے مُڑ جے دیں وکھالی
میں بھل گئیا پیرا تیرے نال نہ گئیا
تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا
تیرے عشق دی سار وے میں نہ جاناں
ایہہ سر آیا اے میرا ہیٹھ وداناں
سٹ پئی عشق دی تاں کوکاں وئیا
تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا
ایس عشق دے کولوں سانوں ہٹک نہ مائے
لاؤ جاندڑے بیڑے موڑ کون لیائے
میری عقل بھلی نال موہانیاں دے گئیا
تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا
ایس عشقے دی جھنگی وچ مور بولیندا
سانوں کعبہ تے قبلہ سوہنا یار دسنیدا
سانوں گھائل کر کے پھیر خبر نہ لئیا
تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا
بُلھا شاہ عنایت دے چل بہیئے بوہے
جس دے عشق پوائے چولے ساوے تے سُوہے
جاں میں ماری ہے اڈی مل پئیا ہے وہیئا
تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا
|