گاندھی جی نے نمک ستیہ گرہ کیا ، یہ ستیہ گرہ نمک پر عائد
کئے جانے والے ٹیکس کی مخالفت میں تھا،اس سے 14سوسال قبل جب نبی کریم ﷺ نے
مکہ مکرمہ میں دعوت اسلام کا آغاز کیا تو انہوں نے کعبہ میں پہنچ کردین کی
دعوت دی اوربدھ پرستی کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اس پر کفار مکہ نے انہیں
دوبارہ کعبہ میں آنے سے منع کیا ، اسکے کچھ عرصے بعد نبی کریم ﷺ نے مکے سے
مدینہ ہجرت کرگئے اورغالباً 3 یا 4 ہجری میں آپ ﷺ مکے کو عمرہ کرنے کے غرض
سے روانہ ہوئے تو کفار مکہ نے آپﷺ کو صحابہ اکرام کے ساتھ مکے میں داخل
ہونے سے روک دیا جس کی وجہ سے کئی دنوں تک آپ ﷺ اور کفارمکہ کے درمیان
تنائو بنارہا اورایک طرح سے احتجاج کا ماحول بن گیا۔ دہلی کا شاہین باغ
ہندوستان کی حکومت کو کھٹکنے والا احتجاجی مقام ہے۔ اس مقام پر جو آواز
اٹھی ہے وہ پورے ہندوستان میں احتجاج کا جھنڈہ لہرانے میں کامیاب ہوئے ہیں
۔ ساتھ ہی ساتھ دہلی حکومت، مرکزی حکومت اورسپریم کورٹ کیلئے بھی شاہین باغ
پریشانیاں پیدا کرنے والا مقام بن چکا ہے۔ ہم نے اس مضمون کی ابتداء میں
گاندھی کی ستیہ گرہ، نبی اکریم ﷺ کا مدینہ سے مکہ رخ کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔
ان دونوں واقعات کو پیش کرنے کا مقصد یہی ہے کہ جب ہم احتجاج کرنے کا اعلان
کرتے ہیں تو جس قوم یا طاقت سے ہمیں اعتراض ہے ان کے سامنے جاکر احتجاج
کرنا پڑتا ہے ، نہ کے اپنے ہی گھر میں رہ کر ہم احتجاج کریں۔ اگر ہم اپنے
ہی گھر میں رہ کر احتجاج کرتے ہیں تو اس سے حکومتوں پر کوئی اثر نہیں پڑیگا۔
دہلی کا شاہین باغ مرکزی حکومت اور سپریم کورٹ کیلئے اس وجہ سے پریشان کن
ثابت ہورہا ہے کہ وہ احتجاج سڑک پر کیا جارہا ہے اور سڑک سرکار کی ملکیت ہے۔
اگر یہی احتجاج جامعہ مسجد کے احاطےمیں کیا جاتا تو اس سے نہ تو مرکزی
حکومت پر کوئی فرق پڑتا نہ ہی سپریم کورٹ تک یہ بات پہنچ جاتی۔ حکومت یہ
کہہ کر خاموش ہوجاتی کہ یہ لوگ تو انکے اپنے علاقے میں احتجاج کررہے ہیں تو
ہمیں کیوں پریشان ہونا پڑیگا۔ ملک بھر میں 300 سے زائد لوگ شاہین باغ کے
نام سے احتجاج کررہے ہیں ۔ ان میں اکثر ایسے علاقے ہیں جو خالص مسلمانوں کی
ملکیت ہے۔ کئی جگہوں پر مسلمانوں کی عیدگاہ پر کئے گئے ہیں۔ ایسے میں حکومت
کوکوئی اثر نہیں پڑیگا، عیدگاہ کا میدان، مسجد کا احاطہ یا کسی شخص کی ذاتی
املاک پر بیٹھ کراحتجاج کرتے ہیں تو اس سے یہی بات سامنے آئےگی کہ یہ انکی
ملکیت ہے وہ وہاں کچھ بھی کرلیں، 10 دن نہیں 10 سال تک بھی احتجاج کرلیں تو
حکومت کو ا س سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ ظاہر سی بات ہے کہ کوئی شخص اپنے
گھرمیں کیسے بھی ناچ لے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ البتہ جب وہ کسی
کے گھر میں چندمنٹوں کیلئے کھڑا ہوجائے تو گھر کا مالک بے چین ہوجاتا ہے
اوروہ گھر کے پاس سے اس شخص کو ہٹانے کیلئے پوری طاقت لگاتا ہے۔ جو لوگ
شاہین باغ کے نام پر مسجدوں کے احاطے میں ، عیدگاہوں کے میدان میں، ذاتی
ملکیت میں احتجاج کررہے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اپنے احتجاج کے رخ کو بدلیں
اورکسی بھی سرکاری پارک، بس اسٹانڈ کا میدان، کھیل کا میدان، تحصیلداردفتر
کا احاطہ، کارپوریشن یا میونسپل دفتر کا احاطہ، ڈپٹی کمشنر دفتر کا احاطہ،
سرکاری زمین یا کالج کے گرائونڈ کو احتجاج کیلئے استعمال کیا جاتا ہے تو اس
سے حکومت گھبرا جاتی ہے اوراحتجاجیوں کو منانے یا انکے مطالبات کو پوراکرنے
کیلئے سوچنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ احتجاج اسطرح کے کام کو کہتے ہیں ، پولیس
کےبنائے ہوئے روڈ میاپ پر چلنا اورپولیس کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرنے
کو احتجاج نہیں کہتے بلکہ اسے چاپلوسی کہا جاتا ہے۔ اکثر لوگ پولیس
اورمدّمقابل آنا ہی نہیں چاہتےبلکہ پولیس وانتظامیہ جیسا کہتی ہے اُسطرح
سے عمل کرتے ہوئےاحتجاج کرنے کی بات کرتے ہیں۔ آج حکومت سے ٹکرانے کی
ضرورت ہے۔ ناکہ حکومت کے ساتھ مل کر حکومت کے طریقوں پر عمل کرنے کی۔ اگر
300 مقامات میں جہاں شاہین باغ کے طرز پر احتجاج ہورہا ہے وہاں پر سرکاری
املاک پر احتجاج کیا جاتا تو آج ہندوستان میں حکومت کی ناک میں دم ہوچکا
ہوتا، لیکن ہم ہندوستانیوں نے اس طریقہ کار کو اپنانے میں کوتاہی برتی ہے
اس طرح سے اب بھی مودی اورامیت شاہ اپنے قدم پیچھے نہ ہٹانے کی بات کررہے
ہیں۔ اگر انکے قدم پیچھے ہٹانا ہے تو ہمارے قدم آگے بڑھانا ہوگا۔
|