بسم اﷲ الرحمن الرحیم
پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات شروع دن سے مضبوط و مستحکم رہے ہیں
۔ مشکل وقت میں برادر اسلامی ملک نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے تو ہماری
طرف سے بھی محبت بھرے جذبات میں کبھی کمی نہیں آئی۔ سرزمین حرمین شریفین کے
دفاع کیلئے پاکستان بھی سعودی عرب کا ساتھ نبھانا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ ایک
طرف دونوں ملکوں میں دوستی،الفت ومحبت اور بھائی چارے کی فضا ہے تو دوسری
جانب بعض قوتوں کی کوشش رہتی ہے کہ کسی طرح دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے
دور اور ان کے باہمی تعلقات کو کمزور کر دیا جائے۔ اس کیلئے بے پناہ سرمایہ
بھی خرچ کیا جاتا رہا ہے اور تاحال کیا جارہا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ہی
ملائشیا میں کوالالمپور کانفرنس ہوئی جس میں وزیراعظم عمران خان نے یہ کہہ
کر جانے سے انکار کیا کہ پاکستان کسی ایسے پلیٹ فارم کا حصہ نہیں بن سکتا
جو امت مسلمہ کی تقسیم کا باعث بنتا ہوتو اس وقت انتہائی غلیظ پروپیگنڈا
کیا گیا کہ پاکستان نے یہ سب کچھ سعودی عرب کے دباؤ میں کیا ہے اور یہ کہ
برادر ملک کی جانب سے یہ دھمکی دی گئی تھی کہ اگر پاکستانی وزیراعظم
کوالالمپور سمٹ میں شریک ہوتے ہیں تو لاکھوں پاکستانیوں کو سعودی عرب سے بے
دخل کر دیا جائے گا ، حالانکہ حقیقت میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ سعودی عرب
کی جانب سے اس موقع پر واضح تردید کی گئی کہ پاکستان اور سعودی عرب کے
تعلقات دھمکیوں سے بالاتر ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ قدم سے قدم ملا
کر کھڑے ہیں لہٰذا س حوالہ سے پھیلائے گئے پروپیگنڈا کی کوئی حیثیت نہیں
ہے۔ ابھی حال ہی میں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے پاکستان کا دورہ کیا تو
ایک بار پھر وہی پروپیگنڈا مشینری حرکت میں آئی اور سوشل میڈیا پر یہ
افواہیں پھیلائی گئیں کہ سعودی عرب نے پاکستانیوں کو بے دخل کرنا شروع کر
دیا ہے اور ایسے شہریوں کو بھی زبردستی گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا جارہا
ہے جن کے کاغذات یعنی قانونی دستاویزات بھی مکمل ہیں۔اگرچہ ماضی کی طرح اس
پروپیگنڈا میں بھی کسی قسم کی کوئی صداقت نہیں تھی لیکن سوشل میڈیا کو
استعمال کرتے ہوئے اس جھوٹے اور بے بنیاد پروپیگنڈے کو بہت زیادہ ہوا دی
گئی اور بے پر کی اڑائی جاتی رہیں۔ فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ گروپوں کے
ذریعہ انتہائی منظم انداز میں یہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ برادر اسلامی ملک
کی حکومت پاکستانی شہریوں کو ہراساں کر رہی اور انہیں گرفتار کر کے جیلوں
میں ڈالا جارہا ہے جس سے سعودی عرب میں رہنے والے پاکستانی شہریوں میں خوف
و ہرا س پیدا ہو گیا ہے اور وہ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔اس دوران
یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ سعودی حکومت پاکستانیوں کو جلاوطن کر رہی ہے لیکن
پاکستانی قونصلیٹ جدہ نے مکہ ریجن میں پاکستانیوں کو گرفتار کر کے شمیسی
جیل بھیجنے کی خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اسے پاکستان اور سعودی عرب
کے تعلقات خراب کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔
پاکستانی قونصلیٹ جدہ نے مکہ ریجن میں پاکستانیوں کی پکڑ دھکڑ سے متعلق
خبروں کے متعلق شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب میں مختلف
قومیتوں کے وہ افراد جو غیر قانونی طور پر یہاں رہائش پذیرہوتے ہیں انہیں
واپس بھجوانے کی مشق سارا سال جاری رہتی ہے اور یہ کسی ایک ملک کے شہریوں
کے حوالہ سے نہیں ہوتی جن کی قانونی دستاویزات مکمل نہیں ہوتیں ان کا تعلق
چاہے کسی بھی ملک سے انہیں واپس بھجوایا جاتا ہے۔یعنی پاکستانی قونصلیٹ کا
واضح طور پر کہنا تھا کہ ان خبروں کو جس طرح سیاسی مقاصد اور پاک سعودی
تعلقات خراب کرنے کیلئے مذموم سازش کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے اس کا
حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ پاکستانی قونصلیٹ نے سوشل میڈیا پر
پھیلائے گئے گمراہ کن پروپیگنڈا کے حوالہ سے تحریری بیان جاری کیا جس میں
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ سعودی حکام سے مسلسل رابطہ میں ہے اور
یہاں تمام ملکوں کے ان لوگوں کے خلاف کاروائی کی جارہی ہے جو اقامہ پر لکھے
گئے پیشہ کی جگہ دوسرے شعبوں میں کام کر رہے اور سعودی عرب کے ملکی قوانین
کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔پاکستانیوں کو خاص طور پر گرفتار کرنے
اور واپس بھجوانے کی خبریں قطعی طور پر درست نہیں ہیں۔ جدہ قونصلیٹ کا یہ
بھی کہنا تھا کہ فیس بک ، ٹویٹر، واٹس ایپ اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع سے
پھیلائی گئی افواہیں یقینی طور پر پاک سعودی تعلقات خراب کرنے کی کوشش ہے
جس کی ہم پرزور مذمت کرتے ہیں۔ ایسی خبروں کی منظم انداز میں تشہیر کر کے
سعودی عرب میں مقیم پاکستانی کمیونٹی میں غیر ضروری اضطراب اور بے یقینی
پھیلائی گئی ہے۔ پاکستانی قونصلیٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر بعض
لوگ اسے گمراہ کن سیاسی زاویے کے طور پرپیش کر رہے ہیں جو کہ پاک سعودی
برادرانہ تعلقات کے مفاد میں نہیں۔ حالیہ دنوں میں یہ بات بھی دیکھنے میں
آئی کہ سوشل میڈیا پر برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے خلاف پروپیگنڈا کیلئے
وہی مخصوص افراد اور اکاؤنٹس نظر آئے جو ماضی میں بھی اس مذموم عمل میں
ملوث رہے ہیں۔ ایک مخصوص لابی کی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا گیا تو میں نے اس
کی تصدیق کیلئے سعودی عرب میں اپنے جاننے والوں سے بھی رابطہ کیا لیکن کسی
ایک نے بھی ان جھوٹی اور بے بنیاد خبروں کی تصدیق نہیں کی بلکہ اس پر حیرت
اور افسوس کا اظہار کیا۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی اپنی ایک تابناک تاریخ ہے اور دونوں
ملکوں کی مضبوط دوستی کی مثالیں دنیا میں پیش کی جاتی ہیں۔ سعودی عرب ان
چند ممالک میں سے ایک ہے جس نے ہمیشہ ہرمسئلہ پر کھل کر پاکستان کے موقف کی
تائید و حمایت کی ہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران برادر ملک نے
پاکستان کی وسیع پیمانے پر مدد کی۔ اپریل 1966ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ
پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقع پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے
اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ فیصل مسجد کے نام سے دنیا
بھر میں جانی جاتی ہے۔ 1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی
تعاون کا معاہدہ ہوا جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی
تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ اپریل 1968ء میں سعودی عرب سے تمام
برطانوی ہوا بازوں اور فنی ماہرین کو رخصت کردیا گیا اور ان کی جگہ
پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک بڑے
شہر لائل پور کا نام انہی کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا جبکہ کراچی کی سب
سے بڑی شاہراہ انہی کے نام پر شاہراہ فیصل کہلاتی ہے۔ شاہ فیصل کے دور
حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب زدگان کی کھل کر مالی امداد کی،
دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے ایک کروڑ ڈالر
کا عطیہ دیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی وطن عزیز سے علیحدگی پر شاہ فیصل
کو بہت رنج ہوا اور انہوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد بھی
بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔شاہ فیصل کی وفات کے بعد بھی سعودی عرب اور
پاکستان کے تعلقات میں کوئی کمزوری نہیں آئی۔ خادم الحرمین الشریفین شاہ
عبداﷲ پاکستان آئے تو پاکستانی عوام نے ان کا بھرپور استقبال کیا جس سے وہ
بہت زیادہ متاثر ہوئے اور کہاکہ ہم پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے
ہیں۔2005ء میں آزاد کشمیر و سرحد کے خوفناک زلزلہ ،2010ء اور اس کے بعد آنے
والے سیلابوں کے دوران بھی مصائب و مشکلات میں مبتلا پاکستانی بھائیوں کی
مدد میں سعودی عرب سب سے آگے رہا او ر روزانہ کی بنیاد پر امدادی طیارے
پاکستان کی سرزمین پر اترتے رہے ۔ حالیہ برسوں میں جب پاکستان بہت زیادہ
مالی مشکلات سے دوچار ہوا تو سعودی عرب کی طرف سے ہماری ملکی معیشت مستحکم
رکھنے کیلئے مختلف اوقات میں پاکستان کو اربوں ڈالرز دیے گئے ، تیل فراہم
کیا گیا اور بڑے پیمانے پر پاکستان میں سرمایہ کاری کے معاہدے کئے گئے۔
برادر اسلامی ملک کا یہی وہ بے لوث تعاون ہے تو پاکستان اور سعودی عرب کی
مخالف قوتوں کو برداشت نہیں ہوتا اور وہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں دراڑیں
ڈالنا چاہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاک سعودی تعلقات کی مخالف ان
قوتوں کی سازشیں ناکام بنانے کیلئے دونوں ملکوں کے عوام کو بھی چاہیے کہ وہ
اس سلسلہ میں کسی قسم کے مذموم پروپیگنڈا کا شکار نہ ہوں۔ خاص طور پر سوشل
میڈیا پر پھیلائے گئے گمراہ کن پروپیگنڈا سے متاثر نہ ہوا جائے۔ پاک سعودی
عرب دوستی ان شاء اﷲ قائم و دائم رہے گی۔
|