بھینس برصغیر کا ایک گھریلو جانور ہے۔پہلے یہ تقریبا ہر
گھر میں زوق و شوق سے پالی جاتی تھی۔
ہمارے بزرگوں نے بھی بھینس پالی تھی جسکو پیار سے "کشور ی"کہتے تھے۔
بھینس بھوری اور کالی دونوں رنگت میں پائی جاتی ہے۔مگر جس رنگ میں بھی
ہوحسین و دلکش لگتی ہے۔
یہ ایک کرشماتی مخلوق ہے سوکھا بھوسا کھاکر سفید و شیریں فرحت بخش دودھ
دیتی ہے۔
اس کے گوبر سے اوپلے بنا کر بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے۔
بھینسوں میں ایک عجیب بھینی بھینی خوشبو رچی بسی ہوتی ہے اس کی چال میں ایک
نغمگی ہے ایک ردھم ہے جو دیکھنے والے پر ایک سحر طاری کردیتی ہے۔یہ جب
ٹولیوں کی شکل میں خراماں خراماں چلتی ہے تو ایسے لگتا ہے جیسے وقت تھم سا
گیا ہو جیسے فضا میں سکوت طاری ہوگیا ہو۔انکی گھنٹیوں کی آواز ایک جلترنگ
بجتی محسوس یوتی ہے۔یہ منظر جس نے دیکھا ہے وہی اس کیفیت کو محسوس کرسکتا
ہے۔
مگر کچھ عرصے سےاس معصوم و بے ضرر شے کو شہروں میں گھر کے اندر رکھنے پر
پابندی لگادی گئی ہے۔
اب کبھی پنجاب جانا ہو تو تمام تر ترقی اور گہما گہمی کے باوجود کسی کے عدم
وجود کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ایک عجیب سی بے کلی دل و دماغ پر چھا جاتی ہے
۔بغیر بھینسوں کے سڑکیں سونی سونی سی لگتی ہیں فضا میں کسی انجانی خوشبو کی
کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔
مثل مشہور ہے کہ بھینس کے آگے بین بجانا !
بھیینس اپنے حسن و جمال پر قدرے غرور رکھتی ہے ہمہ وقت ایک گونہ بیخودی کی
کیفیت سے سرشار رہتی ہے۔آپ اس کے سامنے کتنا ہی واویلا کرلیں اس کے کانوں
پر جوں بھی نہیں رینگتی۔اپنی دھن میں مست رہتی ہے۔سست روی اس کا طرہ امتیاز
ہے۔
آپ نے اگر بھینس نہیں دیکھی تو اپنی حکومت کو دیکھ لیں اسمیں بھینسوں کی
بہت سی خصوصیات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ۔
عوام جتنا مرضی شور مچا لیں اس کے کانوں پر بھی جوں نہیں رینگتی ۔
دو سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھی سست روی کا شکار ہے۔عوام کی چیخ و پکار
میڈیا کا شور کچھ سنائی نہیں دے رہا۔مہنگائی آسمان کو چھو رہی ھے ۔
یہ عوام کو چھ ماہ میں عظیم ریاست بننے کا خواب دکھا رہے ہیں ۔
بھینس لات مارتی ہےمگر دودھ بھی دیتی ہے ۔بھینسے کا کام صرف ٹکر مارنا ہوتا
ہے۔اور ہماری حکومت فی الحال بدمست بھینسا ہی بنی ہوئی ہے۔
بہرحال کچھ بھی ہو خان صاحب کی بھینسوں سے محبت مسلمہ ہے انکے رومینٹک مزاج
کو مدنطر رکھتے ہوئے پہلے ہی احتیاطی طور پر عمر رسیدہ بھینسوں کو پرائم
منسٹر ھاوس سے نکال باہر کیا گیا تھا۔جس کا انکو ہر دم ملال رہتا ہے۔
اب انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ گھر گھر بھینسیں تقسیم کی جائیں تاکہ انکو
دیکھ کر عوام اپنے محبوب لیڈر کی مجبوریوں اور محرومیوں کو سمجھ سکیں اور
قوم کیلئے ابکی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھیں ۔
ہمارا مطالبہ یے کہ بھینس کو قومی نشان قرار دیا جائے ۔
گھروں میں بھینس رکھنے کی آزادی دی جائے ۔
یہ اقدام رومانوی و جذباتی احساسات کے حامل افراد کیلئے باعث راحت و سکون
ہوگا۔
(محمد منورسعید)
|