موسمِ بہار کے متعلق کچھ منتشر خیالات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہار کی آمد۔۔۔ امید کا استعارہ ہے ۔ ۔ زرد مٹی سے اٹے خشک کھیل کے میدان
موسم ِ سرما کی آخری بارش کے بعد چمک رہے ہیں۔اور اس پر اُگتی گھنے سبز رنگ
کی گھاس کتنی بھلی لگتی ہیں نا؟ اور میدان کے گردجھڑے درختوں کی خشک ٹہنیوں
پر امید کی کونپلیں اور اُن پر ٹھہرے شبنم کے قطرے۔
ارے کل ہی تو جھڑے تھے یہ درخت۔
اونچی پگڈنڈیوں میں گھِرے سرسوں کے سنہری پھول ۔۔سانس کھنچتی ہے جب ان کے
عقب میں ڈھلتا سورج دِکھے۔گویا روح بھی ان کے ساتھ جھوم رہی ہے۔
مالی بابا پودوں کی تراش خراش کرنے اور نئے پودے لگانے میں مصرو ف ہو جاتا
ہے۔خزاں کی بے رحم آندھیوں سے بے گھر ہوئے پرندے خشک گھاس اور ٹہنیاں اکٹھی
کرتے پھرتےہیں اور گھروں کے روشندانوں میں گھونسلے تعیر کرتے ہیں۔شاید اسی
وجہ سے اس موسم میں ہم پرندوں کو قریب سے دیکھ پاتے ہیں۔۔۔ بہار امید کا
استعارہ ہے!
محسوس کیجیے کہ شام کا وقت ہے اور قریب سے معصوم پرندوں کی چہچہانے کی
آوازمسلسل آ رہی ہے گویا وہ کسی کے انتظار میں ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے
چڑیا ماں کے پروں کی پھڑپھڑانے کی آواز آتی ہے اور اچانک خاموشی چھا جاتی
ہے۔وہ اُن کے لیے دانا لاتی ہے۔وہ ایک دوسرے سے چھین چھپٹ کر کھاتے ہیں
۔پھر وہ ماں کے پروں تلے دُبکے کتنی گہری نیند سوجاتے ہوں گے۔
جب فراق اپنے عروج پر ہو تو پھر وصال کا موسم آتا ہے۔چراغ بجھ چکے ہیں ۔کب
سے بالکونی پہ کھڑا انتظار کرتا وہ نوجوان۔ دروازے پر دستک سنتا ہے اوردوڑے
ہوئے جاتا ۔ باغ میں لگے پھول ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دیکھتے ہیں۔دروازہ
کھولتا ہے اور نم آنکھوں سے اُسے دیکھتے ہی لمبے لمبے سانس لینے لگتا ہے۔وہ
بہار کے جھونکے کے انتظار میں بے چین تھا۔ پھر وہ کسی گہرے شاعر کی کتاب
تھامتا ہے اور گھنے درخت کے سائے میں جا بیٹھتا ہے۔اور ایک اک جھونکے سے
ہمکلام ہوتا ہے۔ تتلیوں اور پھول کی گفتگو سنتا ہے اور پھر شرما کر تتلی کو
اڑتا دیکھ کر بے ساختہ مسکرا تا ہے۔ چمبیلی کے پھولوں کا ہار بناتا ہے۔ نہ
جانے کس کے لیئے۔لیکن اُسے اس لمحے کے کھو جانے کا ڈر کھائے جا رہا ہے۔ پھر
سال بھر کا فراق آئے گا۔۔۔ انسانوں کے بھی اپنی ہی خوشیاں، اپنے ہی غم ہیں
! خیر ۔۔۔ بہار محسوس کرنے والوں کو بہار مبارک! <3
اسی ضمن میں گزرشتہ سال لکھی نظم ملاحضہ ہو:
فروری کی چہچہاتی صُبحیں
اور خوشبودار شامیں۔۔۔
زندگی کی الجھنوں سے بیزار کر کہ
بے خطر سا کر کہ مجھ کو
جُھکے درخت کے ساۓ میں
لا بٹھا دیتی ہیں مجھ کو
اک کتاب تھما دیتی ہیں مجھ کو
صبح کی ٹھنڈک چھاؤں سے لے کر
شام کو ڈھلتے ساۓ تک
دم سادھ کے بیٹھا رہتا ہوں ۔۔۔
روز اک پرندہ آتا ہے
پھولوں کے دامن سے شاید
محبت چُن لے جاتا ہے
جھیل کے اُس پار سے
روز اک جھونکا آتا ہے
پانی میں لہریں بناتا ہوا
جھیل کے اِس پار آتا ہے
کنول کے نازک پھولوں سے
خوشبو چرا لیتا ہے
اور روز میری کتاب میں
اک پھول گِرا دیتا ہے
اُس پھول کا نام محبت ہے
ڈھلتے سورج کی ترچھی کرنیں
جھیل کی خاموشی میں
رنگ بھرتی ہیں ۔
اُسے رنگِ محبت کہتے ہیں ۔
اندھیرے کی گہرائیوں میں
ڈوبتے مشرق کے افق پر
اک تارہ چمکنے لگتا ہے ۔
مینڈک بولنے لگتا ہے
چڑیا ماں بھی گھر لوٹ آتی ہے ۔
وہ گھر محبت کہلاتا ہے
فروری کی چہچہاتی صُبحیں
اور خوشبودار شامیں ۔
مجھے محبت لوٹا دیتی ہیں
|