بھٹو کی قبر پر دو آوازیں

گزشتہ دنوں سندھ کی سیاست میں لاڑکانہ اور کراچی مرکز نگاہ رہا۔4اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی32ویں برسی کے حوالے سے خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا گیا سب سے بڑی تقریب ان کے مزار پر ہوئی جہاں صدر، وزیراعظم سمیت پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں،کارکنوں اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی ملک بھر سے لوگ ٹولیوں کی شکل میں نوڈیرو پہنچے سندھ حکومت نے حسب روایت خصوصی اہتمام کیا ہوا تھا جبکہ برسی کے موقع پر بھٹو لنگر بھی شرکا،میں تقسیم کیا گیا اس موقع پر جہاں ایک طرف پیپلز پارٹی نے اپنی قوت کا اظہار کیا تو دوسری جانب پی پی پی غنویٰ گروپ کی طرف سے بھی’ نمبر گیم‘ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ نوڈیرو کے جلسہ سے خطاب کے دوران صدر آصف علی زرداری نے اس خدشہ کا پہلی بار اظہار کیا کہ اسلام آباد میں ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔بھٹو کیس کا ریفرنس نہ بھیجتا تو خیانت ہوتی میں نے بدلے کی بات نہیں کی کسی ادارے کے چہرے پر دھبہ ہے تو خود مٹائے۔صدر مملکت جو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بھی ہیں بخوبی جانتے ہیں کہ جیالوں کے دل ایسے موقوں پر کےسے جیتے جا سکتے ہیں ایسی صورتحال میں جب ملک بھر میں ان کی حکومت کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں وہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتے تقریب میں پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی شریک تھے اور انہوں نے اپنے والد کے ساتھ ملکر نانا اور والدہ کی قبر پر گل پاشی اور فاتحہ خوانی بھی کی۔ایک جانب جہاں یہ تقریب ہورہی تھی تو دوسری جانب گڑھی خدا بخش میں غنویٰ بھٹو جوش خطابت میں کہہ رہی تھیں کہ ہمیں کرپشن اور بدعنوانی والا زرداری کا پاکستان نہیں چاہیے۔طاقت اور اقتدار عوام کا حق ہے جو عوام کو ملنا چاہیے امریکی سامراج نے بھٹو کو راستے سے ہٹایا گویا بھٹو کی قبر پر ایک آواز اگر دوبارہ عدالتی کاروائی کے حق میں اٹھ رہی تھی تو دوسری آواز یہ کہہ رہی تھی کہ یہ سب کچھ امریکی ایما پر ہوا۔عوام بخوبی جانتے ہیں کہ دونوں پارٹیوں کے مابین مفاہمت ہوتی نظر نہیں آرہی اور دونوں بھٹو کے نام پر سیاست کر رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ بھٹو کے نام پر سیاست کرنے والے عوام کو کیا دے رہے ہیں 4اپریل کی سندھ بھر میں چھٹی سے عوام کے پیٹ نہیں بھرتے اور نہ ہی صدر زرداری کی جانب سے10کاشت کاروں کو دیئے جانے والے بے نظیر زرعی کارڈ دینے سے کوئی زرعی انقلاب برپا ہوگا۔یہ محض ڈھکوسلے والے اقدامات ہیں جس سے عوام کو حقیقی معنوں میں کوئی ریلیف نہیں ملتا ہے۔بھٹو کی برسی کی تقریب کے حوالے سے ایک اور اہم پہلو بی بی شہید بھٹو کے کارکنوں کی جانب سے زرداری اور آغا سراج درانی کے پوسٹر پھاڑنے کا عمل تھا۔جبکہ صوبائی وزیر تعلیم مظہرالحق کی بھٹو کے مزار پر آمد پر مخالفین نے نعرے بازی شروع کردی اور انہیں مجبوراً فاتحہ پڑھے بغیر ہی واپس جانا پڑا۔ادھر زرداری کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے کے نعرے بھی لگے اور زندہ ہے بھٹو زندہ ہے کے شور میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔ادھر ذوالفقار علی بھٹو کیس کے ری اوپن کروانے کے حوالے سے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ کو بھیج دیا گیا جس کی باقاعدہ سماعت14اپریل سے شروع ہوگی تاہم کراچی کے ایک وکیل سہیل حمید نے کیس دوبارہ کھولنے کے خلاف ایک آئینی درخواست سندھ ہائی کورٹ میں دائر کردی ہے۔ جس میں انہوں نے مؤقف اپنا یا ہے کہ کیس ری اوپن کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا بے نظیر دور حکومت میں یہ کام نہیں کیا گیا تو اب اس کی ضرورت آخر کیوں پیش آگئی۔لیکن ہمارے ہاں ہر پرانے سانحہ کے دن کے قریب آنے پر متعلقہ افراد جس طرح میڈیا گیم شروع کرتے ہیں وہ ہم سب کے سامنے ہیں بے نظیر کی شہادت27دسمبر کے قریب سعود عزیز اور خرم شہزاد کی گرفتاری وغیرہ کے حوالے سے اہم خبریں آئیں تو گرشتہ دنوں ان دونوں کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا اب اگر 4اپریل کا دن آیا تو بھٹو مقدمے کے کھولنے کی باتیں ہورہی ہیں۔کراچی کا سیاسی منظر نامہ گزشتہ ہفتے بھی ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے گرد گھومتا رہا۔ اور بلاخر سپریم کورٹ میں حاضری کے بعد اسلام آباد میں صدر مملکت کے ساتھ طویل ملاقات کے نتیجے میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے صوبائی وزیر داخلہ وزیر جیل خانہ جات اور وزیر جنگلات کے عہدوں سے علیحدگی اختیار کرلی اور وہ جلد ہی علاج کے بہانے ملک سے باہر چلے جائیں گے اور جاتے جاتے وہ کہہ گئے ہیں کہ وہ بھاگنے والے ہیں نہ ڈرنے والے۔لیاری کے بچوں کی خاطر سر کٹوا سکتا ہوں جھکا نہیں سکتا اب سفید جھنڈے والے بتائیں کہ کھالوں کے پیسے کہاں جاتے ہیں؟ دریں اثناء کراچی میں بھتہ خوری اور پرچہ پھینکنے کے خلاف شہر میں5اپریل کو مکمل ہڑتال ہوئی تمام کاروباری مراکز حتٰی کہ گلی محلوں میں شیر فروش،دوائیوں اور سبزیوں تک والوں نے اپنی دکانیں بند کر رکھی تھیں جبکہ ایم کیو ایم نے وفاقی حکومت کو 2دن کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ بھتہ خوروں کو جلد گرفتار کرو ورنہ ایم کیو ایم اپنی نئی حکمت عملی پر گامزن ہو جائے گی۔ادھر توہین عدالت کے مرتکب سندھ کے رکن صوبائی اسمبلی شر جیل میمن کو سندھ حکومت نے ترقی دیکر وزیر اطلاعات کا اضافی چارج دیدیا جبکہ وزارت داخلہ کی ذمہ داریاں وزیر اعلیٰ سندھ نبھائیں گے اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کے اندر مرزا کی روح آتی ہے یا وہ اپنی روح کے مطابق کام چلائیں گے۔
Shehzad Iqbal
About the Author: Shehzad Iqbal Read More Articles by Shehzad Iqbal: 65 Articles with 48267 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.