رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے

اداسی ماضی کے پچھتاوا اور پرانی محبتوں کی جدائی کے کوڑے برسا رہی تھی اور خلق خدا ترقی کی راہ میں روڑے اٹکا رہی تھی ۔ خدا کے بے شمار احسانات کے شکر نا ادا کرنے کا بوجھ لیے شرمندہ شرمندہ اور دھیما دھیما بیٹھا ڈھولکی کی تقریب میں بیٹھا ، ناچ گانے میں حصہ نا لینے کا عزم لیے کھانا کی خالی پلیٹ اور زہن کی خالی سلیٹ پر کچھ لکھنے ہی والا تھا کہ ایک پرانے رشتہ کے وجود نے ہاتھ تھام کر ڈانس کے اکھاڑے میں اتار دیا۔

موسیقی ہو ، ڈھول کی تھاپ ہو ، میدان ہو اور زہن میں کسی پرانی کامیاب یا ناکام محبت کا سرور ہو تو میرے قدم روکے نا رکیں اور کسی کے ٹوکے نا رکیں ۔

مجھے تجربہ ہوا کہ سوچ کی زنجیر اور رسم و رواج کی قید کی بیڑیاں پہن کر یا کسی کی محبت میں خوشی سے گرفتاری کی ہتھکڑیاں پہن کر بھی رقص کیا جا سکتا ہے اور زندگی کا مزہ لیا جاسکتا ہے۔

اب میں چارج ہو چکا تھا ۔ جسم ہشاش ، طبیعت بشاش ، کسی کی طرف سے شاباش ، مجھے لمحہ موجود میں رہنے کی طرف گامزن کر رہی تھی جو کرتی رہے ، کاش !

لمحہ موجود میں رہنا بھی اک فن اور طمانیت من ہے ۔ ماضی سے نکل کر مستقبل میں جانے کے لیے فضاے امن ۔

چھنانن چھنن چھنانن چھنن ۔۔۔

اگلا گانا رقص کی دعوت دے رہا ہے اور اپنے آپ کو محویت می داخل کرنے اور دفعِ حپس کی دعوت دے رہا ہے ۔
جی چاہ رہا ہے کہ جو سامنے بیٹھا ہے بیٹھا رہے اور
جو زہن میں بیٹھا ہے وہ مستقل بیٹھا رہے اور اس کی جدائ میں دل بیٹھا رہے ۔
خدا سے رحمت کی امید نے مجھے کھڑا کر دیا اور پھر سے والہانہ رقص پر مجبور کر کے میری مثبت سوچ کو منفی کے مقابلے میں بڑا کر دیا ۔ میرے منتشر خیالات کو سلجھا کر سوچ کے گول دائرے کو موتی جڑا کر دیا۔
یہ آس کے موتی ہیں ، محبت کی پیاس کے موتی ہیں ، جو بجھاے نا بجھے اور لگاے نا لگے ۔
 

Noman Baqi Siddiqi
About the Author: Noman Baqi Siddiqi Read More Articles by Noman Baqi Siddiqi: 255 Articles with 290749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.