سیلفی کا جان لیوا جنون!

ٹیکنالوجی کے آنے سے لوگوں کی زندگیوں میں ایک انقلاپ بپا ہوگیا ہے،مگر کہیں مشکلات میں اضافہ ہوا ہے،ٹیکنالوجی کا غلط استعمال انسانوں پر بُری طرح اثر انداز ہورہا ہے۔

آج کی دُنیا میں سیلفی لینے کا شوق ایک جنون کی شکل اختیار کرگیا ہے، جس میں نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ بچے، بوڑھے سب ہی شامل ہیں۔ تفریحی مقامات ہوں یا بازار، عوامی ونجی تقریبات ہوں یا تعلیمی ادارے، سبھی جگہوں پر لوگ سلیفی لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ لوگوں کے لیے سیلفی لینا یقیناً ایک خوش کن تفریح ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اب یہ شوق ایک جان لیوا عمل بھی بنتا جارہا ہے۔

موبائل سے سیلفی کا شوق جنون کی حد کو بھی تجاوز کر رہا ہے، سیلفی کے شوقین افراد عوامی مقامات پر عجیب و غریب حرکات کرتے ہوئے اپنی اور دوسروں کی سلامَتی کو خطرات میں ڈال دیتے ہیں جس کا نتیجہ اسپتال کا بیڈ یاموت کا بسترہوتا ہے۔

سیلفی (Selfie، یعنی اپنی تصویر خود لینے) کا شوق آج کل عروج پر ہے۔ چند سال پہلے تک سیلفی(Selfie) کالفظ ہی انگلش لغت میں موجود نہیں تھا، 2013ء میں اس لفظ کو نہ صرف ڈِکشنری میں شامل کیا گیا بلکہ اِسے اِس سال کا ”اہم ترین لفظ“بھی قرار دیاگیا،سیلفی بنا کر سوشل میڈیا پر نشر کرکے پسند (Like) اور ناپسند (Dislike) کے تاثرات کا مطالَبہ بھی کیاجاتا ہے۔

ایک بین الاقوامی تحقیقاتی مطالعے میں کیے گئے سروے کے مطابق اکتوبر 2011 سے اکتوبر 2019 تک307 افراد سیلفی لیتے ہوئے موت کے منہ میں چلے گئے جو سالانہ اوسطاً 39 افراد بنتے ہیں۔تحقیق کے مطابق 2014 سے 2016 کے دوران دُنیا بھر میں سیلفی کے جنون کے ہاتھوں 127 لوگوں کی جانیں گئیں جن میں سے 76 اموات بھارت میں ہیں اور اس کا شکار ہونے والے زیادہ تر نوجوان تھے۔سیلفی لیتے ہوئے زندگی کی بازی ہار دینے والوں میں پچاس فیصد افراد کی عمریں 20 سے 29 سال کے درمیان ہوتی ہیں جبکہ 36 فیصد افراد کی عمر 10 سے 19 سال بتائی گئی ہے۔

دُنیا کی پہلی سیلفی کب، کیسے، کس نے اور کس طر ح سے لی گئی۔ سیلفی کی تاریخ175سال پرانی ہے۔ دُنیا کی سب سے پہلی سیلفی 175قبل 1839ء میں امر یکی ریاست پنسلوینیا کے شہر فلاڈیلفیا میں 30سالہ رابرٹ کارنیلیئس نامی فوٹو گرافر نے لی تھی۔ رابرٹ نے اس وقت اپنے والد کی دکان میں خود ہی اپنے چہرے کا پورٹریٹ بنایا اور اس کام کے لیے لینز کیپ کا استعمال کیا۔

رابرٹ نے سب سے پہلے لینز کیپ کو علیحدہ کیا اور پھر دوڑتا ہوا فریم کے درمیان جا پہنچا جہاں وہ اگلے 5منٹ تک فریم میں بیٹھا رہا، پھر اس نے لینزکیپ کو اپنی جگہ لگادیا۔ ڈچ خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان اس ”سیلفی“ تصویر میں کام یابی حاصل کر نے کے بعد اس نوعیت کے خصوصی پورٹریٹ بنانے والا باقاعدہ فوٹوگرافر بن گیا۔

کم وقت میں زیادہ سے زیادہ شہرت پانے کے لئے مشہور شخصیات، بلند وبالاعمارات، آبشاروں، بلکہ شیر اورمگر مچھ جیسے خونخوار جانوروں، شارک جیسی خطرناک مچھلیوں اور چلتی ٹرینوں کے سامنے سیلفی لینے کے شوق میں اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنے والے لوگ بھی کافی تعداد میں دُنیا کے اندر پائے جاتے ہیں۔

”سیلفی“ کے جنون نے ہر شخص کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور اکثر لوگ خطرناک مقامات پر سیلفی لینے کی کوششوں میں اپنی جان تک گنوا بیٹھے ہیں، بچوں سے لے کر بڑے اور یہاں تک کہ بوڑھوں تک سب ہی اس ”سیلفی“ کے مرض میں مبتلا ہیں اور اس کے سحر میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں لین اس جنون نے اب تک کئی افراد کی جان لے لی ہے اور سیلفی کے باعث مارے جانے والے افراد کی فہرست میں پاکستان کا نمبر دوسرا ہے۔کسی بھی ٹیکنالوجی کا درست استعمال انسانی زندگی سہل کر دیتا ہے، اسی سلیفی کے غلط انداز نے ہزاروں جانیں نگل لی، جب کہ سیلفی کادرست استعمال مفید بھی ہے، جیسے کینسر شناخت کرنے والی ایک ایپ بنائی گئی ہے جو سیلفی کے ذریعے کینسر کی موجودگی سے خبردار کرسکتی ہے۔اب سلیفی کے جنون کی وجہ سے بڑھتے ہوئے حادثات نے فطری طورپر ماہرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی ہے۔ ایسے میں حادثات کی روک تھام کے لیے اقدامات اور امکانی ضابطوں کے علاوہ سیلفی لینے کارجحان بھی زیربحث ہے جو لوگوں‘بالخصوص نوعمروں میں ایک وباء کی شکل اختیارکرگیاہے۔یہ وقت کا ضیاع ہی نہیں بلکہ مضر ِصحت بھی ہے، جو تحقیق سے ثابت ہے۔

اوہائیو یونیورسٹی کی شائع کردہ تحقیق کے مطابِق سوشل میڈیا کے سیکڑوں شائقین کی جانچ کی گئی، جس میں یہ بات سامنے آئی کہ جو لوگ کافی زیادہ سیلفیز شائع کرتے ہیں اُن میں نفسیاتی بیماری کے شُبہات اور ذِہنی اَمراض کے خدشات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔جبکہ لندن کے طبّی ماہرِین کا کہنا ہے کہ اسمارٹ فون سے زیادہ سیلفیز لینا نہ صرف چہرے کی جلد (Skin) کومُتاَثِّر کرتا ہے بلکہ اِس سے چہرے پر جھرّیاں بھی پڑتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق اسمارٹ فون سے خارج ہونے والی روشنی اور الیکٹرو میگنیٹک ریڈی ایشن (Electromagnetic Radiation) چہرے کی جِلد (Skin) کو نقصان پہنچاتی ہے، اس سے بُڑھاپے کی طرف سفر تیز ہوجاتا اورچہرے پرجھرّیاں اُبھر آتی ہیں۔

اے پی اے(American Psychological Association) نے کثرت سے سیلفیاں لینے کی بے قابو ہوجانے والی خواہش کوذہنی بیماریوں میں شمار کرلیا ہے۔ اب یہ تحقیق کاایک شعبہ قرار پایا ہے اور اس میدان میں کام کرنے والوں کے لئے سیلفی ٹسٹ) (selfitistکی اصطلاح بھی وضع کی گئی ہے۔ اس ”ڈس آرڈر“ کو تین حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے۔ اگر کوئی شخص دن میں تین سیلفیاں تولے لیکن انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ نہ کرے تواسے یہ بیماری لگی نہیں تاہم وہ اس کی سرحد پرکھڑاہے۔ اگر وہ یہ تینوں تصویریں پوسٹ بھی کررہاہے تو وہ مرض کا قلیل المعیاد(acute)سطح پر شکار ہوچکا ہے۔ اگرکوئی شخص چھ سیلفیاں روزانہ پوسٹ کرے تو اس کا مرض طویل المعیاد (chronic) ہوچکاہے۔ اے پی اے کے نقطہ نظر پر قانونی اورعلمی بحث سے قطع نظر کسی ایسے شوق میں جنون کی کیفیت پیدا ہوجائے تواسے بہرحال سنجیدگی سے دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔

اپنے بارے میں سوچنا، اپنے آپ کو خوب تربنانے کی جدوجہدکرنااور عزیز واقارب کے حلقے میں اس حوالے سے سرگرمیاں کرنا ایک حدتک انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ سلیفی نے اس نفسیاتی ضرورت کو پورا کرنے کی ایک نئی راہ سجھائی ہے‘تاہم اس رجحان کا حدود سے تجاوز کرتے چلے جانا اس بات کی بھی علامت ہے کہ لوگوں کے سامنے ’ہلے گلے‘ یعنی زندگی سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونے سے بڑا مقصد کوئی نہیں ہے۔اسی سوچ کے زیر اثر وقت اور توانائیوں کابڑاحصہ اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوششوں میں ہی صرف ہورہا ہے۔

اگر زندگی کاکوئی بڑامقصد سامنے ہوتو اس کے حصول کے لیے کرنے کو اتنے کام نکل آتے ہیں کہ اس طرح کے شوق خودبخود اعتدال میں آجاتے ہیں۔

سیلفی سے جُڑے حادثات میں اتنی تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ روس میں حکومت ”سیف سیلفی“ مہم شروع کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق دن میں 3 بار سے زیادہ سیلفی لینے والا اس بیماری میں شدت سے مبتلا ہوتا ہے اور ڈاکٹر کے مطابق اس بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اس بیماری کے جراثیم ہمارے ہاں بھی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں،

سائنس دانوں نے تجویز دی ہے کہ دنیا بھر میں بالخصوص خطرناک مقامات پر سیلفی کی ممانعت کے زون ہنگامی بنیادوں پر بنائے جائیں تاکہ اس نوعیت کی ذاتی تصاویر کے سبب واقع ہونے والی اموات کا کچھ سدباب کیا جاسکے۔
 

Abid Hashmi
About the Author: Abid Hashmi Read More Articles by Abid Hashmi: 185 Articles with 141941 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.