بریانی کی ایک پلیٹ ،صاحب کی ایک مسکراہٹ
اورخان،نواب،چوہدری،رئیس اوروڈیرے کے ہمراہ ایک سیلفی لینے پرووٹ پلیٹ میں
رکھ کرظلم ہم خوداپنے اوپرکرتے ہیں لیکن پھرگالیاں اوربرابھلاہم
نوازشریف،عمران خان،فضل الرحمن،آصف علی زرداری اورسراج الحق کودیتے
ہیں۔قیمت پراپنی قیمت لگاکربازارسیاست میں نیلام ہم خودہوتے ہیں لیکن مجرم
اورملزم پھرہم دوسروں کوگردانتے ہیں ۔منہ میں زبان اورکوپڑی میں دماغ رکھ
کرگونگے اورپاگل ہم خودبنتے ہیں لیکن گلے اورشکوے ہم پھراوروں سے کرتے
ہیں۔بقراط،سقراط اورافلاطونوں کی توآج کہیں کوئی کمی نہیں۔ایک ایک پتھرکے
نیچے آج منوں اورٹنوں کے حساب سے دانشور،سوشل اورخشک لیڈرہرجگہ آسانی کے
ساتھ مل جاتے ہیں لیکن لگتاہے نام نہاددانشوروں اورخشک عوامی لیڈروں کی یہ
فصل ہمارے آبائی ضلع میں کچھ زیادہ اگ آئی ہے۔آج میراپوراآبائی ضلع
اتناسیاناہوگیاہے کہ جس کی کوئی انتہاء نہیں ۔ان تمام سیانوں اور نام
نہاددانشوروں کی باتیں ،وعظ اورنصیحتیں سن کریوں محسوس ہورہاہے کہ یہ کہیں
بل گیسٹس،ڈونلڈٹرمپ،اوبامہ یابقراط اورسقراط نہیں توان کے پڑوسی ضرورہونگے
لیکن حقیقت کی دنیامیں اگرآپ ان کاماضی،حال اورمستقبل دیکھیں توآپ سوچوں کے
سمندرمیں غوطے لگائے بغیرہرگزنہیں رہ سکیں گے۔کہتے ہیں مومن ایک سوراخ سے
دوبارنہیں ڈساجاتامگرمیرے آبائی ضلع کے یہ مومن ایک ہی سوراخ سے باربارنہیں
بلکہ سوسوبارڈسے جارہے ہیں اورمزے کی بات یہ کہ انہیں اس کی کوئی پرواہ بھی
نہیں ۔ان کی اسی دانشوری،عقلمندی اوردانشمندی کودیکھ کرہم دوست واحباب
کومشورہ دیتے ہیں کہ اگرگونگے،بہرے اوراندھوں کوقریب سے دیکھناہوتوہمارے
آبائی ضلع کاایک چکرلگادیں ارمان اورخواب لمحوں میں پوراہوجائے گا۔ویسے
پہلے اندھے،گونگے اوربہرے جیسے الفاظ کی تعریف،مطلب ،معنی اورمفہوم جاننے
اورسمجھنے کے لئے ضلع بٹگرام کی حدودمیں داخل ہوناپڑتاتھالیکن ہزارہ موٹروے
کی برکت سے اب ان الفاظ کے معنی ومفہوم تک پہنچنے کافاصلہ بھی تقریباًکافی
حدتک کٹ چکاہے۔ہمارے بڑے کہاکرتے تھے کہ جن کی قسمت،شعور،بیداری اورسیاسی
دانشمندی وبصیرت کوچیک کرناہوتوان کے گھرمیں جھانکنے کی بجائے گھرکے آس پاس
ایک نظر دوڑادیاکرو۔پہلے توپانی کے پائپ،بجلی کے کھمبوں،گلیوں کی
پختگی،سکول وہسپتال کی بلڈنگز اورکشادہ سڑکیں دیکھنے سے آپ کادل باغ باغ
ہوجائے گاورنہ دوسری صورت میں پانی کے بکھرے برتن،،دیوار وں پرلٹکتی
لالٹینیں،کیچڑوتالاب میں تبدیل گلیاں اور ان کے گھروں کوجانے والی کھنڈرات
سے مزین سڑکیں فوری طورپرآپ کی آنکھیں کھول دیں گی جس سے ان کی
قسمت،شعوراوربیداری کا پھرآپ خودآسانی کے ساتھ اندازہ لگاسکیں گے۔پہلے
توہمارے آبائی ضلع بٹگرام کی حدودمیں داخل ہوکرکھنڈرنماسڑکوں،تالاب دکھاتی
گلیوں،دیواروں پرلٹکتی لالٹینوں اورچھتوں پرجابجاپڑی شمسی پلیٹوں کودیکھ
کریہاں کے عوام کی قسمت،شعور،بیداری اورسیاسی دانشمندی کااندازہ
ہوتاتھامگراب ہزارہ موٹروے کی تعمیرسے یہ اندازہ بھی بٹگرام کی حدودمیں
داخل ہونے سے بہت پہلے ہو جاتاہے۔ہزارہ موٹروے مانسہرہ تک توموٹروے ہے لیکن
مانسہرہ سے آگے یہ موٹروے ہے اورنہ ریل وے۔ معلوم نہیں کہ یہ آخرہے کیابلا
۔۔؟اس کی فی الحال ہمیں تو کوئی سمجھ نہیں آرہی ۔سنگل روڈپرڈبل سائیڈٹریفک
جن کے درمیان کوئی جنگلہ ہوگانہ کوئی منگلہ ۔اسے اگرپل صراط کانام دیاجائے
تویقینناًزیادہ مناسب ہوگا۔موٹروے نمااس سڑک پرجب دونوں سائیڈسے 120کی
رفتارسے گاڑیاں آئیں گی اورجائیں گی توکیااس روڈپرسفرکرنے
والاہرڈرائیورمانسہرہ سے بٹگرام تک کئی کلومیٹرطویل یہ پل صراط بحفاظت پاس
اورکراس کرسکے گا۔۔؟اﷲ کرے کہ اس عظیم شاہکارپرسفرکرنے والاہرمسافربحفاظت
اپنی منزل تک پہنچے مگرلگتاہے کہ یہ شاہکاربٹگرام کے گونگے عوام کے لئے
ضرورایک عذاب کی شکل اختیارکرے گا۔ون روڈ ٹوسائید ویسے بھی خطرناک ہے پھرجب
یہ منی موٹروے ہوپھرتواس پرسفرکرنے والوں کااﷲ ہی حافظ ہے۔ہمارے ضلع کے
عوام کوان کے گونگاپن اورمنتخب نمائندوں کے اندھے پن نے آج اس مقام تک
پہنچادیاہے ۔یہ لوگ اگرگونگے اوران کے منتخب نمائندے اندھے نہ ہوتے توپل
صراط کے چکرمیں پڑنے کی بجائے اہلیان مانسہرہ کی طرح یہ بھی آج موٹروے کے
مزے اڑاتے مگرافسوس اپنے گونگے پن کی وجہ سے یہ مارپرمارکھارہے ہیں
پرسیدھاہونے کانام نہیں لے رہے۔بے زبان بچوں کوتومائیں دودھ بھی نہیں دیتیں
پھران بڑے بڑے گونگوں کوچارہ کوئی کیونکرڈالے گا۔۔؟دوسروں کونصیحت
اورخودمیاں فصیحت کی عملی تصویربننے والے ہمارے یہ دانشوراگرایک باربھی
اپنے گریبان میں جھانکتے۔یہ اگرایک باربھی انتخابات کے دوران پیٹ
پرپتھرباندھ کربریانی کی ایک پلیٹ سے دل صبرکرلیتے۔یہ سیلفی اورمسکراہٹ کے
چکرمیں باربارخان،نواب،چوہدری،رئیس اوروڈیرے کے ہاتھوں ڈسنے کی بجائے صرف
ایک باراگرعطاء محمددیشانی،سعیداحمدملکال جیسے کسی غریب پرورامیدوارکوگلے
لگاکر خان،نواب،چوہدری،رئیس اوروڈیرے کے منہ پرتھوکتے ۔یہ ڈلے ،جنبے
اوربرادری کی سیاست میں رنگنے کی بجائے صرف ایک باراگرقوم اورضلع
کامفادسامنے رکھتے توآج ان کی یہ حالت کبھی نہ ہوتی۔فیس بک اورسوشل
میڈیاپربڑے بڑے ہوائی جہازتواڑائے جاسکتے ہیں مگربریانی کی پلیٹ پربکنے سے
جوداغ ماتھے پرلگاہوتاہے اسے کسی بھی طورپردھویانہیں جاسکتا۔آج ہمارے آبائی
ضلع بٹگرام سمیت ملک کے اکثرعلاقے نااہل ،نکمے اوراندھے ممبران اسمبلی کی
وجہ سے مسائل کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں ۔جہاں کے عوام گونگے ہوں ان
کوپھرمنتخب نمائندے بھی اندھے ملتے ہیں ۔انتخابات کے دوران رنگ ،نسل
اورپارٹیاں توہم سب دیکھتے ہیں لیکن افسوس جس کوہم ووٹ دے رہے ہوتے ہیں ان
کی اصلیت ہم کبھی نہیں دیکھتے۔معلوم نہیں عام انتخابات میں بریانی کی ایک
پلیٹ،ایک سیلفی اورچندہزارنقدکی خاطرہم نے کتنے ملکال،کتنے دیشانی اور
نعیمہ نثارجیسی کتنی مخلص اورملک وقوم کادرددل رکھنے والی بہنوں
کومستردکیا۔ہم اگرالیکشن کے دوران قدکاٹ میں اپنے سے بڑوں کووٹ نہ دیتے
توآج ہمارے اوپریہ اندھے اورفرعون کبھی مسلط نہ ہوتے۔یہ بڑے بڑے سیاسی
فرعون ہمارے آزمائے ہوئے ہیں یانہیں لیکن ہم سب ان کے آزمائے ہوئے ضرورہیں
۔ان اندھوں کوپتہ ہے کہ بریانی کی ایک ایک پلیٹ پربکنے والے یہ گونگے ہمارے
بغیرکوئی قدم نہیں اٹھاسکتے ۔رنگ ،نسل،ذات پات اورپارٹیوں کی سیاست نے ہمیں
غلامی اورپسماندگی کی زنجیروں میں جکڑاہواہے۔آج ہم جن مسائل کے گرداب میں
دھنسے ہوئے ہیں یہ سب ہمارے اپنے ہاتھوں پیداکردہ ہیں۔بٹگرام سمیت ملک کے
پسماندہ اوردوردرازعلاقوں میں بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی اورسڑکوں کی
ابترحالت کودیکھ کردل پھٹنے لگتاہے۔آخرکب تک ہم رنگ ،نسل ،ذات پات
اوربرادری کی سیاست کی خاطراپنے ارمانوں کاخون اورمستقبل کایہ سوداکریں
گے۔جب تک ہم غلامی کی اس سیاست سے نہیں نکلتے اس وقت تک ہمارے یہ مسائل حل
ہوں گے اورنہ ہی ہمارے یہ حالات کبھی بدلیں گے۔اپنے آپ اورقوم کوان مسائل
کی دلدل سے نکالنے کے لئے ہمیں فیس بک اورسوشل میڈیاکی بجائے عملی میدان
میں اپنی ان زبانوں کوحرکت دیکھ کر مفاداتی سیاست میں اندھے ہونے والے
خانوں،نوابوں،چوہدریوں،رئیسوں اوروڈیروں کے سامنے کلمہ حق
کوبلندکرناہوگا۔بے زبان بچوں کوتومائیں بھی دودھ نہیں دیتیں پھریہ ظالم
ہمیں ہمارے حقوق کیسے دیں گے۔اس لئے ہمیں اپنے حقوق کے لئے چیخنے اورچلانے
کے ساتھ ان ظالموں کے گریبانوں کوبھی پکڑناہوگاتاکہ انہیں ووٹ کی طاقت
کاکچھ اندازہ ہوورنہ خشک زبانی نعروں اوروعدوں سے آج تک کچھ ہواہے اورنہ ہی
آئندہ کچھ ہوگا۔گونگے عوام کے حکمران توویسے بھی اندھے ہوتے ہیں ۔
|