مسز نسیم

یہ واقعہ میری پی ایچ ڈی ریسرچ کے دنوں کا ہے۔ میں نے بہت غور و فکر، جائزے، اور اساتذہ سے مشاورت کے بعد اپنے تھیسز کا موضوع چُنا تھا: Man's Need for Paranormal / "پیرانارمل کی انسانی ضرورت" ۔ میرا ارادہ ہمارے معاشرے میں مبینہ پیرانارمل واقعات کو لے کر ایسے عوامل پر غور کرنے کا تھا جو انسانی نفسیات کو پیرانارمل کی تخلیق اور قبولیت پر مائل کرتے ہیں۔ اِس سلسلے میں میرے سامنے آنے والے کیسز میں سب سے پہلا کیس مسز نسیم کا ہی تھا اور اِس سے میرا تعارف ایک خط کی صورت میں ہوا۔ اُن دنوں میں نے ایک مقبول میگزین میں اپنی ریسرچ کے حوالے سے اشتہار دے رکھا تھا۔ مسز نسیم کی بیٹی سے ملنے والا خط اِسی اشتہار کے جواب میں تھا۔ ابتدائی دلچسپی کے باوجود میں اِس کیس پر تفصیلی کام نہ کر سکا اور نہ ہی اِسے اپنے تھیسز میں شامل کر پایا۔ اِس کی وجہ میرے اشتہار کے جواب میں ملنے والے کیسز کی بڑی تعداد اور وقت کی کمی تھی۔ میں اپنی ریسرچ میں کافی حد تک کامیاب رہا اور میرے کام کو علم النفسیات کے حلقوں میں بہت سراہا گیا۔ مسز نسیم کیس کا خیال پی ایچ ڈی کے اختتام تک میرے ذہن سے محو ہو چُکا تھا۔ مگر آخری دن جب میں یونیورسٹی میں اپنا دفتر خالی کرنے آیا تو اِس کیس کی فائل ایک بار پھر نظروں کے سامنے آ گئی۔ ایک میز کے نیچے پرانی فائلوں کے ڈھیر سے الگ تھلک پڑی گہرے سُرخ رنگ کی فائل مجھے گھور رہی تھی۔ فائل اُٹھا کر اِس پر پڑی گرد کو عادتاََ ایک زوردار پھونک سے ہٹایا ہی تھا کہ میں بُری طرح چونک اُٹھا۔ اور پھر فائل میز پر رکھ کر جوں جوں اوراق پلٹتا گیا جسم میں سنسنی پھیلتی گئی۔ میری ہمیشہ سے یہی رائے رہی ہے کہ پیرانارمل کا احساس انسانی نفسیات کی تخلیق ہے۔ پراُس دن جو میں نے دیکھا وہ میں آج تک پوری طرح سمجھ نہیں پایا۔ کیا میں خود اِس کیس کا حصہ بن گیا تھا؟ آج پہلی بار مکمل تفصیلات سب کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ شاید پڑھنے سُننے والے مجھ سے بہتر سمجھ سکیں۔

۱۔ بیٹی کا بیان (خط)

"سلام مسنون،

آپ کا اشتہار نظر سے گزرا۔ معلوم نہیں آپ سے رابطہ کرنا درست ہے یا نہیں۔ تفصیل میں جانے سے پہلے یہ واضح کرنا چاہوں گی کہ ہماری فیملی کسی طرح بھی توہمات پرست نہیں رہی۔ مگر اب کچھ واقعات نے ذہن میں بے یقینی کا بیج بَو دیا ہے۔ آج سے تقریباََ ایک برس قبل میرے والد جناب نسیم اختر کا انتقال ہوا اور یوں والدہ کے ساتھ اُن کی عمر بھر کی رفاقت اختتام کو پہنچی۔ میرے والدین آپس میں کزن تھے اور بچپن سے ہی ایک چھت کے نیچے رہے۔ جب اِن کی شادی ہوئی تو والد کی عمر پندرہ اور والدہ کی چودہ برس تھی۔ خاندان میں سبھی اِس رشتے سے خوش تھے اور دھیرے دھیرے سبھی نے جان لیا کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر بالکل نہیں رہ سکتے۔ یہ کوئی وقتی لگاو نہیں تھا بلکہ ہم نے بھی جب سے ہوش سنبھالا، دونوں کو ساتھ اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہی دیکھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے دونوں ایک دوسرے میں گُم ہو چکے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے سایہ، رحمت اور جائے سکون بن چُکے ہیں۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد جب ابو گاوں سے شہر منتقل ہوئے تو امی کو ساتھ ہی لائے۔ ابو کی عادت تھی کہ گھرداری کے حوالے سے امی کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کا خیال رکھتے اور اُنہیں کسی قسم کی مشکل کا شکار نہ ہونے دیتے۔ امی کی کسی بھی پریشانی کو فوراََ بھانپ لیتے اور پھر حل کیے بغیر آرام سے نہ بیٹھتے۔ دوسری طرف امی بھی اُن کی خدمت میں کوئی کمی نہیں چھوڑتی تھیں۔ ہمارے کاموں کے ساتھ ساتھ ہر لمحے اُن کے آرام کا خیال رہتا۔ آخری دنوں میں ابو بیمار پڑے تو امی اُن کے بستر سے لگ کر بیٹھ گئیں۔ ابو کی بیماری اور بڑھتی کمزوری کو دیکھ کر سخت غمگین ہو جاتیں اور کبھی غم کی شدت میں کہہ دیتیں "آپ کو کچھ ہو گیا تو میں نے بھی نہیں بچنا" تو ابو کا مسکراہٹ بھرا جواب یہی ہوتا "یوں نہیں، بلکہ یوں کہو کہ جب تک ہم میں سے ایک زندہ ہے دوسرا بھی نہیں مر سکتا"۔

ابو کی وفات کے بعد ہم پریشان تھے کہ امی اُن کے بغیر کیسے رہیں گی۔ پر امی کے چہرے پر ایک اطمینان رہتا، جیسے کوئی بڑی تبدیلی نہ آئی ہو۔ ہم بہن بھائیوں نے بہت کوشش کی کہ امی ہم میں سے کسی کے پاس رہ لیں، مگر وہ ہر بار یہ کہہ کر انکار کر دیتیں کہ تمہارے ابو اور میں پینتیس سال پہلے اکٹھے اِس گھر میں آئے تھے، اب اُنہیں یہاں اکیلا کیسے چھوڑ دُوں۔ ابو کی وفات کے فوراََ بعد پہلے چند ہفتے مَیں ہی امی کے پاس رہی ۔ غالباََ وفات کا پانچواں دن تھا جب مجھے پہلی بار کچھ محسوس ہوا۔ مہمان رشتے دار سب جا چُکے تھے۔ رات گئے تک میں امی کے بستر پر بیٹھی اُن سے باتیں کرتی رہی۔ اِس دوران امی کی آنکھ لگ گئی اور میں لائٹ بند کر کے دبے قدموں کمرے سے باہر نکلی اور بہت خاموشی سے دروازہ بند کرنے لگی۔ ابھی دروازہ مکمل بند بھی نہیں کِیا تھا کہ مجھے خیال آیا کہ امی نے صرف چادر اوڑھی ہوئی ہے اور رات میں سردی بڑھ جاتی ہے۔ نکلتے ہوئے میری نظر کمبل پر پڑی تھی جو دن بھر پیٹی کے اوپر سلیقے سے رکھا رہتا تھا۔ سوچا کمبل پیٹی سے اٹھا کر بستر پر رکھ دوں۔ اِس خیال سے دروازہ کھولا ہی تھا کہ میں بُری طرح کانپ اٹھی۔ کمبل انتہائی نفاست سے امی کے اوپر پھیلا ہوا تھا، اور وہ بالکل پہلے کی طرح سکون سے سو رہی تھیں۔ مجھے سمجھ نہیں آ سکی کہ یہ کیسے ہوا۔ اِس کے باوجود اُس رات میں نے اِس واقعے پر مزید نہیں سوچا اور شاید دوبارہ کبھی سوچتی بھی نہ۔ مگر پھر دھیرے دھیرے ایسے واقعات بڑھتے چلے گئے۔ اگر آپ کو دلچسپی ہو تو مزید بات کی جا سکتی ہے۔"

۲۔ نواسے کا بیان (ریکارڈنگ)

"کہاں سے بتانا شروع کروں آپ کو۔ مجھے تو اب نانی کے گھر سے بہت ڈر لگتا ہے۔ امی کہتی ہیں تو چلا جاتا ہوں۔ پر اب میں رات بالکل نہیں ٹھہرتا وہاں۔ نانا ابو فوت ہوئے تو شروع شروع میں ہفتے اتوار کو رُک جاتا تھا ۔ بہت پیار کرتی ہیں نانی اماں، پر اُس گھر کی بہت سی چیزیں اب مجھے سمجھ نہیں آتیں۔ اکثر میری رات میں آنکھ کُھل جاتی اور نانی اماں کے کمرے سے باتوں کی آواز آ رہی ہوتی تھی۔ میں سمجھتا تھا شاید نیند میں بول رہی ہوں گی۔ پر بولنے کا انداز نیند والا نہیں ہوتا تھا اور کمرے سے آنے والی آواز بھی ایک نہیں ہوتی تھی۔ ایک دفعہ دروازے سے کان لگا کر تھوڑا سا سُنا۔ نانی اماں دن بھر کے واقعات، اور ہماری باتیں بتا رہی تھیں۔ اُن کی بات کے بیچ بیچ کسی دوسری آواز کا ہلکا سا شائبہ ہوتا تھا۔ میں اِسے اپنے ذہن کی شرارت سمجھتا رہا۔ پھر ایک رات آنکھ کُھلی تو نانی اماں کے کمرے کا دروازہ تھوڑا سا کُھلا ملا۔ نانا ابو کی ایک ہلنے والی کرسی ہوتی تھی جس پر ہم بچپن میں شوق سے جھولا کرتے تھے۔ میں نے ہلکا سا اندر جھانکا تو نانی اماں بستر پر بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ اُن کی پشت دروازے کی طرف تھی اور چہرہ ہلنے والی کرسی کی طرف اور کُرسی دھیرے دھیرے ہلے جا رہی تھی۔ جب تک میں دیکھتا رہا کرسی ہلتی رہی، نانی اماں باتیں کرتی رہیں۔ سردیوں کی رات تھی۔ پنکھے اور کھڑکیاں سب بند تھے۔ اُس رات مجھے نیند نہیں آئی۔ ہلتی ہوئی کرسی کا ہی سوچتا رہا۔ اُس کے بعد سے میں وہاں رات نہیں ٹھہرا۔"

۳۔ پلمبر کا بیان (ریکارڈنگ)

"نسیم صاحب سے کئی برس کا تعلق تھا۔ گھر کا کوئی بھی کام ہوتا پلمبنگ اور بجلی سے متعلق تو میری دکان پر آ کر مجھے لے جاتے۔ وہ میرے کام سے مطمئن تھے اور معاوضہ بھی مناسب دیتے تھے۔ تقریباََ ڈھائی سال پہلے میں نے اپنی دکان اندرون شہر منتقل کر لی تو اُن کا آنا جانا کم ہو گیا۔ پھر بھی فون کر کے کبھی بُلا لیتے تھے۔ کچھ ماہ پہلے کی بات ہے میں نے صبح دکان کھولی ہی تھی کہ اُن کی کال آ گئی۔ کہنے لگے آصف بھائی گیزر شام سے کام نہیں کر رہا اور سردی بہت ہے۔ اگر آج ہی آ کر دیکھ لیں تو اچھا ہو گا۔ میں نے اپنا سامان پکڑا اور موٹرسائیکل پر نسیم صاحب کے گھر پہنچ گیا۔ گھنٹی دی تو چھوٹی بی بی نے دروازہ کھولا اور مجھے حیرانی سے دیکھنے لگیں۔ میں نے پوچھا بی بی جی نسیم صاحب باہر گئے ہیں کیا؟ میری بات پر رونے لگیں اور بولیں آصف بھائی ابو کا تو سال پہلے انتقال ہو گیا۔ میں کچھ دیر ہکا بکا کھڑا رہا، پھر ہمت کر کے بولا "پر بی بی جی ابھی تو اُن کی کال آئی مجھے، کہہ رہے تھے گھر پر کام ہے گیزر شام سے خراب ہے"۔ بی بی جی حیرت بھری نظروں سے مجھے تکنے لگیں اور بولیں "گیزر تو واقعی شام سے خراب ہے پر آپ کو غلط فہمی ہوئی ہو گی، شاید کسی اور نے اپنے کام سے کال کی ہو؟" میں نے کہا میں نسیم صاحب کی آواز اچھی طرح پہچانتا ہوں، نمبر بھی اُنہیں کا تھا۔ پھر بی بی جی کی بڑھتی پریشانی دیکھ کر میں نے اصرار نہیں کیا اور کہا کہ اب آیا ہی ہوں تو گیزر ٹھیک کر دیتا ہوں۔ بس پھر گیزر ٹھیک کر کے واپس آ گیا اور دوبارہ اِس پر نہیں سوچا۔ اب چھوٹی بی بی کے کہنے پر آپ سے بات کر رہا ہوں۔"

۴۔ راقم کا بیان (تحریری)

جیسا کہ میں شروع میں بیان کر چکا ہوں، مسز نسیم کے کیس پر ابتدائی معلومات اکٹھی کرنے کے بعد میں مزید کام نہیں کر سکا۔ اِس کیس کی فائل میرے دفتر میں کہیں پڑی رہی۔ یونیورسٹی میں آخری دن دفتر خالی کرتے ہوئے ایک بار پھر یہ فائل میرے سامنے آ گئی۔ میں نے اِس کیس کا نام شروع سے ہی "بیوہ نسیم" رکھا تھا۔ پر اُس دن فائل سے گرد ہٹاتے ہی میرے چُونک اٹھنے کی وجہ یہ تھی کہ فائل کور پر "بیوہ" کو کاٹ کر اوپر بڑی نفاست سے "مسز" لکھ دیا گیا تھا۔ لکھائی میری نہیں تھی۔ میرے علاوہ اِس دفتر کی جاپی کسی کے پاس نہیں تھی اور نہ ہی اس کیس کے حوالے سے کسی اور کو معلوم تھا۔ میں بے یقینی اور تجسس کی کیفیت میں تیز تیز فائل کے اوراق پلٹنے لگا۔ اور جب تک پلٹتا رہا میرے اوپر کئی رنگ آتے جاتے رہے۔ کبھی حیرانی کبھی شک اور کبھی مکمل بے یقینی۔ اِن سب کے ساتھ ایک بے نام سے خوف کی سرد لہریں جسم میں دوڑتی رہیں۔ فائل میں ہر جگہ "بیوہ نسیم" کو کاٹ کر "مسز نسیم" کر دیا گیا تھا۔ فائل بند کر کے کچھ دیر سوچتا رہا، پھر میرا دھیان اپنے لیپ ٹاپ کی طرف گیا۔ پی ایچ ڈی کے دوران میری عادت تھی کہ روز کا کام ایک انٹرنیٹ سروَر پر اپلوڈ کر دیتا تھا تا کہ کچھ ضائع نہ ہو۔ اب میں بَیْک اَپ سرور میں موجود بیوہ نسیم کیس کی فائلیں کھول کر ہر اِک کی ایڈیٹ ہسٹری کا جائزہ لینے لگا۔ جوں جوں تفصیلات کُھلتی گئیں میرا اپنی آنکھوں اور اپنے فہم پر یقین کمزور پڑتا گیا۔ ایڈیٹ ہسٹری کے مطابق تمام فائلیں اپلوڈ ہوتے ہی، ایک سیکنڈ کے اندر اندر ایڈیٹ ہوتی چلی گئی تھیں، پہلے ورژن میں "بیوہ" اور دوسرے میں "مسز"۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آ سکا کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا۔ فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

Ibnay Muneeb
About the Author: Ibnay Muneeb Read More Articles by Ibnay Muneeb: 54 Articles with 68734 views https://www.facebook.com/Ibnay.Muneeb.. View More