پانی (اوٹ پٹانگ)

 پانی کی صفات کمال کی ہیں، پانی جیسی کوئی دوسری چیز نہیں ۔ پانی انسانی عناصرِ اربعہ میں بھی شامل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ زندگی کی بقا کے لئے اساسی اہمیت بھی رکھتا ہے۔پانی کے بغیر تخلیق کا عمل ممکن نہیں، یہ تخلیق چاہے انسانی، حیوانی، نباتاتی یا حشراتی ہو پانی کا عمل دخل ضرور رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ کسی مکان کو امکان میں لانے کے لئے اینٹوں کے بننے سے لے کر ان کے دیوار میں چُنے جانے تک ہر مرحلے میں پانی ناگزیر ہے۔ اسی طرح ہنڈیا پکانے کے عمل میں بھی پانی کی ضرورت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور آٹے کو روٹیوں کی شکل میں ڈھالنے کے لئے بھی پانی ہی کی ضرورت پڑتی ہے ۔اگرچہ پانی پر دودھ کو ترجیح دے کر پانی کو’ پانی پانی‘ کر دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کسی دودھ میں جتنا پانی زیادہ ہو ، اس کی قیمت اتنی کم ہو جاتی ہے۔ پانی کی یہ بے قدری قابلِ مذمت ہے ،پانی کی اہمیت دودھ سے کہیں زیادہ ہے۔ اگرچہ دودھ بھی قابلِ قدر ہے اور اس کا رنگ بھی بہت گورا ،چٹا ہے ۔ اور اس پر مہینے کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ بھی خرچ کرنا پڑتا ہے ،جب کہ پانی اس کے مقابلے میں سستا اور عام ہے۔ نہانے کے لئے بھی پانی کا استعمال کیا جاتا ہے اور پانی کے بغیر غسل ناممکن ہے۔ لیکن جب کسی کو دعا دی جاتی ہے تو بڑے پیار اور ادا سے کہا جاتا ہے: دودھو ں نہاؤ، پوتوں پھلو۔ یہاں آ کے لوگ ایک بار پھر پانی سے زیادتی کر کے سارے نمبر دودھ کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور بیچارہ پانی بس ہاتھ ملتا اور منہ تکتا رہ جاتا ہے۔ اور پھر جب کسی پے طنز کے نشتر چلانا مقصود ہو تو کہا جاتا ہے: تم کون سے دودھ کے نہائے ہوئے ہو۔ یہاں بھی پانی سے نہانے والے کی عزت اچھالی جاتی ہے، بلکہ اتار کے اسی کے ہاتھ میں پکڑا بھی دی جاتی ہے جو کہ سرا سر ناانصافی ہے۔ نہاتی ساری دنیا پانی سے ہے اور عزت دینے کے وقت سارا وزن دودھ کے پلڑے میں ڈال کر پانی سے کھلم کھلا نازیادتی کی جاتی ہے۔

دنیا میں ’زیادتی‘ کا موضوع بہت پرا نا ہو چکا ہے اور اس سلسلے میں سنہری حروف میں لکھی جانے والی ایک بات کہی جا سکتی ہے کہ جب تک یہ دنیا رہے گی، زیادتی ہوتی رہے گی۔’ زیادتی‘ کا کلچر کبھی ختم نہیں ہوا۔ دنیا میں ہمیشہ کسی نہ کسی سے زیادتی ہوتی رہی ہے اور ہمیشہ ہوتی رہے گی۔زیادتی کا پہلا کام شیطان سے ہوا جب اس نے سر کشی کی اور دوسرا کام بھی اسی سے ہوا کہ اس نے معصوم حضرت آدمؑ اور حضرت حوا ؑ کو ورغلایا۔ اور اس کے بعد بھی زیادتی کا کام اسی کے حصے میں آیا ہے: وہ سب سے زیادتی کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا ۔ شیطان کے بعد یہ کام اس کے پیرو کار انسانوں نے اپنے ذمے لیا ہوا ہے اور وہ معصوم انسانوں سے زیادتی کرتے پھرتے ہیں: کسی کی جیب کاٹتے ہیں اور کسی کی گردن، کسی کا نام بدنام کرتے ہیں اور کسی کا کام خراب کرتے ہیں۔ ان سے کوئی نیکی ہونے کی نہیں اور وہ زیادتی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور زیادتی کئے بغیر رہ نہیں سکتے ۔ زیادتی کر کے ان کو سکون ملتا ہے جو کہ دراصل بے سکونی ہی ہوتی ہے اور مزید بے سکونی کو جنم دیتی ہے۔

جنم دینا انسان اور حیوان کی فطرت اور سرشت میں ہے وہ نئی نسل کو جنم دیتا ہے اور انسان ، انسان کو جنم دینے کے علاوہ بہت سی اور چیزوں کو بھی جنم دیتا ہے۔ اور جب وہ ایک بار کسی چیز کو جنم دے لیتا ہے تو وہ مزید چیزوں کو جنم دیتا چلا جاتا ہے۔ایک فلسفی نئے خیالات کو جنم دیتا ہے، جنم دینے کے بعد ان کو پروان چڑھاتا ہے۔ اور ان نظریات کا دوسرے نظریات سے دنگل بھی کراتا ہے اور پھر خود ہی اپنے نظریاتے کو فاتح قرار دے دیتا ہے جب کہ اس کا فیصلہ تو آنے والے زمانوں نے کرنا ہوتا ہے لیکن ہر فلسفی مرتے دم تک اپنے نظریات کی برتری اور اعلیٰ مقامی کا ڈنکا پیٹتا چلا جاتا ہے ، کوئی سنے نہ سنے۔ سیاست دان نت نئی سیاست اور خیالات کو جنم دیتا ہے۔ وہ لوگوں کو آپس میں لڑانے میں نہ صرف کامیاب ہوتا ہے بلکہ ان نادان روحوں سے اپنے لئے بہت بلند پایہ مقام بھی تعمیر کروا لیتا ہے۔ نوٹوں پے اس کی تصویر چھپتی ہے، ہر بڑی چیز کا نام اس کے نام پر رکھ دیا جاتا ہے، اس کی ذات ، برادری اور شہر کو بھی عزت سے نوازا جاتا ہے۔ لوگ اس کے لئے آپس میں بحثیں کرتے ہیں، ایک دوسرے سے لڑتے ہیں اور حتیٰ کہ دوسرے کو قتل بھی کر دیتے ہیں اور اس کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ اس کے لئے کون جان پر کھیل رہا ہے۔ شاعر لوگ بھی جب جذبات کو جنم دینے پر آتے ہیں تو ان سے زیادہ بے پر کی کوئی نہیں اڑا سکتا اور وہ اپنا نیا جہان ہی تخلیق کر لیتے ہیں۔ اور زلفِ یار پر سارا جہان وار بھی دیتے ہیں۔ سائنسدان بھی تخلیق کرنے اور جنم دینے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ آج کل تو وہ وائرس بھی تخلیق فرما رہے ہیں چاہے ان سے انسان کا وجود ہی خطرے میں کیوں نہ پڑ جائے۔ تخلیق کرنے والوں یا جنم دینے والوں کو چاہیئے کہ اپنی خواہشات کی تکمیل کرتے وقت دوسروں کے وجود کی نفی نہ کیا کریں بلکہ دوسروں کو اپنے آ س پاس محسوس کرتے ہوئے ہی کوئی نئی ایجاد کی جائے تا کہ دوسرے اس سے بری طرح متاثر نہ ہوں ، ہاں اگر دوسرے اس سے اچھی طرح متاثر ہو جائیں تو کوئی حرج کی بات نہیں کیوں کہ انسان کا وجود ، دوسروں کے لئے باعثِ زحمت نہیں بلکہ باعث رحمت ہونا زیادہ بہتر ہے۔

دوسروں کی بہتری کا خیال رکھنا بہت اچھی بات ہے۔ لیکن اس کی خواہش یارضامندی کے بغیر یا اس کی اجازت کے بغیر خیال رکھنا کبھی کبھی مہنگا بھی پڑ جاتا ہے، ایسا کرنے سے پہلے اپنا خیال بھی رکھ لینا ضروری ہے۔ دوسرے الفاظ میں کسی کا اتنا سا ہی خیال رکھا جائے جتنا اس کو ناراض نہ کرنے اور اتنا خیال نہ رکھا جائے کہ وہ بھی ہمارا خیال رکھنا شروع کر دے یا ہمیں اپنا خیال رکھنے پر مجبور کر دے۔ تیسرے الفاظ میں خیال رکھنے میں احتیاط کا دامن یا میانہ روی کا آنچل ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیئے۔

تیسرے الفاظ کا استعمال کرتے میں نہیں کسی کو نہیں سنا یا دیکھا۔ ہر شخص بس دوسرے الفاظ میں بات کر کے ہی بات کے اختتام کا اعلان کر دیتا ہے اور میرے جیسا کم عقل اور کم گو انسان بولنے والے کے تیسرے الفاظ کا انتظار اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جو شخص اپنی بات دوسرے الفاظ تک لے کے آتا یا جاتا ہے، اسے چاہیئے کہ وہ اپنی بات تیسرے الفاظ تک بھی لے کے جائے کیوں کہ کسی بات کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ بات تیسرے الفاظ تک بھی جائے۔ جیسا کہ قسمیں کھاتے وقت تین قسمیں کھانا ، یا کوئی وعدہ یا دعویٰ کرتے وقت تین بار دہرانا اور سب سے اہم فیصلہ جس پر ساری زندگی کا دارو مدار ہوتا ہے یعنی شادی میں ’قبول ہے‘ کے الفاظ، چاہے دلی طور پر قبول نہ بھی ہو ، تین بار دہرانا لازمی اور ضروری ہے۔ ورنہ شادی نہیں ہو گی یا پکی نہیں ہو گی یا شرعی نہیں ہو گی۔ اسی طرح کوئی اور بات کرتے ہوئے جس میں کوئی کہنے یا بولنے والا اپنی بات یا سوچ کے فروغ یا ابلاغ کے لئے ’دوسرے الفاظ میں‘ کی ضرورے محسوس کرے اسے چاہیئے کہ اپنی بات ’تیسرے الفاظ‘ تک بھی لے کے جائے تا کہ بات اپنے منطقی یا غیر منطقی انجام کو پہنچ جائے اور پھر کسی کمی کا احساس باقی نہ رہے۔ تیسرے الفاظ کا استعمال سیاستدانوں کے لئے بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے کہ وہ بات کو جب چاہیں تیسری ’ٹوسٹ‘ دے سکیں گے۔تا کہ ان کی بات کے زیادہ سے زیادہ پہلو سامنے آسکیں اور وہ جب چاہیں اپنی بات بدل بھی سکیں گے۔اور سننے والے بھی سوچتے رہیں کہ ان کے عظیم لیڈر نے پتہ نہیں اپنے پہلے الفاظ پر قائم رہنا ہے، یا دوسرے الفاظ پر زور دینا ہے یا تیسرے الفاظ اس کے اصل الفاظ ہیں۔ یا ’تیسرے الفاظ‘ کا استعمال اس وقت زیادہ مناسب ہے جب بات کرنے والا اپنے خیالات کو واضح الفاظ میں دوسروں تک پہنچانے سے قاصر ہو۔ اس طرح’ دوسرے الفاظ‘ یا پھر’ تیسرے الفاظ‘ تک جانے سے سامعین یا قارئین کو کچھ نہ کچھ تو سمجھ آ ہی جائے گی۔

دوسروں کو سمجھانا بھی کسی کرامت سے کم نہیں ہے۔ بہت سے لوگ، جو بہت کچھ سمجھتے بوجھتے ہوتے ہیں ان کے لئے اپنی بات دوسروں کے گوش گزار کرنا یا ان کے’ دماغ گزار‘ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اور بعض اوقات دوسروں کو ان کی بات سے ’درگز‘ر ہی کرنا پڑتی ہے۔ کیوں کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔ اور جب کوئی چارہ نہیں ہوتا تو پھر چارہ چلتا بھی نہیں اور جب چارہ نہیں چلتا تو پھر سوائے برداشت کرنے کے کوئی چارہ نہیں رہتا ۔ وہ ’چارہ‘ جو جانور کھاتے ہیں یا انسان انہیں کھلاتے ہیں اس کا معاملہ کچھ اور ہوتا ہے۔ جانوروں کا چارہ، ہر چارے پے چل جاتا ہے چاہے ان کے اپنے مالک کا ہو یا کسی اور جانور کے مالک یا یا کسی ایسے شخص کا جو کسی جانور کا ملک نہ ہو صرف چارے کا ہی مالک ہو۔

مزے کی بات ہے کہ جانوروں کے لئے حلال اور حرام کا احترام یا امتیاز ایسا نہیں جیسا انسانوں کے لئے ہے۔ لیکن اس سے زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ انسان، حیوانوں سے کئی گنا زیادہ حرام کھاتے ہیں اور اپنے آپ کو حیوانوں سے نچلے درجے پرلے جاتے ہیں۔ اور پھر کبھی کبھی انسان حیوانوں بلکہ شیطانوں سے بھی نچلے درجے یا طبقے میں لے جاتے ہیں۔ لیکن انسان ہے کہ اس کے آشرم میں ’شرم‘ داخل ہی نہیں ہوتی۔ اور انسان ہے کہ اپنے آپ کو ’اشرف المخلوقات‘ کے درجے سے ایک انچ بھی نیچے اترنا نہیں چاہتا ۔اب اس کی مرضی ہے کوئی زبردستی تو کر نہیں سکتا ۔ حلال یا حرام اپنی جگہ اور مخلوقات میں سے اشرف ہونا اپنی جگہ۔
 

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 312968 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More