بیگم کو ہمیشہ یہ شکوہ رہا کہ ہم گھر یلو معاملات میں
خاطرخواہ دلچسپی نہیں لیتے۔ کچھ ایسا ہی گلہ ہمارے افسران بالا کو بھی رہا
کہ ان کی نظر میں یونٹ کے معاملات میں ہماری دلچسپی کا معیار ہرگز وہ نہ
تھا جوانہیں درکار تھا۔ اب آپ ہی بتائیں کہ انسان بیک وقت کتنے محاذوں پر
جنگ آزما ہو سکتا ہے۔ ہماری سمجھ اور تجربے کے مطابق باس اور بیگم دونوں کو
بیک وقت راضی رکھنا تو تقریباً ناممکن ہے تاہم ایک وقت میں کسی ایک کو خوش
رکھنے کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے۔
یہ اکتوبر 1998ء کا ذکر ہے۔ ہم ان دنوں شادی اور سیاچن کے بندھن میں یکے
بعد دیگرے گرفتار ہوئے تھے۔ پوسٹ پر میجر امجد ہمارے ساتھ ہوا کرتے تھے۔
موصوف پیدل فوج کے ایک قابل افسر تھے اور ہم سے کافی سینیئر بھی تھے۔
انہیں جب معلوم ہوا کہ ہم نئے شادی شدہ افسروں کے زمرے میں شامل ہیں تو
ہمیں خانگی مشوروں سے نوازنا اپنا فرض عین قراردے دیا۔ اس ضمن میں ان کے
پاس وقت اور ہمارے پاس اشتیاق کی فراوانی تھی۔
میجر امجد کے تجربات کا نچوڑ یہ تھا کہ فوجی افسر کی گھریلو زندگی
خوشگوارہونی چاہیے تاکہ وہ پیشہ ورانہ امور پر پوری توجہ دے سکے اور اس کا
واحد حل یہ ہے کہ ہر قیمت پر بیگم کو خوش رکھا جائے۔ اگرچہ یہ بات ہم نے
پہلے بھی کہیں سے سن رکھی تھی لیکن ایک تجربہ کار سینیئر کے مشورے نے تواس
پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ ہم نے سوچا کہ اس بار چھٹی پر گھر گئے تو ایک اچھا
شوہر بن کردکھائیں گے۔
تین ماہ بعد پوسٹ پر ہمارا عرصہ پورا ہوا اور ہم چھٹی گزارنے کے لیے عازم
سفر ہوئے دوران سفر ہم نے خود کو بیگم کی ہر بات ماننے کے لیے ذہنی طور پر
تیار کیا۔
گھر پہنچ کر ہم نے جیسا سوچا تھا ویسا ہی کیا۔ صبح اٹھ کر فجر کی نماز
پڑھی، ناشتا ٹھیک وقت پر کیا، شاپنگ پر بنا کہے لے جانے کے لیے تیار ہوگئے
، کھانا بالکل روکھا پھیکا تھا لیکن ہم نے تعریفوں کے بل باندھ دیے، کپڑے
جوتے بدل کر تمام چیزیں سلیقے سے اپنی جگہ پر رکھیں اور ہر بات پر بیگم کی
ہاں میں ہاں ملائی۔
یہ دیکھ کر بیگم حیران ہوتی رہیں اور پوچھتی رہیں کہ آپ کو آخر ہوکیا گیا
ہے۔ اگلے چار دن اسی عالم میں گزرے تو آنکھوں میں آنسو بھر کرکہنے لگیں:
مجھے آپ کے تبدیل ہونے کی بے انتہا خوشی ہے لیکن یقین مانیں آپ اس حالت میں
بالکل بھی اچھے نہیں لگ رہے۔ آپ ایسا کریں کہ یہ سب کچھ بھول کر پہلے کی
طرح بن جائیں۔ یہ بات سن کر ہم حیرت سے ان کی طرف تکنے کے سوا اور کر بھی
کیا سکتے تھے۔
اس کے بعد سے یہ عالم ہے کہ ہم چھٹی پرہوں تو بارہ بجے سے پہلے منہ بستر سے
باہر نہیں نکالتے اور ناشتا اس وقت کرتے ہیں جب بیگم چیخ چیخ کر ہلکان
ہوجاتی ہیں، شاپنگ پر لے جانے کے لئے تب راضی ہوتے ہیں جب بات علیحدگی سے
دو چار قدم پیچھے رہ جاتی ہے، کھانے میں جی بھر کے نقص نکالتے ہیں، کپڑے
جوتے پورے گھر میں پھیلا دیتے ہیں اور ہر بات میں بیگم سے اختلافات کرتے
ہیں۔
اس سب کے جواب میں بیگم سے جلی کٹی بھی سنتے ہیں۔ کبھی کبھار تنگ آکر وہ
افسوس بھی کرتی ہیں کہ مجھ سے کتنی بڑی غلطی ہوئی جو میں نے آپ کے بدلے
ہوئے رویے کی قدر نہیں کی۔ میجر امجد تو دوبارہ ملے نہیں کہ ان سے پوچھتے
لیکن ہوسکے تو آپ ہی مشورہ دیں کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
حادثات پیہم کا یہ مآل ہے شاید
کچھ سکون ملتاہے اب سکون کھونے سے
تحریر کرنل ضیاء شہزاد
|