پروفیسر محمد رفیع صاحب ہمارے دوست ہیں. وہ از روئے تفنن
اور محبت مجھے وائرس کہتے ہیں اور خود میں اینٹی وائرس انسٹال کرنے کی تگ و
دو میں رہتے ہیں. اور میں خود کو تعلیم یافتہ وائرس سمجھتا رہا. مگر کرونا
وائرس اتنا "شدید تعلیم یافتہ" نکلا کہ اس نے قسم کھا رکھا ہے کہ وہ صرف
اور صرف تعلیمی اداروں میں داخل ہوگا. کرونا وائرس کی طرف سے تعلیمی اداروں
کو موصول ہونی والے غیر مصدقہ خوشگوار دھمکی کے بعد پورے گلگت بلتستان میں
سرکاری اور پرائیوٹ تعلیمی ادارے ہفتہ بھر کے لیے بند کردیئے گئے. اور
امتحانات ملتوی کردیئے.
مجھے کرونا پر رشک آرہا ہے کہ یہ صاحب اتنا زیرک اور سمجھ دار ہے کہ پبلک
مقامات، بازار، اسٹیڈیم، دفاتر، پلے گرونڈ، عوامی اجتماعات غرض کسی اور جگہ
داخل ہونا نہیں چاہتا. اس وائرس نے اپنی انٹری کے لیے صرف اور صرف تعلیمی
اداروں کا انتخاب کرکے ویل ایجوکیٹڈ وائرس ہونے کا شرف حاصل کیا
ہے..پاکستانی قوم کی طرف سے اسے تعلیم یافتہ وائرس کا تمغہ ملنا چاہیے ہے
اور قانون سازی کرکے اس کو تعلیم یافتہ وائرس ڈکلیر کرنا چاہیے.
یہ میری تجویز ہوگی کہ کرونا کی تعلیم دوستی پر سیمنارز منعقد کرکے قوم کو
باور کرانا چاہیے کہ تعلیم اتنی اہم ہے کہ اس کے لیے صرف الہی تعلیمات اور
متمدن اقوام و ملل نے تاکید و محبت نہیں کی بلکہ وائرسوں نے بھی عملی اقدام
کیا ہے مگر یہ قوم اتنی بے حس ہے کہ نہ الہی تعلیمات و احکامات کو سیریس لے
رہی ہے، نہ متمدن قوموں سے سیکھ رہی ہے اور نہ ہی تعلیم دوست وائرس کو اپنی
درسگاہوں میں داخل ہونے دیتی. تو
احباب کیا کہتے ہیں؟
|