صرف ایک ڈالر کی سزا ۔ ۔ ۔ ۔
واہ،امریکہ واہ،دیکھ لیا تیرا انصاف ایک طرف چھیاسی سال اور دوسری طرف صرف
اور صرف ایک ڈالر کی سزا،دنیا میں امن وامان، حقوق انسانی اور انصاف و
قانون کے پھریرے لہرانے والے امریکہ،جس نے اپنے من پسند حق و انصاف اور
انسانی حقوق کی بالادستی کیلئے پوری دنیا کا امن تاراج کیا ہوا ہے،آج اُسی
حقوق انسانی کے عالمی چیمپین امریکہ کی عدالت انصاف پاکستانی ڈاکٹر عافیہ
صدیقی کو 86 سال کی سزا سناتی ہے، جس کا جرم مبہم اور سوالیہ نشان ہے،جبکہ
دوسری طرف وہی امریکی عدالت انصاف ملعون امریکی پادری ٹیری جونز جس نے قرآن
مجید کی بے حرمتی اور اُسے نذر آتش کرنے جیسے گھناؤنے اور سنگین جرم کا
ارتکاب کیا اور دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو
مجروح کیا،کو مشی گن میں واقع ایک مسجد(اسلامک سینٹر آف امریکہ) کے باہر
مظاہرہ کرنے کے منصوبے اور نقص امن کے خدشے کے پیش نظر صرف ایک ڈالر جرمانے
کی سزا سناتی ہے ۔
یہ ہے وہ امریکی عالمگیر انصاف جس کے ڈنڈورے پیٹے جاتے ہیں،دعوئے کیے جاتے
ہیں اور مثالیں دی جاتی ہیں،واہ،امریکہ واہ،دیکھ لیا تیرا انصاف.... ایک
طرف کمزور اور بے گناہ پاکستانی خاتون کیلئے چھیاسی سال کی سزا.... تو
دوسری طرف اپنے متعصب اور ملعون صلیبی شہری پر صرف ایک ڈالر جرمانہ..... یہ
ہے امریکی حقوق انسانی کا وہ اصل روپ جس کا امریکہ علمبردار بنتا ہے،یہ ہے
امریکی آزاد عدلیہ کی وہ حقیقی تصویر جس کی آزادی،بلند کرداری اور انصاف کے
دنیا بھر میں دعوئے کیے جاتے ہیں، ایک مسلمان اور بے گناہ پاکستانی کی سزا
86سال،جبکہ ایک عیسائی امریکی مجرم کی سزا صرف ایک ڈالر،سچ کہتے ہیں کہ جب
رعونت اور ناقابل تسخیر طاقت ہونے کا زُعم اپنی انتہا پر پہنچ جائے تو خوں
آشام طاقتیں الفاظوں کے معنی و مفہوم ہی بدل دیتی ہیں اور اپنی ایجاد کردہ
ڈکشنری میں امن و امان،عدل و انصاف،بلند انسانی اقدار،روشن خیالی،آزادی
اظہار،دہشت گردی اور جمہوریت کو منافقت اور دوغلے پن کے لبادے میں لپیٹ کر
نئے نئے مفہوم تخلیق کرتی ہیں،نائن الیون کے بعد امریکہ نے بھی ڈکشنری میں
لفظوں کے معنی و مفہوم بدل دیئے ہیں،آج عدل و انصاف،روشن خیالی،آزادی اظہار
اور بلند انسانی اقدار وہی ہے جسے امریکہ پسند کرتا ہے اور جو امریکی
مفادات و خواہشات کے عین مطابق ہے ۔
چنانچہ امریکی انصاف کی نظر میں ملعون پادری ٹیری جونز اور وین سیپ جس نے
فلوریڈا کے چرچ میں قرآن پاک کے نسخے پر(نعوذباللہ)مقدمہ چلایا،اپنے تئیں
”فرد جرم“ عائد کرتے ہوئے (نعوذباللہ) ”پھانسی“ کی سزا سنائی،پھر مٹی کی
تیل میں ڈبوکر اُسے (نعوذ باللہ) نذر آتش کرتے ہوئے سزا دینے کا اعلان کیا
اور جلتے ہوئے قرآن کے ساتھ تصویریں بنوائیں،کوئی جرم نہیں،نہ ہی وہ امریکی
قانون کی نظر میں مجرم ہے، اسی وجہ سے امریکی ذرائع ابلاغ نے آزادی بیان
اور انسانی حقوق کی حمایت کے دعوؤں کے باوجود ٹیری جونز کے اِس گھناؤنے جرم
پر خاموشی اختیار کی اور اس خبر کو نشر کرنے سے گریز کیا اور امریکی سفیر
کیمرون منٹر اسے انفرادی واقعہ قرار دے کر اپنی،اپنے ملک،اپنے معاشرے اور
ایک سپر پاور کی عالمی ذمہ داریوں سے دست کش ہو گئے،جبکہ دوسری طرف 23
ستمبر 2010 ءکو ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی نحیف وکمزور پاکستانی خاتون کو
امریکی عدالت نے سات مختلف مقدمات میں مجموعی طور پر 86 سال کی سزا
سنائی،جو انسانی تاریخ میں کسی بھی خاتون کو طویل ترین سزا ہے،جبکہ استغاثہ
جرم ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہا،دوران سماعت اُس نے خود اِس بات کو
تسلیم کیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے جس رائفل سے امریکی اہلکاروں پر حملہ
کیا،اُس رائفل کے چلے ہوئے کارتوسوں کے خول نہیں ملے،نہ ہی رائفل پر ڈاکٹر
عافیہ صدیقی کے انگلیوں کے نشانات مل سکے،استغاثہ نے یہ بھی قبول کیا کہ یہ
رائفل واردات کے بعد نشانات کے معائنے کیلئے محفوظ نہیں کی گئی بلکہ افغان
جنگ میں استعمال ہوئی ۔
لیکن مندرجہ بالا حقائق کے باوجود امریکی عدالت انصاف نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی
کو مجرم قرار دے کر دنیا میں امریکی عدل و انصاف کا بول بالا کر کے اپنا
اصل چہرہ بے نقاب کردیا،ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایک ایسے مقدمے میں سزا سنائی
گئی،جس کا کوئی وجود نہیں تھا،نہ رائفل پر انگلیوں کے نشانات تھے،نہ جائے
واردات پر گولی چلنے کے آثار،نہ کوئی شہادت اور نہ ہی کوئی گواہی،مگر
امریکی گواہی،شہادت اور انصاف نے ثابت کردیا کہ،وہی قاتل،وہی شاہد،وہی منصف
ٹھہرے....ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سنائی جانے والی سزا کتنی منصفانہ تھی،اس کا
اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سزا سنائے جانے کے بعد عدالت
میں ایک امریکی خاتون نے عدالتی فیصلے کے خلاف شیم شیم کے نعرے
لگائے،مظاہرے کی قیادت کی جبکہ بہت سے امریکی دانشوروں اور عوام نے اسے
ظالمانہ قرار دیا،اسی طرح ایک امریکی شہری فیصل شہزاد نیویارک میں پکڑا
گیا،پاکستان کو پیغام ملا کہ اگر اُس کا منصوبہ کامیاب ہو جاتا تو اسلام
آباد ہی نہیں پورے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی،کیوں؟ صرف اِسلئے
کہ فیصل شہزاد ایک آدھ بار پاکستان آیا تھا اور یہ کوئی معمولی جرم نہیں
تھا ۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ ڈنمارک کا کوئی ملعون کارٹونسٹ پیغمبر اسلام صلی اللہ
علیہ وسلم کا قابل اعتراض خاکہ بنائے یا امریکہ کا کوئی پادری قرآن مجید کی
بے حرمتی کرے،امریکہ و یورپ کا ردعمل یہی ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں ہر شخص کو
آزادی حاصل ہے اور ہم کسی کی آزادی کو محدود نہیں کر سکتے،لیکن اِس کے
برخلاف کوئی مسلمان جب اپنے ملک یا کسی دوسرے ملک میں اپنی آزادی پر اصرار
کرتا ہے، خواہ وہ آزادی اظہار ہو یا عقیدہ و عمل کی آزادی تو امریکہ و یورپ
کی اقدار و روایات خطرے میں پڑ جاتی ہیں، پوپ کو ادیان کے درمیان تصادم کا
خدشہ محسوس ہونے لگتا ہے اور اقلیتوں کے حقوق ستانے لگتے ہیں گویا مسلمان
اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں نہ تو اُن کے مذہبی حقوق ہیں اور نہ وہ اپنے
عقیدے اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے میں آزاد ہیں،کسی ایک مسلمان اور
پاکستانی کا انفرادی فعل بھی اسلام،مسلمانوں اور پاکستان کا اجتماعی جرم
قرار دے دیا جاتا ہے اور پھر وہ طوفان بدتمیزی برپا ہوتا ہے کہ الامان و
الحفیظ ۔
آج ملعون ٹیری جونز کا یہ انسانیت سوز اقدام اِسلئے انفرادی فعل ہے کہ وہ
امریکی شہری اور مسیحی پادری ہے،حالانکہ مذکورہ ملعون پادری نے اپنے بونے
قد کو اونچا کرنے اور سستی شہرت کے حصول کے لئے لعنت کا طوق اپنے گلے میں
ڈالا،اُس کا یہ عمل انسانی تاریخ کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے،ٹیری جونز آج
کے گلوبل ویلج کا وحشی قابیل ہے،جس نے فساد فی الا رض کا فتنہ برپا
کیا،لیکن نہ تو وہ مجرم ہے اور نہ ہی وہ انتہا پسندی کی انتہا ئی خطرناک
طرز کا موجد اور بانی،اُس کے اِس عمل کو انتہا پسندی تصور نہیں کیا گیا،
دنیائے عیسا ئیت کے سر براہ پوپ بینی ڈکٹ کی زبان اب تک گنگ ہے،حا لانکہ
ملعونہ آسیہ مسیح کے معاملے میں وہ سیخ پا تھے،حیرت کی بات ہے کہ نہ ہی
ویٹی کن سٹی نے کوئی بیان جاری کیا اور نہ ہی شیخوپورہ کی ایک عدالت کے
فیصلے پر انگاروں پر لوٹنے والے پوپ کو کسی قسم کی تشویش لاحق ہوئی،نہ تو
ویٹی کن سٹی اور امریکی انتظامیہ نے اُسے ایک نفسیاتی مریض اور غیر
متوازن،متعصب اور امن دشمن شخص قرار دے کر کوئی تعرض کیا اور نہ ہی اُسے
پادری کے عظیم روحانی منصب سے معزول اور چرچ سے بے دخل کر کے مسلمانوں کو
مطمئن کرنے کی ضرورت محسوس کی،کیوں اسلئے کہ سب کے دل ملعون صلیبی ٹیری
جونز کے ساتھ ہی دھڑکتے ہیں ۔ |