آج میرے ملک کے حکمرانوں،
سیاستدانوں اور اپوزیشن والوں نے اور بہت سے عوامی مسائل کے فوری حل جیسے
اقدامات اور احکامات پر جہاں دیدہ و دانستہ طور پر پردہ پوشی اختیار کرتے
ہوئے ہر معاملے پر اپنی انا اور خودغرضی کا خول چڑھا رکھا ہے تو وہیں اَب
عوام کے بہلاوے اور الجھاوے کے خاطر ملک میں نئے صوبے کی قیام کے خاطر صوبے،
مفروضے اور منصوبے....کے کُلیئے پر عمل کرتے ہوئے ایک ایسی سیاسی بحث شروع
کردی ہے جس کی آڑ میں اِن سب کا سوائے اپنی اپنی سیاسی چپقلشیں نکالنے کے
اور کوئی مقصد نظر نہیں آتا ہے۔
اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان مسلم لیگ
(ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کے بھائی اور وزیراعلی ٰ پنجاب میاں محمد
شہباز شریف کا ملک میں نئے صوبے بنائے جانے کے حوالے سے جب یہ واضح اور
دوٹوک موقف ایک بیان کی شکل سامنے آیا کہ ” کراچی کو بھی نیا صوبہ بننا
چاہئے ، ملک میں نئے صوبے کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ(ن)نئے صوبوں کی
مخالف نہیں ، اور نواز شریف کی وطن واپسی پر نئے صوبے بنانے سے متعلق جلد
جامع حکمت عملی طے کی جائے گی کہ” صرف پنجاب میں ہی نہیں بلکہ سندھ سمیت
ملک بھر میں صوبے بنے چاہئیں“۔ اِس طرح اِن کا اپنے اِسی بیان میں یہ کہنا
کسی بھی لحاظ سے درست معلوم نہیں دیتا ہے اور اِس بیان کے ساتھ ہمارے یہاں
کراچی سے کشمور تک ایک ایسے سیاسی بھونچال پیدا ہوجانا جس کو تھمنا ناممکن
دکھائی دیتا ہے بلکل ٹھیک ہے کیونکہ سندھ میں کسی نئے صوبے کی کوئی ضرورت
نہیں ہے جبکہ ایک عام خیال یہ ہے کہ پنجاب میں نئے صوبے کے قیام کی ضرورت
نکالی جاسکتی ہے اِس لحاظ سے آج پورے ملک میں اِن دنوں نئے صُوبے بنانے کے
حوالے سے ایک ایسی نئی بحث کا آغاز پورے زور و شور سے ہوچکا ہے جس کی لپیٹ
میں پورا ملک واضح طور پر دو مختلف سوچیں رکھنے والوں میں بٹا ہوا محسوس
ہورہا ہے اِن میں سے ایک کی سوچ میاں شہباز شریف جیسی ہے اور جبکہ دوسرے کا
خیال یہ ہے صرف پنجاب ہی میں نئے انداز سے صوبے سازی کا عمل پہلے شروع کیا
جائے پھر کسی دوسری جانب جانے کا ارادہ کیا جائے اِس بحث کے بارے میں اَب
صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ دیکھتے ہیں کہ یہ فضول کی چھیڑی گئی بحث کِدھر جا
کر رُکتی ہے ....؟جس سے متعلق مجھ سمیت کروڑوں پاکستانیوں کا یہ خیال ہے کہ
یہ بحث بھی معاہدہ بھورپن ، میثاقِ جمہوریت ، این ایف سی ایوارڈ اور
اٹھارویں ترمیم کی طرح کئی مہینوں اور سالوں کے بعد کسی ایک نقطے پر جاکر
رک جائے گی اور پھر وہی ہوگا جو ہونا چاہئے ....؟اور کیا ہوناچاہئے بہرحال!
یہ تو اِنہیں بھی خود نہیں پتہ ہے جنہوں نے یہ بحث چھیڑی ہے ...کہ اِس کا
نتیجہ کس شکل میں سامنے آئے گا....؟
اَب چوں کہ ابھی اِس بحث کی شروعات ہے سو اِس لئے یہ کسی کو بھی نہیں معلوم
....ہے کہ اِس کا کیا حشر ہوگا ...؟اور یہ بحث کب تک چلتی ہے ....؟اور نہ
ہی اُنہیں کچھ پتہ ہے جنہوں نے اِس بحث کو چھیڑا ہے....؟ اور نہ ہی اِنہیں
کچھ علم ہے جنہوں نے اِس بحث میں حصہ لے کر اِسے اپنی جذباتیت سے طول دیا
ہے یعنی یہ کہ مجھے اِس موقع پر یہ کہنے دیجئے کہ ملک کے ساڑھے سترہ کڑور
عوام کے درینہ مسائل جن میں سرِ فہرست توانائی ، بے روزگاری، مہنگائی ،اور
کرپشن شامل ہیں اِن سے نجات دلانے کے بجائے ہمارے حکمرانوں اور اپوزیشن نے
عوام کو صوبے ،مفروضے اور منصوبے کی بحث میں کیوں اُلجھا دیا ہے یہ بھی
عوام خوب جانتے ہیں کہ اِن دونوں نے مل کر جیسے حکومت کے پچھلے تین سال یوں
ہی گزار دیئے ہیں ویسے ہی یہ اَب بھی مل کر آئندہ کے دو سال بھی ایسے ہی
گزار دیں گے اور اَب عوام بیچارے حکمرانوں کی صوبے بنانے کی سیاسی چکربازی
میں پھنس کر اپنے مسائل کی چکی میں پستے رہیں گے۔
جیسا کہ گزشتہ دنوں پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سینئر رہنما اور سینیٹر پرویز
رشید کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئی جس میں اُنہوں نے دیدہ دانستہ طور پر
اپنے اِس انکشاف سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ ”ملک میں نئے صوبے بنانے
کے سلسلے میں بحث کا آغاز وزیراعلی ٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے از خود
نہیں کیا بلکہ نئے صوبوں کے قیام کے سلسلے میں ملک میں چھیڑی جانے والی بحث
کا باقاعدہ آغاز تو سب سے پہلے حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق
رکھنے والے ملک کے سب زیادہ طاقتور ترین صدر عزت مآب جناب آصف علی زرداری
نے کیا تھا اور پھر اِن کے بعد اِن کی اِسی بات کی تائید میں ہمارے ملک کے
(اِنتہائی جاذب نظر) وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی کرتے ہوئے کہا
تھا کہ ملک میں نئے صوبے بننے چاہئیں اور اِس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے
رہنما نے یہ کہہ کر اِس اِبہام کو بھی دور کرنے کی کوشش کی کہ اَب ملک میں
نئے صوبے کے حوالے سے موجودہ صورتحال میں با قاعدہ بحث کا آغاز تو قاف لیگ
اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے نئے صوبے بنانے کے سلسلے میں اپنے اپنے
بیانا ت داغ کر کیا ہے۔
اگرچہ اِس موقع پر میرا یہ کہنا ہے کہ اِس منظر اور پس منظر کے تناظر میں
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر پرویز رشید بھی پنجاب میں نئے صوبے بنانے کی بحث کو
مزید طول دے گئے ہیں اور اُنہوں نے اپنی پارٹی کے سربراہ کا موقف جانے بغیر
یہ تک کہہ دیا کہ صرف پنجاب میں ہی نئے صوبے بنانے کی بحث کو محدود نہ کیا
جائے بلکہ کراچی سمیت پورے ملک میں نئے صوبے بنائے جائیں تو پاکستان مُسلم
لیگ (ن)کو کوئی اعتراض نہیں ... اور اپنی اِسی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے
پرویز رشید نے اِس پر بھی زور دیتے ہوئے برملا کہا کہ صرف جنوبی پنجاب میں
ہی نہیں بلکہ سندھ بھر میں بھی نئے صوبے بننے چاہئیں۔جس سے اَب یقینی طور
پر کہا جاسکتا ہے کہ ن لیگ پنجاب میں نئے صوبے بنانے کی مخالف نہیں ہے
بشرطیکہ پنجاب کے علاوہ سندھ میں بھی صوبے بنائے جائیں ۔
جبکہ اِس حوالے سے یہاں یہ امر قابلِ سیاسی لحاظ سے قابلِ غور اور سمجھنے
والوں کے لئے کافی ہے کہ سندھ سے تعلق رکھنے والی جماعتوں پاکستان پیپلز
پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور اے این پی سمیت دیگر جماعتوں نے
کراچی کو وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کے مشورے پر صوبہ بنانے کی
تجویز پر اپنے ردِعمل کو انتہائی کڑوے جملوں ،مگر سیاسی فہم وفراست اور
تدبر کے ساتھ کچھ اِس طرح مسترد کردیا کہ ”کراچی سندھ کا حصہ ہے اور رہے گا،
سندھ میں کراچی کی شکل میں الگ صوبہ بنانے کی ضرورت نہیں ،جبکہ پنجاب ملک
کا ایک بڑا صوبہ ہے، وہاں نئے صوبوں کا مطالبہ ہونا درست ہے ، یہاں نہیں،
کراچی میں رہنے سندہ کی اِن جماعتوں کا یہ واضح اعلان تھا کہ کراچی والوں
کا جینا مرنا سندھ کی دھرتی کے ساتھ ہے، اور کراچی کے عوام نے ایسا کوئی
مطالبہ کبھی نہیں کیا جیسا وزیراعلیٰ پنجاب اپنی سیاست چمکانے کے لئے کر
رہے ہیں اور یہ وہ الفاظ ہیں جو سندھ میں نئے صوبے کے حوالے سے سُنہرے
حرفوں میں لکھے جانے کے قابل ہیں کہ سندھ میں بسنے والی قوم پرست جماعتیں
سندھ میں کسی نئے صوبے کے حوالے سے ایک انچ تقسیم بھی برداشت نہیں کریں گیں۔
اور اَب جبکہ سندھ کی قوم پرست جماعتوں کے اِس زبردست ردِعمل کے سامنے
آجانے کے بعد میرا خیال یہ ہے کہ صرف پنجاب اور سندھ میں ہی کیا پورے ملک
میں کسی نئے صوبے کے حوالے سے چھیڑی جانے والی اِس بحث کو جلد ختم کردیا
جائے تو بہت بہتر ہوگا ورنہ اِس کے ایسے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے کہ جس
کا شائد خمیازہ ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے۔اور اِس کے ساتھ
ہی میرا اپنے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اپوزیشن کو ایک خیال کی صورت میں
ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ اِن دنوں ملک کے عوام کے لئے نئے صوبوں کے قیام سے
کہیں زیادہ اِن کے اُن مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے جن کے فوری حل کے خاطر
اگر ہمارے حکمران، سیاستدان اور حزب اختلاف والے سب ہی مل کر کوششیں کریں
تو کوئی ہرج نہیں کہ اِن مسائل سے عوام کو نجات بھی مل جائے جن سے چھٹکارے
کے خاطر عوام نے اِن کے کاندھوں پر ذمہ داریاں ڈالی ہیں اور یہ سب کے سب
عوام کو نئے صوبے بنانے کے مفروضے اور منصوبے میں الجھا کر عوام کی
پریشانیوں میں اضافہ کرنے کے بجائے اِن کے مسائل حل کریں تو موجودہ چار
صوبوں کو ہی ٹھیک طرح سے چلایا جاسکتا ہے اور ملک میں کوئی نیا صوبہ بنانے
کی کوئی ضرورت نہیں .....کیونکہ آج میرے ملک میں نئے صوبے کی ضرورت اِس ہی
لئے پیش آرہی ہے کہ حکمرانوں کی نااہلی اور سیاستدانوں کی سیاسی چپقلش اور
حزب اختلاف کی ایوانوں میں غیرمعیاری کارکردگی کے باعث صوبوں کے درمیان
امتیاز برتنے کی شکایات عام ہوتی جارہی ہے کوئی بڑا صوبہ ہونے کے ناطے ہر
معاملے میں زیادہ حصہ مانگتا ہے تو کسی کو اِس وجہ سے یہ محسوس ہونے لگتا
ہے کہ بڑے صوبے کو زیادہ مل جانے سے اِس کی حق تلفی ہوئی ہے .....اور جب
کسی بڑے صوبے کی وجہ سے دوسرے صوبوں کے درمیان مایوسی کا ایساعنصر غالب
آناشروع ہوجائے تو پھر یہی کچھ ہوتاہے جیسا اِن دنوں ہمارے یہاں شروع ہوچکا
ہے ویسے بھی بقول شاعر،
اِن دنوں ہیں قُوم کے ذہنو ں میں مفروضے بہت
آج آزادی کے طالب ملک کے صُوبے بہت
پایہ تکمیل کو پہنچیں نہ پہنچیں دوستوں
فائلوں میں تو نظر آتے ہیں منصوبے بہت
اور اَب میں اپنے کالم کے اختتام پر چند اشعار اِن حکمرانوں ، سیاستدانوں
اور اپوزیشن والوں کے لئے پیش کر کے اجازت چاہوں گا جو کسی نہ کسی حوالے سے
ملک میں نئے صوبے بنانے کے مفروضے اور منصوبے کی فکر میں ہیں تو اِن سب کے
لئے عرض ہے کہ
ہمارا مقصد قومی ہے اتنا
کہ رشتے قومیت کے ہوں نہ کم زرو
وگر نہ یہ تو ضمنی مسئلہ ہے
کہ وَن یونٹ بنے یا ٹو تھری، فور
***
ہم مسلماں ہیں ہمیں اسلامیت پہ ناز ہے
آدمیت پر ہمیں اِنسانیت پر ناز ہے
ایک وہ ہیں جن کو ہے صوبہ پرستی پر غرور
ایک ہم ہیں جن کو پاکستانیت پر ناز ہے
***
مُسلماںبھائی بھائی ہیں وہ کالے ہوں کہ گورے ہوں
یہی توصیفِ ایمان ہے، یہی قرآں کی تفسیریں
یہی رمزِ اخوت ہے، یہی رسم ِ محبت ہے
لہو پنجاب کا ٹپکے اگر سرحد کا دل چیریں
***
اِس قدر صوبہ پرستی بڑھ گئی
ہر قدم عصبتیں پیدا ہوئیں
”ملک سے ملت بنی ملت سے قوم
قوم سے قومیتیں پیدا ہوئیں
***
آپ دیتے ہیں جسے صُوبوں کی آزادی کا نام
سَالمیت کے لئے وہ پُرخطر طوفان ہے
ہے یہ قتلِ آدمیت ، یہ اُخوت کا ہے خوں
مرکزیت کے لئے یہ موت کا فرمان ہے
***
صُوبہ پرستیوں کو مِٹانے میں خیر ہے
دل کی کدُورتوں کو مِٹانے میں خیر ہے
سَر کو دَرَ وفا پہ جھکانے میں خیر ہے
ماضی کی تلخیوں کو بُھلانے میں خیر ہے
***
تعصب کی ھر اِک شمع کو بُجھا دو
علاقائی فصیلوں کو گِرادو!
دیارِ پاک کے ھر بام ودَر کو
محبت کے گلابوں سے سَجادو |