کامران اکمل بلاشبہ پاکستانی
کرکٹ کا ایک بڑا نام ہے۔اس کی پاکستانی کرکٹ کے لئے بڑی خدمات ہیں۔یوں تو
پاکستانی کرکٹر کی اکثریت ہی گلی محلوں سے سیکھ کر اور وہیں کھیل کر کرکٹ
کے بڑے میدانوں میں پہنچی اور وہاں اپنا سکہ جمایا ہے لیکن اکمل برادران کو
لاہور کی فردوس مارکیٹ کے عقب کی وہ گلیاں ابھی بھی یاد ہوں گی جہاں انہوں
نے اپنا بچپن اسی طرح گزارا جس طرح کثیر العیال والدین کی اولاد اکثر گزارا
کرتی ہے۔اچھے کھیل کے بعد اس پہ اچھے بزنس مین ہونے کا الزام بھی لگا ۔یہ
تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ حاضر سروس کرکٹر کا سب سے بڑا کاروبار کون سا
ہوتا ہے۔جی نہیں وہ "وینا ملک" والا نہیں وہ تو کسی کسی کا چھکا لگتا ہے۔جس
کاروبار کی میں بات کر رہا ہوں اس کا تعلق کتاب اور صاحب کتاب یعنی بک اور
بکیوں سے ہے۔اکمل برادران کے لاہور میں بننے والے پلازے گواہ ہیں کہ انہوں
نے جو مال بھی بنایا حق حلال کی کمائی سے بنایا اور اس میں اہل کتاب کی
کوئی "کنٹری بیوشن "بالکل بھی نہیں۔الزام تو خیر اس بھوکے ننگے سماج میں
بھلا کون ہے جس پہ نہیں لگا۔لیکن کامران نے جس خوبصورتی سے اپنے دوسرے دو
بھائیوں کو بھی کھیل کے میدان میں" ان "کیا ہے اس سے مجھے سیاست کے میدان
کا کامران اکمل رہ رہ کے یاد آتا ہے۔
جس طرح کامران اپنے ماں باپ کا سائیں لوک بیٹا تھا اسی طرح وہ بھی سائیں
لوک ہی تھا۔جس طرح کامران غریب کو محفل میں اپنے دانتوں کا دھیان لگا رہتا
ہے اسے بھی اپنے گورے چٹے رنگ سے پریشانی لاحق رہا کرتی تھی۔کامران شرمیلا
ہے پر وہ اتنا شرمیلا تھا کہ پہلی دفعہ جب لوہے کی بھٹی سے نکل کے وہ پنجاب
کی ایک وزارت کا حلف اٹھانے آیا تو پسینہ اس کے کشمیری سیب ایسے گالوں سے
یوں بہہ رہا تھا گویا کسی نے پانی کا کوئی نل کھول دیا ہو۔پھر جس طرح اپنے
کیرئیر کے ابتدائی دنوں میں کامران نے اپنے کھیل کا جادو جگایا بالکل اسی
سٹائل میں اس نے بھی وہ حکومتی چوکے چھکے لگائے کہ اس کے مربی نے اپنی باقی
عمر اسے لگنے کی دعا دے دی۔کامران بھی وقت کے ساتھ ساتھ میچور ہوتا گیا اور
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کامران کے علاوہ کرکٹ میں کسی اور وکٹ کیپر کا
تصور بھی محال تھا بالکل اسی طرح وہ بھی سیاست میں یوں کامران تھا کہ اسے
پاکستان کی پہلی دو تہائی اکثریت والی اسمبلی کا قائد ایوان چنا گیا۔
اس کامیابی و کامرانی کے بعد کامران اکمل نے جس طرح کھیل سے زیادہ کھیل کے
باہر کے دوسرے معاملات اپنی توجہ مبذول کرنا شروع کی اسی طرح موصوف نے بھی
بجائے سیاست کرنے کے آمریت کے مزے لینے شروع کر دئیے۔ایک آرمی چیف کو گھر
بھیجا۔اس آرمی چیف کو جس نے اس کے ساتھیوں کی طرف سے سپریم کورٹ پہ حملے کو
بھی ٹھنڈے پیٹوں ہضم کر لیا تھا۔اس کے بعد میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ایک
ایسے شخص کو آرمی چیف بنایا جس سے زیادہ سنیئر اور قابل افسران موجود
تھے۔جس کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ اس کا چونکہ کوئی آگا پیچھا نہیں ہے
اس لئے وہ ہاتھ باندھے میری غلامی کرتا رہے گا۔پاکستان میں چیف کے بیجز اگر
مٹی کے کسی مادھو کو بھی لگا دئیے جائیں اور فوج اسے ایک دفعہ سلیوٹ کر لے
تو پھر وہ چیف ہوتا ہے اور فوج اپنے چیف کی کسی بھی طرح کی توہین برداشت
نہیں کرتی۔ فوج کے سینے میں پہلے چیف ہی کی غیر روایتی طریقے سے برطرفی کا
زخم ابھی تازہ تھا کہ سائیں لوک نے اپنے ہی منتخب کردہ چیف کو بھی ہوا میں
اڑا کے رکھ دیا اور اپنی طرح کے ایک اور سائیں لوک جنرل کو فوج کا سربراہ
بنا دیا۔ جنرل سائیں لوک اس لئے تھا کہ وہ بھی جانتا تھا کہ فوج اسے کبھی
اپنا چیف تسلیم نہیں کرے گی لیکن اس کے باوجود اس نے اپنی بنی بنائی عزت کا
اپنے ہی ہاتھوں تیا پانچہ کر ڈالا۔
جس طرح کامران اکمل نے اہم میچوں میں کیچز ڈراپ کر کے پاکستان کرکٹ کی لٹیا
ڈبوئی بالکل اسی طرح ہمارے ممدوح نے بھی بم کو لات مار کے ملک کو گیارہ
سالہ آمریت کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔ چند دن یہاں وہاں رونے پیٹنے کے بعد
لمبے صندوقوں کے ہمراہ خود تو سرور پیلس میں سرور لینے لگے اور ملک میں ان
کی نالائقی کی بنا پہ در آنے والی رات گہری سے گہری ہی ہوتی چلی گئی۔ون مین
شو ہماری ساری عزت غیرت سب کچھ نگل گیا اور ہم نے اس کی عاقبت نا اندیشیوں
کی یوں سزا بھگتی کہ پورا ملک ہی داؤ پہ لگ گیا۔بم دھماکے، ڈرون حملے روز
کا معمول بن گئے۔ہم نے اپنے اوپر ایک ایسی جنگ مسلط کر لی جس کا کچھ بھی
ہمارا اپنا نہیں تھا۔پھر جب اس جنگ نے بچے جننے شروع کئے ملک ٹوٹتا نظر آنے
لگا تو ہم نے اس طرف دھیان دینا شروع کیا ۔یہ دھیان ان طاقتوں کو پسند نہیں
آیا جو ہم سے یہ جنگ لڑوا رہی تھیں۔انہوں نے ہی پھر سسٹم بدل کے نام نہاد
جمہوری طاقتوں کو واپس لانے کا منصوبہ یوں بنایا کہ اب لوگ آمر سے تنگ آ
چکے تھے۔یوں سائیں لوک کی بھی لاٹری نکل آئی۔اور یہ بھی دوبارہ اپنے
صندوقوں اور بغچوں کے ساتھ واپس تشریف لے آئے۔
اپنی مانگی ہوئی جلاوطنی کے دوران یہ میثاق جمہوریت جیسی کچھ چولیں مار کے
یہ سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے میدان مار لیا حالانکہ دوسری طرف میثاق
جمہوریت پہ دستخط کرنے والے آمر کے ساتھ بھی ایک میثاق طے کر رہے تھے۔پہلے
تو سائیں لوک یہ بات ہی ماننے کو تیار نہ تھا اور جب یہ بات کو بکو پھیل
گئی تو بھی حضرت شب دیگ کے مزے لیتے رہے اور ادھر این آر او ہو گیا۔بی بی
اپنے معاہدوں سے نہ پھرتی تو سائیں لوک کو الیکشن کے بعد لگ پتہ جاتا ۔لیکن
بی بی نے عوام کا موڈ جان لیا تھا کہ بی بی پائے اور لسی سے پرہیز کیا کرتی
اور آنکھیں اور کان کھلے رکھتی تھی۔یہ جرم اتنا بڑا تھا کہ وہ غریب اپنی
جان سے گئی۔ اسی کے ساتھ سیاست کی پاکستان سے چھٹی ہوئی اور چھٹے ہوئے
سوداگر پاکستان پہ مسلط ہو گئے۔ذرا نظر دوڑائیے اور انصاف سے بتائیے کہ کون
ہے جو اب اس بازار میں سودابازی میں مصروف نہیں۔کیا لسانی پارٹیاں کیا
مذہبی اور کیا علاقائی سبھی اپنا اپنا حصہ وصولنے کے چکر میں نہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی سیاست کے کامران اکمل کی۔اس کے بعد یہ سائیں لوگ صرف اس
امید پہ ہر کیچ ڈراپ کرتا گیا کہ اس کے بعد میری باری ہے۔یہ موضوع ایک پوری
کتاب کا متقاضی ہے کہ سیاست کے اس کامران اکمل نے کہاں کہاں اور کیسے کیسے
کیچز ڈراپ کیے۔ان کے اپنے گھر میں عمران اب ان سے زیادہ ووٹ لیتا ہے۔ ہزارہ
جو خیبر پختون خواہ میں ان کی جاگیر سمجھا جاتا تھا وہاں ان کے ٹکٹ ہولڈرز
اب عوام میں نکلتے خوف محسوس کرتے ہیں کہ لوگ انہیں جہاں پاتے ہیں برائی کی
طرح ختم کرنا چاہتے ہیں۔جس طرح کامران اکمل کو عمر اکمل نہیں بچا سکا اور
آخر اسے کھیل سے باہر ہونا پڑا۔ اسی طرح ہمارے سائیں لوک کو بھی اس کا
بھائی سیاست میں کب تک بچائے گا۔سائیں لوک! ہم تیرے دیوانے تھے تو نے ہمیں
بہت مایوس کیا۔اب یہ ہزارے وال ہی نہیں ملتان کا جاوید ہاشمی بھی کہتا
ہے۔لگتا ہے جاوید ہاشمی آخری کیچ ہو گا جسے سائیں لوک ڈراپ کرے گا اس کے
بعد کھیل ختم اور پیسہ البتہ اس دفعہ ہضم نہ ہو پائے گا۔پیسہ تو اس دفعہ
پیٹ چیر کے سنا ہے وصولنے کی تیاریاں عروج پہ ہیں۔ |