خوش فہمی کے موسم

سبزعینک لگاکر دیکھنے سے سبزہ گل نہیں اگتے،خوش حالی پکارنے سے خوشحالی نہیں آتی،”نظام بدل دیں گے”نعرہ لگانے سے کب بدلا ہے نظام’اچھاہے یہ نعرہ،لیکن بے جان لفظ ہیں یہ سب، جب تک فراہم نہیں ہوجاتے۔انصاف ،انصاف کی گردان بے اثررہتی ہے۔ عدالتوں میں انصاف نہ ملے یاملنے میں اس قدرتاخیر ہوجائے کہ مدعی خاک ہو جائیں توحقوق انسانی کتابوں میں د رج رہ جاتے ہیں چاہے آبِ زر سے لکھے ہوں اورانسان خاک بسرہوں۔ خواب،خواب رہتاہے جب تک تعبیرنہ پائے۔ خواہش، تمنا ہی رہتی ہے جب تک آسودہ نہ ہوجائے۔ الفاظ کی بازی گری، تقریروں کاسرکس اور اچھلتے کودتے مسخرے،بس جی بہلانے کے لئے تواچھاہے لیکن جی کے بہلنے سے کب بدلاہے کچھ ۔

چلتے پھرتے مسخروں کی اچھل کود کودیکھئے اورجی بہلائیے۔ اتنے سارے مائیک دیکھتے ہی غبارے کی طرح پھول کرکپا ہوجاتے ہیں اورپھر دیکھتے اوردیکھتے چلے جائیے۔ جناب لوگوں کوروٹی چاہئے،گزربسرکیلئے روزگاردرکار ہے ،انصاف چاہئے ،بدل دیں گے ہم نظام، کٹ مریں گے ہم اپنے عوام پر،پہاڑچھید کردودھ کی نہریں نکالیں گے،اپنے خون سے سینچ دیں گے یہ گلشن،”اگراقتدارمیں آکرپہلے چھ مہینے میں ظالمانہ نظام کاخاتمہ نہ کیا تومجھے حکومت کرنے کاکوئی حق نہیں” وغیرہ وغیرہ لیکن اپنے نام کی تختیاں توہرروزنصب ہورہی ہیں لیکن ترجیحات بالکل ہی تبدیل ہوگئی ہیں۔کوئی سرپھراسوال کربیٹھے کہ جناب ایسے کیسے بدلے گانظام،کیا خالی خولی لفظوں سے پیٹ بھریں گے؟توپھر رعونت سے تنی گردن ذراسی خم ہوتی ہے:”جناب آپ دیکھتے جائیں”یہی تودیکھ رہے ہیں۔عوام جودل میں سوچ رہے ہوں قیادت اسے بھانپ لیتی ہے اوراس کانہ صرف اظہارکرتی ہے بلکہ خودکواس کانمونہ بناکرپیش بھی کرتی ہے۔

عوام کیاچاہتے ہیں اوروہ پکارپکارکرتھک گئے ہیں۔ چیخ چیخ کران کے گلے بیٹھ گئے ہیں لیکن کون سن رہاہے،ان کے دل کی پکار!بس اپنی کہے چلے جاتے ہیں۔انہیں سامنے کی چیزنظرنہیں آتی۔ہم ان سے بصیرت اورفراست کے طلبگار ہیں۔اندھوں سے بلندنگاہی کے طلبگار …سخن دلنوازتوتب ہوجب آپ میں اخلاص کا دریا بہہ رہا ہو ۔ جاں پرسوز کو رہنے دیجئے،یہ تو بہت مقامِ بلند ہے،بہت کٹھن ہے… سوز تودل کا جوہر ہے ، یہاں دل ہی نہیں توجوہرکی تلاش کے کیا معنی!

یہ سوہنی دھرتی جہاں بچے گٹروں میں گرکرمرجاتے ہیں اورمزدورایڑیاں رگڑرگڑ کر،جہاں خودکشیاں دکھوں کامداوا بن جائیں،خاک بسر اپنے لختِ جگرکے گلے میں برائے فروخت کابورڈ لٹکائے سڑک پرکھڑے ہوں،جہاں بیمارہسپتالوں میں دم توڑرہے ہیں،جہاں زندہ لوگوں کومردہ خانے میں رکھ دیاجائے،جہاں جعلی ادویات کے بیوپاری انسانوں کوموت کے گھاٹ اتار رہے ہوں،نوجوان سڑک چھاپ رہے
ہوں ،جہاں مظلوم قید اور ظالم آزادہوں،جہاں دین کو بھی تجارت بنا لیاگیا ہو،جہاں پرظلم کے نظام کی حکمرانی ہواوروحشت رقص کناں، جہاں دانشوری اپنے محلات میں محوآسائش وآرام ہواورآنکھ کھلتے ہی تبدیلی تبدیلی پکارنے لگے۔ایسے خوش فہمی کے موسم میں ہم جی رہے ہیں۔ہمارے ہاتھوں میں تبدیلی کےسازہیں اورہم انہیں بجارہے ہیں۔ہمارے ہاتھ تالیاں پیٹ پیٹ کرلہولہان ہوگئے ہیں۔ ہمارے خواب روٹھ گئے ہیں۔اب ہمیں چاندبھی روٹی نظرآتاہے۔مہنگائی نے جینادوبھرکردیاہے، آٹا ،بجلی،پانی ہمارا وظیفۂ جاں ہے ۔ایسے میں جب کوئی اپنی لاکھوں کی گاڑی میں بیٹھ کرہاتھ ہلاکرانقلاب کانعرہ لگائےتوہم دیوانوں کی طرح اس کے پیچھے دوڑنے لگتے ہیں۔کوئی بے روزگارنوجوان وزیر اعلیٰ کی گاڑی کے پیچھے جیوے جیوے کانعرہ لگاتے ہوئے دوڑرہاہوتوپولیس کے ہتھے چڑھ کرپٹتاہے اورسلاخوں کے پیچھے دھکیل دیاجاتاہے۔ کیایہی ہےانقلاب؟جن چہروں کوہم روزانہ ٹی وی اسکرین پرمائیک کے پیچھے سے ارشادفرماتے سنتے ہیں،ایسے چہرے کب تبدیلی لائے ہیں! اداکاراچھے ہیں،ہرکردارمیں ڈھل جاتے ہیں۔خوب مزے اڑاتے ہیں،ڈیل ڈیل کرکے پاک پوتربن جاتے ہیں اوراشراف کہلاتے ہیں۔ہم اورآپ سادہ ہیں یابے وقوف؟سادگی تواچھی خوبی ہے لیکن بے وقوفی؟چلئے رہنے دیتے ہیں۔ذراسوچئے تھوڑی دیرکے لئے ہی سہی،سراب کو پانی سمجھنے والوں نے کب فلاح پائی ہے؟دھوکاہی دھوکا،فریب … … … سب کچھ بکاؤ…… سب کچھ۔ دنیابھی دین داری بھی۔

وہ جواقتدارکے حصول کیلئےپاکستان میں آزمودہ گھسے پٹے سیاسی چہروں کو ساتھ ملا کرتبدیلی کادن رات نعرہ لگاکر قوم کی نوجوان نسل کونت نئے خواب دکھا کر ہلکان ہوئے جارہے ہیں،اپنی جماعت میں انتہائی شریف النفس ایماندار قانون دان ریٹائرڈ جسٹس وجیہ الدین صاحب کو محض اس لئے برداشت نہ کرپائےکہ انہوں نےاپنی ہی جماعت کے بدعنوان عناصر کی نشاندہی کی اوربالآخرانہوں نے مستعفی ہوکراس تبدیلی سے اپنی جان چھڑالی اورموصوف اب بھی ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کیلئے آئے دن اورعوام کے کمزورحافظے سے خوب فائدہ اٹھاتے ہوئےمختلف شہروں کے نظام کوتلپٹ کرنے کیلئے بڑی دلیری سے دندناتے پھررہے ہیں۔

اگرآپ اسی میں خوش ہیں توپھرروتے کیوں ہیں؟ہنسیں،کھیلیں،موج اڑائیں۔اسے ہی اگرزندگی کہتے ہیں توموت کو کیا کہتے ہیں؟عزتِ نفس کیاہوتی ہے؟حقوقِ انسانی کیاہوتے ہیں؟آزادی کیاہوتی ہے؟خودمختاری کی تعریف کیاہے اوریہ جمہوریت کس بلاکانام ہے کہ جب بھی حکمرانوں کوان کے انتخابی وعدے یاددلائیں توجمہوریت پرلرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ اب یہ توآپ ہی مجھے بتائیے کہ جمہوریت کی کیاخوبیاں ہیں، میں تودورِجدید کی نئی لغت سے ناآشناہوں۔ویسے بھی قصر سفیدکے فرعون ٹرمپ کے دورہ ہندکے دوران مسلمانوں کے خون سے جوہولی کھیلی گئی اس نے سفاک وفاشسٹ برہمن کی جمہوریت کاپول کھول کررکھ دیااورہماراجمہوری روّیہ اب تک منہ میں گھنگھنیاں ڈالے ہماری بزدلی کامظہر بن کرہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی پرمہرثبت کرچکاہے۔
دلوں کومرکزِمہرووفاکر
حریمِ کبریاسے آشناکر
جسے نانِ جویں بخشی ہے تونے
اسے بازوئے حیدربھی عطا کر

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355768 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.