اس دھرتی پرانسانیت واقعی کب کی مرچکی ہے۔یہاں صداقت ،شجاعت
،سخاوت اورعدالت کے بھاشن دینے والے انسان توبہت ۔مگرانسانیت ۔۔؟انسانیت
نام کی کوئی شئے نہیں۔کسی مرے ہوئے کومارناکوئی ہم سے سیکھے۔2005کے قیامت
خیززلزلے کے دوران بھی جہاں زلزلے کے جھٹکوں اوراﷲ کے خوف سے درودیوارہل
رہے تھے اورزمین تھرتھر کانپ رہی تھی اس وقت بھی انسانیت پرسوسوگھنٹے
لیکچر،درس وبھاشن دینے والے ہمارے جیسے یہ انسان دوسروں کاحق مارکرانسانیت
کے ،،مردہ،،جسم کوغسل دینے میں مصروف تھے۔انسانیت کاجنازہ کب اورکس طرح
پڑھناہے۔۔؟یہ طریقہ بھی ہم سے بہتراورکون جانے۔۔؟ کھائی کے قریب ٹھوکریں
کھانے والے انسان کو اوندھے منہ کھائی میں گرانانہ صرف ہمارے بائیں ہاتھ
کاکام ہے بلکہ کسی دکھ،درد،تکلیف سے کراہنے اورمشکل سے گزرنے والے انسان
کولوٹنااورکاٹناہماری پرانی عادت بھی۔ہاتھ میں تسبیح اورکندھے پرجائے
نمازرکھ کرہم اس انتظارمیں بیٹھے رہتے ہیں کہ اﷲ کرے کوئی
مجبوری،لاچاری،مشکل یاکوئی پریشانی ہمارے کسی بھائی کوآن گھیرے تاکہ پھر ہم
ساری کسرنکال اپناالوسیدھاکرسکیں۔مردے کوتوہم کندھادیتے ہیں لیکن کسی زندہ
انسان کاہاتھ پکڑناہمیں گوارہ نہیں۔ہم چوبیس گھنٹے تسبیحات اورپانچ وقت
نمازتوپڑھتے ہیں لیکن کسی انسان کی مجبوری،لاچاری اورپریشانی کے وقت
پھرہمیں انسانیت یادرہتی ہے نہ پھرخدایادآتاہے۔ہمارے مذہب اوردین میں بھوکے
کوکھاناکھلانا،پیاسے کوپانی پلانااورکسی ننگے کاجسم ڈھانپناثواب کہلاتاہے
لیکن ہم جب کسی کوبھوکادیکھتے ہیں توکھانامہنگاکردیتے ہیں ۔ہمارے سامنے
کوئی پیاساآئے توہم پھر پانی کوشہداوردودھ کے درجے تک پہنچادیتے ہیں ۔جنازوں
کوکندھے ہم خوشی سے دیتے ہیں لیکن سامنے کوئی تڑپ تڑپ کرجان دے رہاہوہم اس
کے منہ میں پانی کاایک گھونٹ بھی نہیں ڈالتے۔ 2005کے زلزلے کے دوران جب
اموات زیادہ ہوئیں توہم نے توبہ اوراستغفارکرنے کی بجائے فوراً کفن کی
قیمتیں بڑھادیں ۔کل تک مارکیٹ میں پانچ اوردس روپے کاجوماسک مل
رہاتھا۔کروناوائرس کی وجہ سے اس کی قیمت آج ہم نے دوسے تین سوروپے تک
پہنچادی ہے۔اس ملک اوردھرتی پرکوئی مجبوری یاکوئی مجبورہواورہم اس کاغلط
فائدہ نہ اٹھائیں یہ ہوہی نہیں سکتا۔شادی بیاہ ،رمضان،عیداوردیگرمذہبی
تہواروں کے موقع پراپنے مجبوربھائیوں کولوٹنااورکاٹناتوہم پہلے ہی ثواب
سمجھتے تھے لیکن اب غم،سانحہ،حادثہ،وباء اورکسی زمینی وآسمانی آفت کے موقع
پربھی مجبوروں کی مجبوری سے غلط فائدہ اٹھانے کوہم نے ثواب کے درجے تک
پہنچادیاہے۔ ہماری پوری تاریخ مجبورکومزیدمجبورکرنے سے بھری پڑی ہے۔ایک
چیزکی کوئی قیمت ہوگی اورنہ ہی وہ ہمارے کسی کام کی لیکن جب ہمیں ذرہ بھی
پتہ چلتاہے کہ یہ کسی غریب ،لاچاراورکسی مجبورکے کام کی ہے توپھرہم
چندلمحوں میں اس چیزکوسونابنادیتے ہیں ۔ماسک یہ کیاہے۔۔؟کل تک یہی ماسک
میڈیکل سٹورزسمیت ہرجگہ منوں اورٹنوں کے حساب سے پانچ اوردس روپے میں مل
رہے تھے لیکن جب پتہ چلاکہ یہ اب مجبوری اورضروری کے رتبے پرپہنچ گئے ہیں
توہم نے وہی ماسک مجبوروں اورغریبوں کے لئے سونے وچاندی کے برابرکردیئے ہیں
۔کہنے کوتواپنے آپ کوہم پکے اورٹکے مسلمان اورپہلے درجے کے ایماندارکہتے
ہیں لیکن کام۔۔؟کام ہمارے امریکہ اوربرطانیہ کے گوروں اوربے ایمانوں سے بھی
بدسے بدترہیں۔کسی مارے ہوئے کوتوغیرمسلم معاشروں میں بھی اس طرح نہیں
ماراجاتاجس طرح ہم ایک مجبور،غریب اورلاچارکی چمڑی اتارکراسے دنیاکے سامنے
تماشابنادیتے ہیں۔ایسی نمازوں،ایسی تسبیحات،ایسے حج وعمرے
اوردیگرذکرواذکارکاکیافائدہ ۔۔؟کہ جوانسان کواﷲ کے قریب بھی نہ
کردے۔نماز،روزہ،حج،عمرہ،تسبیحات اورذکرواذکارکااہتمام انسان اس لئے کرتاہے
کہ وہ گناہوں سے دوراوراﷲ کے قریب سے قریب ترہوجائے۔نماز،روزہ،حج اورزکوٰۃ
کوجس طرح چھوڑناگناہ ہے ۔کسی غریب،مجبوراورلاچارکولوٹنا،کاٹنااورڈسنااس سے
بھی بڑاگناہ اورجرم ہے۔بطورمسلمان جوکام ہم کررہے ہیں یہ ہمارے ساتھ سوٹ
نہیں کرتے۔دوسروں پرکفرکے فتوے لگانے سے اگرہمیں فرصت ملے توایک لمحے کے
لئے ہمیں اپنی ان اداؤں پربھی ضرور غورکرناچاہیئے۔اس دنیامیں آج تک کسی
کاپیٹ بھرااورنہ ہی قیامت تک بھرے گا۔یہ جہنم صرف مٹی سے بھرتاہے۔دنیاکی اس
حرص،لالچ اورجھوٹ وفریب نے ہمیں تباہی کے آخری دہانے پرپہنچادیاہے۔جن
کودوسروں کے لئے مثال بنناچاہیئے تھاوہ آج دوسروں کے لئے تماشابنے ہوئے ہیں
۔دین ،اسلام ،ایمانداری اورمسلمانی تویہ ہے کہ انسان خودبھوک یاپیاس سے
مررہاہواوروہ اس حال میں بھی روٹی کاآخری نوالہ یاپانی کی آخری گھونٹ دوسرے
بھائی کے منہ میں ڈال دیں ۔کسی غریب یامجبورکوکروناوائرس کی وجہ سے پانچ
روپے والے ماسک کی ضرورت ہواوراس کی قیمت پانچ روپے سے دواورتین سوروپے تک
پہنچانایہ نہ کوئی دین ہے۔نہ کوئی ایمانداری اورنہ ہی کوئی مسلمانی ۔بلکہ
یہ تووہ ظلم ہے جس کاذائقہ دنیامیں بھی چکھناپڑے گااوربروزمحشربھی ہرحال
میں اس کاجواب دیناہوگا۔کوئی غم،سانحہ،حادثہ،وباء یاکوئی آفت یہ کسی انسان
کے بس اوروس میں نہیں ۔یہ اﷲ کی طرف سے ہوتے ہیں ۔جواﷲ کسی اورکوکسی غم ،مصیبت
اورتکلیف میں مبتلاکرسکتاہے اس اﷲ کے لئے ماسک مہنگے کرنے والوں کونشان
عبرت بنانابھی توکوئی مشکل نہیں ۔زلزلے کے دوران اپنے جہنم بھرنے کے لئے
زلزلہ متاثرین کودونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے بھی مکافات عمل سے نہیں بچے۔یہ
ماسک مافیاکے کارندے پھرکس طرح بچ جائیں گے۔۔؟اﷲ کے ہاں دیرہے
مگراندھیرباالکل نہیں۔کروناوائرس کی وجہ سے پیداہونے والی خوف وہراس کی اس
فضاء میں مجبوراورغریب عوام کولوٹنے والے ایک بات یادرکھیں ۔یہ چاہیں جتنے
بھی ماسک مہنگے یاذخیرہ کردیں ۔اﷲ کے قہراورعذاب سے یہ کبھی بھی بچ نہیں
سکیں گے۔ قوم کی مجبوری سے غلط فائدہ اٹھانے والے یہ لٹیرے کسی بھی رعایت
کے مستحق نہیں ۔وزیراعظم عمران خان کوایسے قوم دشمن لوگوں کے خلاف فوری
اورسخت کارروائی کرنی چاہیئے۔ایسے ہی مفادپرست لوگ ہمیشہ حکومت کی بدنامی
کاباعث بنتے ہیں ۔کروناوائرس خطرناک ہویانہ لیکن یہ لوگ کروناوائرس سے بھی
زیادہ خطرناک ہے ۔حکومت کوکروناوائرس سے پہلے ملک ،قوم اورمعاشرے کوایسے
ناپاک،منحوس اورگندے جراثیم سے پاک کرناچاہیئے۔خوف خدااورانسانیت سے عاری
ایسے درندوں کے ہوتے ہوئے ہم چین اورسکون کی زندگی کبھی نہیں گزارسکتے۔ایسے
درندوں نے صحت،تعلیم،کاروبار،سیاست،صحافت،ٹیکنالوجی،انجینئرنگ،صنعت اورمذہب
سمیت تمام شعبوں میں اپنے پنجے گاڑھ دیئے ہیں ۔ان سے آج اس ملک میں کوئی
بھی غریب اورمجبورمحفوظ نہیں ۔بلی جس طرح چوہاپکڑنے کے لئے تاک لگائے بیٹھی
ہوتی ہے اسی طرح یہ درندے بھی تاک لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ کب ،کہاں اورکس
وقت کون مجبورہوتاہے۔یہ درندے اب اس ملک میں باقاعدہ ایک وائرس کی شکل
اختیارکرچکے ہیں ۔انہیں روکنے اورٹوکنے والاکوئی نہیں ۔آٹااورچینی بحران سے
لیکرملک میں ادویات کی قلت اورماسک کی قیمتوں میں اضافے تک سب ان درندوں کے
ہی کمالات اورانوارات ہیں ۔ہمیں کروناوائرس سے پہلے ملک سے اس خطرناک وائرس
کاخاتمہ کرناہوگاتاکہ یہاں کے غریب اورمجبورلوگ آرام وسکون سے زندگی
گزارسکیں ۔ہم نے اس وائرس کی جڑیں اگراب نہیں کاٹیں توکل کویہ بھی وباء کی
شکل اختیارکرے گاجس سے پھرجان چھڑانابھی مشکل ہوگا۔اس لئے کروناکے ساتھ ایک
ڈنڈاان درندوں کے خلاف بھی اٹھناچاہیئے تاکہ یہ ملک ہرقسم کے ان خطرناک
وائرس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پاک ہوسکے۔
|