یوں تو شمس الرحمٰن فاروقی کے "کئی چاند تھے سر آسماں" کے
گرد سینکڑوں چاند چکر لگاتے دکھائی دیتے ہیں. ہر ایک دوسرے سے بڑھ کے ہیں.
مرزا اسد اللہ خان غالب، مرزا تراب علی، نواب مرزا خان، نواب شمس الدین
احمد خان جیسے سینکڑوں چاند بس ایک ہی چاند کے گرد گھومتے ہیں. وہ ہے وزیر
خانم.
ناول کی ہیروئن کی زندگی اگرچہ کشاکش میں گزری لیکن ان کا شعری ذوق بہت
بلند تھا ۔ "کئی چاند تھے سر آسماں" کی مرکزی کردار وزیر خانم کی زندگی جس
نشیب وفراز سے عبارت ہے وہ پڑھنے والے کو عجیب کیفیت سے دوچار کردیتی ہے.
کبھی اس سے پوری دنیا روٹھی دکھائی دیتی ہے تو گاہے وہ ملکہ بن کے راج کر
رہی ہوتی ہے. کچھ وقت کے لیے خوشیوں کے محل میں رہتی ہے تو پھر مصائب کے
چمگادڑ اس سے چمٹ جاتے ہیں. یکے بعد دیگرے چار شوہر اس کے جیتے جی ساتھ
چھوڑ کے داغ مفارقت دے گئے.
وزیر خانم (پیدائش ۱۸۱۱) ہیں جو مشہور اردو شاعر نواب مرزا خان داغ دہلوی
کی والدہ محترمہ تھیں لیکن وزیر خانم کے اجداد دلی کے نہیں تھے بلکہ
راجھستان کے گاؤں ہندالولی (ہند الولی شیخ معین الدین چشتی کے نام سے موسوم
) گاؤں کے چتیرے (مصور) تھے ۔
شمس الرحمٰن فاروقی کو منظر کشی اور خاکہ نگاری میں کمال حاصل ہے۔ وہ قاری
کو پوری طرح اپنی تحریری میں غوطہ زن کردیتے ہیں۔ مشتے نمونہ از خروارے کے
طور پہ ایک خاکہ ملاحظہ کیجیے: ''وزیر خانم نے اس دن ترکی وضع کے کپڑے پہنے
تھے۔ پاؤں میں آسمان رنگ کاشانی مخمل اور پوست آہوکی نکے دار شیرازی جوتیاں،
بہت پتلی ایڑی اور لمبی دوڑ، دیوار بالکل نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔گردن کی سڈول بلندی
کو نمایاں کرنے کے لیے اسے ہر قسم کے زیور سے آزاد رکھا گیا تھا۔ لمبے لمبے
بالوں کو زلفوں کی شکل میں سمیٹ جوڑا سا بنالیاتھا، لیکن یہ جوڑا نمایاں نہ
تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔سامنے کا بدن جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، پوی طرح نہیں تو بہت
حدتک پردہ پوش تھا۔ لیکن ایک ناز سی برق وس کٹار البتہ میان سے عاری، بالکل
برہنہ، اس کی کمر سے لٹک رہی تھی، گویا سارے بدن کی برہنگی کی تمہید تھی۔
شمس الرحمن فاروقی نے غالب اور داغ کی دلی کی تہذیب و معاشرت نیز روز مرہ،
رہن سہن،آلات حرب، طرز زندگی کو فنکارانہ انداز میں اسی عہد کی زبان میں
کاغذ پر اتار دیا ہے۔ مرزا رسوا نے اس عہد کو پیش کیا ہے جس عہد میں وہ خود
سانس لے رہے تھے جب کہ فاروقی نے زائد از ایک صدی قبل کے عہد کو اسی کی
زبان میں پیش کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ناول فاروقی صاحب کی عمر بھر کی
تحقیق کا نتیجہ ہے۔ اس میں برصغیر کا کلچر اور کردار دکھائے گئے ہیں۔ ناول
میں غالب کا سراپا پڑھنے کے قابل ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ ناول انیسویں صدی
سے بھی بہت پہلے سے شروع ہو کر سال 1856میں ختم ہوتا ہے۔ اس پورے عرصے کا
بیان ہمیں ایسی دنیا کی سیر کراتا ہے جو معاشرتی اور تہذیبی لحاظ سے بے حد
معمور ہے۔
کسی بھی ناول کی کام یابی موضوع، کردار، پلاٹ، واقعات، جزئیات اور منظر
نگاری پر ہی منحصر نہیں ہوتی بلکہ حسن بیان اور طرز نگارش بھی شایان شان
ہونا چاہئے۔ اس ناول میں زبان و بیان کا حسن، مکالمہ کی برجستگی، واقعات
اور زبان کے ہم آہنگ ہونے کا گہرا احساس ہر صفحے پر نمایاں ہے۔ فاروقی نے
زبان و بیان پر کافی توجہ صرف کی ہے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں مستعمل
زبان کو ہی ناول میں جگہ دی ہے جو اس عہد میں رائج تھیں۔ انہوں نے خاص طور
سے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ بیانیہ میں کوئی بھی ایسا لفظ نہ آنے پائے جو
اس دور میں مستعمل نہ تھا۔ عربی اور فارسی کے فقروں و محاوروں کی کثرت اس
ناول میں دکھائی دیتی ہے جو اس وقت دہلی ونواح دہلی میں مستعمل تھے۔ فارسی
اشعار کا مکالموں میں برمحل استعمال بھی حسن بیان کو مزید دلکشی عطا کرتا
ہے۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے قاری ناول کے مطالعے کے وقت کچھ زیادہ ہی لطف
اندوز ہوتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ اس کا تعلق اکیسویں صدی سے ہے۔
غرضیکہ ’’کئی چاند تھے سرآسمان‘‘ تاریخ، تہذیب وتمدن، شعر و ادب، معاشرت کے
آداب، عام زندگی کی جزئیات کے سچے اور زندہ بیان کی وجہ سے اردو ادب میں
صرف اپنا ایک منفرد اور نمایاں مقام بنانے میں ہی کامیاب نہیں ہے بلکہ آنے
والی نسلوں کے لیے ایک صدی سے کچھ زیادہ کی تہذیبی دستاویز بھی ہے۔
کئی چاند تھے سر آسماں کتاب کا شمار اردو ادب کی صف اول کی کتب میں ہوتا ہے.
ادب کے طالب علم کے لیے اس کا مطالعہ ازحد ضروری ہے. |