ڈاکٹر غلام شبیررانا
مٹی سے ہو ا منسوب مگر آتش خانہ ساجلتا ہوں
کئی سورج مجھ میں ڈُوب گئے مراسایہ کم کرنے کے لیے
ارد و اور انگری زبان کے شاعراور ادبی نقادساقیؔ فاروقی (قاضی محمد شمشاد
فاروقی ) کے بزم ادب اور بزمِ جہاں سے اُٹھنے کی خبر سُن کر دِل بیٹھ گیا
۔اپنی زندگی کے اصولوں کی طرف داری میں مستحکم او ر معتبرروّیوں کی مدافعت
میں ثابت قدم رہنے والا نقا ددائمی مفارقت دے گیا ۔ پاکستانی تہذیب و ثقافت
، اردو زبا ن و ادب اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے مصروف عمل
رہنے والے ایک مستعد تخلیق کار کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر دِ لی صدمہ
ہوا۔اپنی شخصیت اور گفتگو سے ہر ملاقاتی کو اسیرِقیاس کرنے والا ادیب
دیکھتے ہی دیکھتے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھا ر گیا اور اجل کی اس
بے دردی کو ادبی دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی ۔ اردوزبان و ادب کی ترقی
اور ترویج و اشاعت کے لیے انتھک جد و جہد کرنے والا یہ تخلیق کار زندگی بھر
ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورشِ لوح و قلم میں مصرو ف
رہا ۔ایک ایسا نقاد رخصت ہو گیاجس کے تنقیدی اسلوب نے اُردو زبان و ادب کے
سنجیدہ قارئین کوکلیم الدین احمد کی طرح چونکا دیا ۔ معاشرتی زندگی کے
تضادات ، ناقابل ِ برداشت ارتعاشات ،بے اعتدالیوں اورشقاوت آمیزناانصافیوں
کے خلاف ساقی فاروقی ایک شعلۂ جوالا ثابت ہوا ۔ انجمن ستائش باہمی کے ایما
پر ہونے والی تحسین نا شناس کو ساقی فاروقی نے ہمیشہ ہدفِ تنقید بنایا۔حریت
فکر و عمل کو شعار بنانے والے اس تخلیق کار نے جبر کاہر انداز مسترد کرتے
ہوئے حق گوئی اور بے باکی کو شعار بنایا ۔اپنی مزاحمتی شاعری اورجرأت
مندانہ تنقیدی اسلوب کے ذریعے ساقی فاروقی نے انسانیت کے وقار اور سر بلندی
کے لیے مقدور بھر کوشش کی ۔فرشتہ ٔ اجل نے اس بے خوف تخلیق کار سے قلم چھین
لیا جس نے گزشتہ نصف صدی کے عرصے میں اُردو ادب پر انمٹ نقوش چھوڑے۔اپنے من
کے غواصی کر کے زندگی کے سر بستہ رازوں کی گرہ کشائی کرنے والے اس شوخ
،زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار نے اپنی تخلیقی فعالیت کو رو بہ عمل لاتے
ہوئے اردو ادب کی ثروت میں جو قابل قدر اضافہ کیاوہ ہمیشہ یاد رکھا جائے
گا۔ مزاج کے اعتبار سے ساقی فاروقی بہت حساس اورقدرے زُود رنج تھا لیکن اس
کے باوجو داخلاق اور اخلاص اس کا امتیازی وصف تھا ۔ریگِ صحرا پرنوشتہ وقت
کی تحریریں تو سیل ِ زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آ کر مٹ سکتی ہیں مگر ساقی
فاروقی جیسے جری تخلیق کار ہر عہد میں اپنے اسلوب کی بنا پر مرکزِ نگاہ
رہیں گے ۔ ساقی فاروقی 21۔دسمبر 1936ء کو گورکھ پور (اترپردیش ،بھارت) میں
پیدا ہوئے ۔جب بر صغیر سے بر طانوی استعمار کا خاتمہ ہوا تو ساقی فاروقی کے
خاندان نے سال 1948ء میں مشرقی پاکستان ( موجودہ بنگلہ دیش )ہجرت کی ۔سال
1952ء کے اوائل میں ساقی فاروقی کا خاندان کراچی منتقل ہو گیا ۔سال 1962ء
میں ساقی فاروقی نے کراچی سے شائع ہونے والے ایک ادبی مجلے ( ماہ نامہ
نوائے کراچی ‘ )کے مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔ اسی عرصے میں ساقی
فاروقی نے جامعہ کراچی سے بی ۔اے کیا اورکراچی میں پانچ سال قیام کے بعد سا
ل 1958ء میں ساقی فاروقی نے اعلا تعلیم کی خاطر بر طانیہ کے لیے رختِ سفر
باندھ لیا اور لندن میں مستقل قیام کا فیصلہ کر لیا۔ لندن پہنچ کر ساقی
فاروقی نے اقتضائے وقت کے مطابق کمپیوٹر پر اگرا منگ میں اختصاصی مہارت
حاصل کی اور اسی شعبے کو ذریعہ معاش بنایا۔ لندن میں ساقی فارووقی نے تیزی
سے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق عصری آ گہی پروان چڑھانے کی مقدور بھر کوشش
کی ۔آئین ِنو سے ساقی فاروقی کو گہری دلچسپی تھی اسی جذبے کے تحت کمپیوٹر
پرامنگ کے وسیلے سے فروغ علم و ادب پر اپنی توجہ مرکوز کر دی ۔گزشتہ صدی کے
آ ٹھویں اور نویں عشرے میں ساقی فاروقی کی شاعری کی ہر سُو دھوم مچی تھی ۔
ساقی فاروقی لندن میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ہم تن مصروف ہو گئے
اور زندگی بھر یہیں مقیم رہے اسی شہر میں انھوں نے 19۔جنوری 2018 ء کو داعی
ٔ اجل کو لبیک کہا ۔اس کے پس ماندگان میں ایک بیٹی ہے ۔
ساقی فاروقی نے اردو شاعری کو پامال اورفرسودہ خیالات یعنی کلیشے (
Cliche)کے حصار سے نکالنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ روایت شکنی اورروایت کی
پاس داری کے امتزاج کی مظہر غیر معمولی تلخ نوائی اور تنقید کے مروّجہ
انداز سے ہٹ کر اس نے جو تنقیدی اسلوب اپنایا اس سے اقلیم ادب میں ہلچل مچ
گئی ۔اپنے ذہن و ذکاوت اور جذبات واحساسات کو منفرد انداز میں پیرایۂ اظہار
عطا کر کے ساقی فاروقی نے فکر و خیال کو نئے آ ہنگ سے آ شنا کیا ۔اردو
شاعری میں موضوعاتی تنوع،ہئیت اوراسلوب کے منفرد تجربات سے ساقی فاروقی نے
افکارِ تازہ کی مشعل تھا م کر جہانِ تازہ کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھنا
اپنا نصب العین بنایا ۔ ساقی فاروقی نے ارد ونظم اور غزل میں اپنی تخلیقی
فعالیت کالوہا منوایا ۔ بر طانوی ادیب ایڈورڈ ٹیڈ ہیوجز ( 1930-1998 :
Edward James Hughes) نے جنگلی جانوروں اور مختلف حیوانا ت کے موضوع پر جو
شاعری کی ساقی فاروقی نے اس سے گہرے اثرات قبول کیے ۔ تجریدی مصوری میں بھی
اسے بہت دلچسپی تھی۔ اردو نظم میں ساقی فاروقی نے جانوروں کی جبلت کے موضوع
پر جو جرأت مندانہ تخلیقی تجربات کیے وہ اس کے منفرد اسلوب کا منھ بولتا
ثبوت ہیں ۔ طنز و ظرافت سے لبریزاس کی نظمیں ’ ایک کتا ‘ ، ’شیر امداد علی
کا میڈک ‘ ، ’ ایک سّور سے ‘ ، ’ خرگوش کی سر گزشت ‘ ، ’خالی بورے میں زخمی
بِلّا ‘ گہری معنویت کی حامل ہیں۔انسانوں،حیوانوں ،نباتات ،جمادات ،حشرات
نا مانوس اجنبی اور متنوع موضوعات سے ساقی فاروقی کو گہری دلچسپی تھی۔ اس
کے ا سلوب میں ذخیرہ ٔ الفاظ کی فراوانی ہے اس کے ساتھ ہی منفرد اسلوب کی
نُدرت اور بُو قلمونی ایک منفرد تجربے کی صورت میں جلوہ گر ہے ۔
دامن میں آ نسوؤ ں کا ذخیرہ نہ کر ابھی
یہ صبر کا مقام ہے گریہ نہ کر ابھی
جس کی سخاوتوں کی زمانے میں دُھوم ہے
و ہ ہاتھ سو گیا ہے تقاضا نہ کر ابھی
نظریں جلا کے دیکھ مناظر کی آ نکھ میں
اسرارِ کائنات سے پردہ نہ کر ابھی
یہ خامشی کا زہر نسوں میں اُتر نہ جائے
آواز کی شکست گوارا نہ کر ابھی
دنیا پہ اپنے علم کی پر چھائیاں نہ ڈال
اے روشنی فروش اندھیرا نہ کر ابھی
تصانیف
ساقی فاروقی کی انگریزی اوراردو زبان کی تصانیف درج ذیل ہیں:
۱۔ انگریزی زبان میں شعری مجموعہ Nailing Dark Storm
۲ ۔پیاس کا صحرا،۳۔رادار،۳۔بہرام کی واپسی ،۴۔حاجی بھائی پانی والا اور
دوسری نظمیں ،۵۔غزل ہے شرط ،۶۔سرخ گلاب اور بدر منیر (کلیات :سال اشاعت
2005)،۷۔زندہ پانی سچا پانی ( تمام تخلیقات و مخطوطات )،۸۔باز گشت و باز
یافت (تنقید )،۹۔ہدایت نامہ شاعر ( تنقید )،10۔آپ بیتی پاپ بیتی ( خود نوشت
)11۔رات کے مسافر
اس کی خود نوشت ’ آپ بیتی پاپ بیتی ‘ پہلے قسط وار کراچی کے ادبی مجلے
’مکالمہ ‘ اور ممبئی کے مجلے ’ نیا ورق ‘ میں قسط وار شائع ہوئی ۔اس کے بعد
جنوری 2008میں اکادمی باز یافت ،کراچی کے زیر اہتمام یہ خود نوشت کتابی
صورت میں شائع ہوئی۔ساقی فاروقی کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ ایک
متنازع نقاد ہے اور اس کی تنقیدی آرا میں دِل آزاری کا پہلو قاری کو شدت سے
کھٹکتا ہے ۔چند استثنائی مثالوں کو چھوڑ کراُردو زبان کے اکثر معاصر شعرا
کے بارے میں ساقی فاروقی کا روّیہ حیران کن حد تک معاندانہ رہا ۔وہ ان شعرا
کو ’ جھٹ بھئے ‘ ،’چپڑ قناتی ‘ یا ’ شاہ دولہ کا چوہا ‘ کہہ کر مخاطب کرتا
تو معاصرانہ چشمک کا مظہر یہ اندازِ تخاطب قارئین کے ذوقِ سلیم پر گراں
گزرتا ۔ تنقید میں ساقی فاروقی کے اہانت آمیز جارحانہ انداز کی بنا پر خالد
احمد نے اُسے اُردو کا خود کُش بمبار قرار دیا تھا ۔
اپنے اصولوں کی طرف داری میں استحکام اور اپنے اصولوں کے دفاع میں ثابت
قدمی کا مظاہرہ کرنے ولے اس صاحب طرزادیب کی اکثر تصانیف پاکستان سے شائع
ہوئیں ۔ساقی فاروقی کی اہم ساقی فاروقی نے انگریزی زبان میں بھی شاعری کی
۔اس کا شعری مجموعہ ’’ Nailing Dark Storm ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکاہے
۔ساقی فاروقی کی شاعری کا انگریز ی زبان میں ترجمہ کو لمبیا یونیورسٹی کے
پروفیسر فرانسس پرٹچٹ ( Frances W. Pritchett ) نے کیا جو ’’ A Listening
Game‘‘ کے نام سے شائع ہو چکاہے ۔ یہ وقیع کتاب سال 1987میں لندن سے شائع
ہوئی ۔ تراجم کی یہ کتاب چھیاسی صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں قابل مطالعہ
موضوعات کی فراوانی ہے۔اس کتاب کی ترتیب اور انتخاب میں شمس الر حمٰن
فاروقی نے گہری دلچسپی لی۔قارئین کے استحسان کی خاطریہاں ساقی فاروقی کی
ایک نظم’’ خالی بورے میں زخمی بِلّا ‘‘ اور اس نظم کا انگریزی زبان میں
ترجمہ پیش کیا جا رہاہے :
جان محمد خان
سفر آ سان نہیں ہے
دھان کے اس خالی بورے میں
جا ن اُلجھتی ہے
پٹ سن کی مضبوط سلاخیں دِل میں گڑی ہیں
اورآ نکھوں کے زر د کٹوروں میں
چند کے سکّے چھن چھن گرتے ہیں
اور بدن میں رات پھیلتی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
آج تمھاری ننگی پیٹھ پر
آ گ جلائے کون
انگارے دہکائے کون
جدّ و جہد کے
خونیں پُھول کِھلائے کون
میرے شعلہ گر پنجوں میں جان نہیں
آج سفر آ سان نہیں
تھوڑ ی دیر میں یہ پگڈنڈی
ٹُوٹ کے اِک گندے تالا ب میں گِر جائے گی
میں اپنے تابوت کی تنہائی سے لِپٹ کر
سو جاؤں گا
پانی پانی ہو جاؤں گا
اور تمھیں آ گے جانا ہے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔اک گہری نیند میں چلتے جانا ہے
اور تمھیں اُس نظر نہ آ نے والے بورے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔اپنے خالی بورے کی پہچان نہیں
جان محمد خان
سفر آ سان نہیں
Jan Muhammad Khan
the road is hard
This empty rice-sack
stifles me
The stiff jute bars pierce my heart
And into the yellow bowls
of my eyes
Coins of moonlight clink, chink
Night spreads through my body
Now who will light fires
on your naked back?
Who will fan the coals?
Who will make the bloody flowers of struggle
burst into bloom?
From my flint-and-steel claws
the life is gone
Today the road is hard
Quite soon this path
breaks and falls into a dirty pond
Alone in my coffin
I'll curl up and sleep
I'll dissolve into water
And you must go on --
go on deep-sleep-walking
And the sack that you don't see --
you don't know your own empty sack.
Jan Muhammad Khan
the road is hard.
انگریزی زبان میں تخلیق ادب پر توجہ دے کر اور تراجم کے ذریعے ساقی فاروقی
نے دو تہذیبوں کو قریب تر لانے کی سعی کی ۔
پاپ بیتی : ( خو د نوشت )،باز گشت و باز یافت : تنقیدی مضامین
ہدایت نامہ شاعر : سال 1995ء میں لاہور سے شائع ہونے والی اس کتاب میں وہ
اٹھارہ مضامین شامل ہیں جو ساقی فاروقی نے انتالیس سال ( 1955-1994 )کے
عرصے میں لکھے ۔اس کتاب کا انتساب آدم جی ادبی ایوارڈ اور کمال فن ایوارڈ
حاصل کرنے والے ناول نگار عبداﷲ حسین (1931-2015 )کے نام ہے ۔اپنی
منفردنوعیت کی تنقید کی کتاب ’’ ہدایت نامہ شاعر ‘‘کے ایک صفحے پر ساقی
فاروقی نے اپنے اسلوب کی وضاحت کے لے لیے امریکی شاعر ایذرا پاونڈ
(:1885-1972 Ezra Pound )کا یہ قول شامل کیاہے :
" If you wanted to know something about an automobile,would you go to a
man who had made one and driven it,or to a man who had merely heard
about it ?
کئی مقامات پریہ کتاب سنجیدہ تنقید کی حدود سے نکل کر اہانت آمیز معاصرانہ
چشمک کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے ۔ اس کتاب کے آغاز میں ساقی فاروقی نے
اپنے اسلوب کے بارے میں درج ذیل ادیبوں کی مختصر آرا کو شامل اشاعت کیا ہے
:
مشفق خواجہ ،انتظار حسین ،ادیب سہیل ،خالد احمد ،انور سدید،عطاالحق قاسمی
،یونس احمر،ظفر اقبال
حاجی بھائی پانی والا اور دوسری نظمیں :یہ شعری مجموعہ پہلی بار 1996ء میں
شائع ہوا ،اس کا انتساب خورشیدرضوی کے نام کیا گیا ہے ۔ اس شعری مجموعے کا
دیباچہ شمس الرحمٰن فاروقی نے لکھا ہے ۔ساقی فاروقی کا ایک انٹرویو بھی اس
کتاب کے آ غاز میں موجود ہے ۔یہ انٹرویو ساقی فاروقی کی تصنیف’’ رازوں سے
بھر ا بستہ ‘‘ میں بھی شامل ہے ۔
’’ ۔۔۔۔اور آ نکھوں کے رادار پر صرف تاریک پر چھائیاں ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس جملے
سے شروع ہونے والی کتاب’’ رادار ‘‘ میں دس سال ( 1967-1977)کے عرصے میں
لکھی گئی تحریریں شامل ہیں ۔یہ کتاب پہلی بار سال 1978 ء میں منظر عام پر آ
ئی۔ اس کتاب میں شامل ’’ غیبت کا شامیانہ ‘‘میں ساقی فارقی کے فن اور شخصیت
کے بارے میں جن ادیبوں کے خیالات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ان کے نام درج
ذیل ہیں:
اڈرین ہنری ، اطہر نفیس ،آصف جمال،احمد ندیم قاسمی ،اسد محمد خان ،باقر
مہدی ،خلیل الرحمٰن اعظمی،گوپی چند نارنگ،انتظار حسین ،جمیل جالبی ،منیر
نیازی ،جمال پانی پتی،جمال احسانی ،مرغوب حسن،عبداﷲ حسین ،عزیز حامد مدنی
،عمیق حنفی ،نو ر جہاں ثروت ،شمیم حنفی ،سلیم احمد ،شہر یار ،شمس الرحمٰن
فاروقی ،صلاح الدین محمود ،وزیر آ غا،ن۔م۔راشد
بیالیس (42) نظموں پر مشتمل سال 1980 ء میں شائع ہونے والا سلور جو بلی
شعری مجموعہ ’’ رازوں سے بھرا بستہ ‘‘ عرصہ پچیس سال ( 1956-1980)کے کلام
پر مشتمل ہے ۔
لاہور سے سال 2005 ء کے اواخر میں’’سرخ گلاب اور بدر ِ منیر ( تمام نظمیں
،تمام غزلیں )‘‘ساقی فاروقی کی کلیات شائع ہوئی ۔ ساقی فا روقی نے پچاس بر
س ( 1955-2004)کے سوگ پر محیط اپنی اس کتاب کا انتساب اپنے تین مرحوم ہم
عصروں ( مسٹر کامریڈ ( کتا) ،مسٹر رام راج (بِلّا) اور مسٹر ٹم ٹام( کچھوا)
کے نام کیا ہے ۔ تین سو بائیس ( 322) صفحات پر محیط اس کتاب میں ساقی
فاروقی کی دو سو اٹھارہ ( 218) تخلیقات شامل ہیں ۔ اردو کے بڑے مزاح
نگارمشتاق احمد یوسفی ( 1923-2018)کی تحریر ’’ یہ دیباچہ نہیں ہے ‘‘ اس
کتاب کے آ غاز میں شامل ہے ۔مشتاق احمد یوسفی نے اپنے تاثرات میں ساقی
فاروقی کے بارے میں شگفتہ انداز میں لکھا ہے :
’’ ہمارے یا ر طرح دار اور البیلے شاعر ساقی فاروقی اپنے آ پ سے جنگ کرتے
رہتے ہیں اور خود کو کئی باردندان شکن شکست دے چکے ہیں ۔وہ اُردو کے نہایت
خوب صورت ،حد درجہ اوریجنل اور غالباً سب سے بڑے جلالی شاعرہیں ۔غالباً کی
پخ اس لیے لگانی پڑی کہ ہم نے کسی اور جلالی شاعر سے مات اور مار نہیں
کھائی ۔چالیس بر س سے لندن میں مقیم اوردوستوں سے بر سرِ پیکار ہیں ۔جس کو
دوست رکھتے ہیں ،اُسے پھر کہیں کا نہیں رکھتے ۔بل کہ پھر وہ اُن کے لائق
بھی نہیں رہتا۔‘‘
جینے کا حوصلہ ہو تو زنداں کی ساری عمر
مقتل کی ایک صبح پہ قربان کر کے دیکھ
میں وہی دشت ہمیشہ کا ترسنے والا
تُو مگر کون سا بادل ہے برسنے والا
یہ کہہ کے ہمیں چھوڑ گئی روشنی اِک رات
تم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے
ساقی فاروقی کی شاعری میں فکر و خیال کا جہانِ تازہ جلوہ گر ہے ۔اُس نے
اپنے تجربات ۔مشاہدات،جذبات و احساسات کو نہایت دل کش اندا زمیں پیرایہ ٔ
اظہار عطا کیا ہے ۔ بروٹس قماش کے سادیت پسند درندوں کے کھوٹ بھرے دِل میں
منافقت ،دوغلا پن ،محسن کشی اور پیمان شکنی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ان اعصاب
شکن حالات میں نشیبِ مرگ کی تاریک شاہراہوں کے مہیب سناٹوں سے گھبرا کر ان
گنت کلفتیں اُٹھا کر کچھ دردمند لوگ دنیا کو بدلنے کی تمنا لیے اُٹھتے ہیں
مگر یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اورکیا ہے کہ دنیا انھیں بدل کر ر کھ
دیتی ہے ۔ ساقی فاروقی کا خیال تھا کہ تخلیق کار کو سدا افکارِ تازہ کی
مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جستجو کو شعار بنانا چاہیے ۔ا س کی انفرادیت کی
دلیل یہ ہے کہ اس نے روایت شکنی کے ساتھ ساتھ روایت پرستی کو بھی قدر کی
نگاہ سے دیکھا ۔پامال راہوں پر تعمیر کی گئی تقلید کی بوسیدہ عمارت کے
کھنڈرات کو اس نے جدت اور تنوع کے تیشوں سے منہدم کرنے کی اس روش کو پروان
چڑھایا جسے تخلیق فن کے لمحوں میں ن۔م۔راشد (1910-1975)ا ور میراجی ( محمد
ثنا اﷲ ڈار:1912-1949 )نے پیشِ نظر رکھا۔ساقی فاروقی کی دلی تمنا تھی کہ
جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اردو نظم کو موضوعاتی تنوع اور ندرت بیان سے آ
شنا کیا جائے ۔ قحط الرجال کے موجودہ دور میں زندگی سیلِ زماں کے مہیب
تھپیڑوں کی زد میں ہے ۔ یہ ایک لرزہ خیز اور اعساب شکن سانحہ ہے کہ عفریت
زدہ شہروں میں مسخروں ،لُچوں ،شہدوں ،تلنگوں ،حرام خوروں ،محسن کُشوں
،پیمان شکنوں اور جعل سازوں نے لہو چاٹتی بلاؤ ں میں گھرے الم نصیبوں اور
جگر فگاروں کی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی ہیں ۔ ساقی فاروقی کو اس
بات کا قلق ہے کہ سادیت پسندوں کی طرف داد طلب اور التفات طلب نگاہوں سے
دیکھنے والے کس قدر سادہ ہیں ؟ ایام گزشتہ کی تلخ یادوں کی انتہائی تلخ
یادوں کے خرابات میں اُمید کے نئے چراغ فروزاں کر نے کی تمنا کرنا ساقی
فاروقی کی رجائیت پسندی کی دلیل ہے ۔ا س کا خیال ہے کہ دوستی کی طرح دشمنی
نبھانا بھی ایک صبر آ زما مرحلہ ہے ۔وہ اپنے آ شیاں میں بسیرا کرکے یادوں
کا چمن سجاتاہے ۔وہ اس بات پر زو ردیتاہے کہ ایسا مکاں جو اپنے مکیں کا
خیال نہیں رکھتاگردشِ ایام اور زمان و مکاں کا سلسلہ اُسے کہیں کا نہیں
رکھتا۔زرومال کا کمال اورحسن و جمال کا جلال ہمیشہ بر قرار نہیں رہ
سکتا۔حسن مہ بہ ہنگامِ کمال اور خورشید جمال جب آمادۂ زوال ہوتاہے تو نشیب
ِ بے بسی وبے چارگی میں کوئی اُس کا پرسانِ حال نہیں ہوتا۔اس کی نظموں ’’
ایک کُتّا نظم ‘‘ ،’ ایک سُو ر سے ‘‘ ، ’’ خرگوش کی سر گزشت ‘‘ ، ’ بیساکھی
‘‘ ، ’’ شاہ صاحب ایند سنز ‘‘ ،’’ سوگ نگر ‘‘ ، ’’مدافعت ‘‘ اور ’’مستانہ
ہیجڑا ‘‘گہری معنویت کی حامل ہیں ۔ اپنی نظم ’’ مستانہ ہیجڑا‘‘ میں اس نے
اس قدر موثر لفظی مرقع نگاری کی ہے کہ کہ قاری چشمِ تصور سے اپنے ہی آ
نسوؤں میں ڈُوبے ’ مستانہ ہیجڑا ‘ کو ضخیم کولھے مٹکا کر دعوتِ نظر دے کر
شُہدوں ،حرام خوروں سے التفات مانگتے دیکھ لیتا ہے ۔ ساقی فاروقی کا خیال
ہے کہ زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایا ت کو مادی دور کی لعنتوں نے
ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔موجود ہ دور میں حرص ،ہوس ،استحصال اور
جنسی جنون نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے ۔ دیارِمغرب میں منشیات اور جنسی
جنون کے چقماق سے بھڑک کر ہر کٹنی اورشوہر کش عورت نہایت ڈھٹائی کے ساتھ
استحقاق کی آ ڑ میں طلاق کا تقاضاکرتی نظر آ تی ہے ۔ ہوائے جو رو ستم کے
جھونکوں نے صبر و رضا کی ٹمٹماتی ہوئی مشعل کو گُل کر دیاہے ۔ سادیت پسندوں
کے ہاتھوں معاشرتی زندگی پرجو کوہ ِستم ٹوٹے ہیں ان کے نتیجے میں مظلوم
انسان سیلاب گریہ میں ڈوب گئے ہیں ۔ پس نو آبادیاتی دور میں مفاد پرست
عناصر کے مسلط کردہ جبر کے ماحول میں بے حسی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ہر کوئی
اپنی فضا میں مست پھرتاہے ۔ تہمتِ آزادی سے پریشان لوگ عہدِ اسیری کے زخم
سہنے پر مجبور ہیں ۔شہر ِ نا پرساں میں ہر طرف سکوتِ مرگ طاری ہے ۔تیسری
دنیا کے پس ماندہ ممالک کے عوام کی زندگی اجیرن کر دی گئی ہے۔ حرص و ہوس کی
چُمبک نے دلوں کو انسانیت سے عاری کر دیاہے ۔ ایسامحسوس ہوتاہے شعلوں کا
کھیل کھیلنے والے کینہ پرور اورسفلہ منتقم مزاجوں نے ضمیر عالم کو تنگ و
تاریک عقوبت خانے میں محبوس کر دیا ہے ۔ غنچوں کا بِکسنااب خیال و خواب بن
چکاہے دل گرفتہ اور مایوس اِنسانوں کی بجھتی ہوئی آ نکھوں کا کھنڈر ان کی
روح کی اُلجھن کا مظہر ہے ۔ساقی فاروقی کی تمنا تھی کہ سفا ک ظلمتوں میں
حرف و صوت کی مشعل فروزاں رکھی جائے اور رخِ وفا کو بھی تاباں رہنا چاہیے
۔زندگی کی بے ثباتی اور کا رِ جہاں کے ہیچ ہونے کے موضوع پر ساقی فاروقی نے
حقائق کی گرہ کشائی کی ہے :
وہ لوگ جو زندہ ہیں وہ مر جائیں گے اِک دِن
اِک رات کے راہی ہیں ،گزر جائیں گے اِک دِن
میں پھر سے ہو جاؤں گا تنہا اِک دِن
بین کرے گا رُوح کا سناٹا اِک دِن
یہ روح کی بستی پھر مسمار نظر آ ئی
تعمیر کی ہر سازش بے کار نظر آ ئی
مٹّی تھی خفا ،موج اُٹھالے گئی ہم کو
گرداب میں ساحل کی ہوا لے گئی ہم کو
سائے کی طرح ساتھ یہ دنیا ضرور ہے
سائے کا اعتبار مگر کیا ضرورہے
راتوں میں گونجتی ہے سدا ایک ہی صدا
اے صاحبانِ خواب بِکھرنا ضرور ہے
یہ کون رقص میں ہے یہ منظر کہاں چلے
دریاچلے ،پہاڑ چلے ،آسماں چلے
اہلِ شکست ،آج شکستوں کا کھیل ہے
یہ کھیل ہے تو کھیل میں جاں کا زیاں چلے
ہر حلقہ ٔ دینار و جواہر سے نکل آ
جینے کی ہوس ہے تو مقابر سے نکل آ
یاد کا شہر تہِ آب نظر آ تاہے
ہر طرف حلقہ ٔ گرداب نظر آ تاہے
کہیں پناہ نہیں، کوئی گھر دیا جائے
مجھے زمین سے وابستہ کر دیا جائے
وہ جس نے قتل کیے خواب اور خیال مِرے
اُسے نہ تمغۂ فتح و ظفر دیا جائے
ساقی فاروقی کی ترجمہ نگاری اور تنقیدی تحریریں پڑھتے وقت خیال آیا کہ کاش
اس نے انگریزی ادب میں تنقیدی معائر کا بہ نظر غائر جائزہ لیاہوتا۔خاص طور
پر میتھیو آرنلڈ(1822-1888) کے وہ لیکچرز جن میں اس نے جنوری 1861ء میں
شائع ہونے والی برطانوی دانش ور فرانسس ولیم نیو مین ( : 1805-1897 Francis
William Newman )کی ہومر کی شاعری کی ترجمہ نگاری پر مشتمل کتاب پر بھی نظر
ڈالی ہے ۔ترجمہ نگاری کے حوالے سے میتھیوآ ر نلڈکا خیال ہے کہ مترجم کو
تخلیق کارکے قاری کو بے خود کر دینے والے انداز حجابانہ کا رمز آ شنا ہونا
چاہیے ۔ اگر مترجم گفتار میں تیزی ،رفتار میں وقار ،خیال میں ندرت ،زبان و
بیان پر خلاقانہ دسترس اوراظہار و ابلاغ کی قدرت سے متمتع ہو ا تو اُس کے
اندازِ شریفانہ کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچے گااور ترجمہ تخلیق کی چاشنی سے
مزین ہوجائے گا۔تخلیق اور تنقیدکے بارے میں میتھیو آ ر نلڈنے لکھاہے :
"The critical power is of lower rank than the creative.True,but in
assenting to this proposition,one or two things are to be kept in mind
.It is undeniable that the exercise of a creative power,that a free
creative activity,is the highest function of man ; it is proved to be so
by man,s finding in his true happiness.But it is
undeniable,also,that,men may have the sense of exercising this free
creative activity in other ways in producing great work of literature or
art ; if it were not so ,all but a very few men would be shut out from
the true happiness of all men ." (1)
پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے میں مقیم ادب کے مبتدی طالب علموں اور نئے
لکھنے والوں نے کاتا اور لے دوڑا کی جو روش اپنا رکھی ہے وہ حد درجہ غیر
امید افزاہے ۔ساقی فاروقی نے انھیں تخلیق ادب میں تسلیم اور شناخت کے سست
رو عمل کی جانب متوجہ کیا اوراس بات پر زور دیاکہ روشنی کے سفر میں نئے
تجربات کو زاد راہ بنائیں۔ اپنے تنقیدی و تخلیقی نظریات کی وضاحت کرتے ہوئے
ساقی فاروقی نے لکھا ہے :
’’ شاعری کی نجات نہ کلاسیکی سمندر میں ڈبکیاں لگانے میں ہے نہ انیس ؔ
اوردبیر ؔ کی جھیلوں میں ڈھیلاپھینکنے میں،بل کہ زبان و بیان کے نت نئے
تجربات میں ہے ۔اس میں ناکامی بھی ہو گی اور کامیابی بھی ،مگر شاعری شرمندہ
نہیں ہوگی۔ (2)
وحشت کے سائباں کے نیچے بیٹھا ساقی فاروقی جب یادوں کے ساحلوں پہ آنے والے
نہنگ دیکھتاہے تو اُس کے قلب ِحزین میں نئے رنگ آ جاتے ہیں۔ ساقی فاروقی کی
گل افشانی ٔ گفتار کے مظہر اس کے چند جملے درج ذیل ہیں:
خواجہ عبدالحئی مشفق خواجہ ( 1935-2005) کے بارے میں انھوں نے لکھاہے : ’’
بھائی جان کو ضیافت اور تحقیق کے علاوہ اور کوئی کام نہیں آ تا۔بھابی سے
بھی ٹھیک سے محبت نہیں کرتے ۔‘‘ (3)
مشفق خواجہ ،ڈاکٹر انور سجاد ( 1935-2019) اور ترقی پسند ادیب اور بچوں کے
امراض کے ماہر معالج ڈاکٹر ایوب مرزا (1929-2010)کے متعلق اپنے تاثرات بیان
کرتے ہوئے ساقی فاروقی نے لکھاہے :
’’ مشفق خواجہ کاحافظہ کثرتِ تحقیق اور قلت ِ تخلیق سے پاش پاش ہو گیاہے
۔یہ بات مجھے ڈاکٹر انور سجاداورڈاکٹر ایوب مرزانے بتائی ۔ان میں سے ایک
ڈاکٹر تجرید کی طرف جاکر مجرد ہو گیادوسرا مغرب میں بس کر مخفف۔‘‘ ( 4)
مشفق خواجہ کے ساتھ اپنے معتبر ربط پر ساقی فاروقی کو ناز تھا۔اپنے اس
دیرینہ رفیق کے ساتھ بے لوث محبت اور بے تکلفی کے بارے میں ساقی فاروقی نے
لکھاہے :
’’ خواجہ پیا کے ساتھ میرا معاملہ یہ ہے کہ میری 51فی صد باتیں وہ مان
لیتاہے اوراس کی 49فی صد باتیں میں ۔اُس نے تہیہ کر ر کھاہے کہ میرے مرنے
کے بعدہی میرے اوصاف گِنوائے اور یہ بتائے کہ اُس نے مجھ سے کیا سیکھا۔اسی
لیے میں جلد سے جلد مر جانا چاہتاہوں ۔۔۔۔‘‘ ( 5)
عقیدت اور مروّت کی رومیں بہہ کر کسی تخلیق کار کوبلند مرتبہ کا حامل
قراردیناتنقید کا منصب نہیں۔ ساقی فاروقی نے اپنی تنقیدی تحریروں میں اگر
چہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے مقدور بھر جد و جہد کی مگر بعض
اوقات کچھ جملے ایسے بھی اس کی تحریروں میں آجاتے ہیں جو کسی کی دل آزاری
کا باعث بن جاتے ہیں ۔ ساقی فاروقی کے مطابقفطرت سدا گلِ لالہ کی حنا بندی
میں مصروف رہتی ہے۔فطرت کا یہی تقاضا ہے کہ خزاں کے سیکڑوں مناظر ،مہیب
سناٹوں اور سفاک ظلمتوں میں بھی طلوع ِ صبح بہاراں کی اُمید رکھی جائے
۔ساقی فاروقی کے خیالات سے یہ تاثر قوی ہو جاتاہے کہ جبلت اورفطرت کو بدلنا
بعید از قیاس ہے ۔کسی عفونت زدہ تالاب کی مٹی میں لتھڑے مینڈک سے یہ توقع
رکھنا کہ عندلیب کے مانند نو ا سنج فغاں ہو ،حمار ِ بے مہار سے یہ تقاضا
کرنا کہ وہ غلیظ اصطبل کے بجائے جنگل کے بادشاہ کی طرح کچھار میں رہے اور
خوب دہاڑے ، زاغ و زغن و کرگس سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ مردار خوری کے بجائے
عقاب کی مثال کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے رزق کے حصول کے لیے وسعت افلاک
میں شکار کی تلاش میں بلند پروازی کو شعار بنائیں ،بوم ،شپر او رچغد کو اس
بات پر مائل کرنا کہ وہ شاہین کی طرح پہاڑوں کی چٹانوں میں بسیرا کریں ایک
مہمل ،لغو اور عبث خیال ہے ۔ ایسے کام تو ان جان داروں کی سرشت کے بھی خلاف
ہیں۔اسی طرح چربہ ساز ،سارق ،جعل ساز،کفن دُزد اور بز اخفش سے نادر تخلیقات
کی توقع رکھنا خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
پس نو آبادیاتی دور میں ساقی فاروقی نے لندن میں اردو زبان و ادب کے فروغ
کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں
گی۔ اس نے عالمی کلاسیک او رجدید ادب کا وسیع مطالعہ کیا وہ جن ادیبوں کے
اسلوب سے متاثر ہوا اُن میں روسی ادیب یوگنی یستنکو(:1932-2017 Yevgeny
Yevtushenko ) اور بر طانیہ ( ویلز) سے تعلق رکھنے والے شاعر ڈائلن
تھامس(1914-1953: Dylan Thomas) شامل ہیں۔اس کا خیا ل تھا کہ ایک ذہین شاعر
کو اپنی شاعری میں مو سیقیت کے برمحل استعمال سے اسے روح اور قلب کی گہرائی
میں اُتر جانے والی اثرآفرینی سے ثروت مند بنانے کے لیے سخت محنت کو
شعاربناچاہیے ۔ساقی فاروقی نے اس کائنات کے مسائل کو یہاں کی مخلوق کے
تناطر میں دیکھا ۔وہ طفیلی اورجان دار مخلوق جسے بالعموم نفرتوں اور
حقارتوں کا نشانہ بنایا جاتاہے انھیں بھی ساقی فاروقی نے اپنی شاعری کا
موضوع بنایا ہے ۔تخلیق ِ ادب میں بے باکی اورصداقت کی مظہر اس کی جدت ہمیشہ
یاد رکھی جائے گی۔
سفر میں رکھ مجھے میری جدائیوں سے پرکھ
فراق دے کے ابھی خاکِ وصال میں نہ مِلا
مآخذ
1.Matthew Arnold :Essays In Criticism,A.L.Burt Company ,New
York,1865,Page ,3
2۔ساقی فاروقی :ہدایت نامہ شاعر ، سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور ،سال اشاعت
،1995، صفحہ 10
3۔ساقی فاروقی :ہدایت نامہ شاعر، ،صفحہ 75.
4۔ساقی فاروقی :ہدایت نامہ شاعر، ،صفحہ 72
5۔ساقی فاروقی :ہدایت نامہ شاعر، ،صفحہ 71 |