پاکستان کی عوام اور ان کا کردار

پاکستان کی عوام کے بارے میں مختلف اخبارات، رسائل، ٹیلی ویژن اور انٹر نیٹ پر بہت سے تبصرے اور خیالات کو پڑھنے اور سننے کا موقع ہم سب کو بہت ملتا ہے جن میں ان کا حکومتی اور قومی سلسلے میں کردار کا جائزہ لیا جاتا ہے میں بھی کئی دنوں سے پاکستان کی عوام جس میں میں بھی شامل ہوں کے بارے میں لکھنے کا سوچتا رہا ہوں اور آج وقت ملنے پر آپ کی نظر کر رہا ہوں۔

پاکستان کی عوام کو میں بہت زیادہ صابر، ہمت والی اور قناعت پسند کہوں یا بزدل، کمزور اور بے حس کہوں۔ سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے کیو نکہ دونوں باتوں پر اعتبار نہیں آتا ہے کیونکہ حقیقت اور ظاہر میں کبھی کبھی بہت فرق ہوتا ہے۔ عوام کو ( جس میں میں خود بھی شامل ہوں اور جہاں جہاں عوام کا لفظ استعمال کروں گا اپنے سمیت کروں گا) ظاہری حالات سے تو میں بزدل، بے حس، کمزور ، لاچار اور بے بس کہہ سکتا ہوں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

حقیقت میں ہماری قوم یعنی عوام صابر، ہمت والی، قناعت پسند ہونے کے ساتھ ساتھ بہادر اور جفاکش بھی ہے لیکن اسے ہمارے حکمرانوں نے دوست نما دشمن ممالک کی خواہشات اور مفادات کے لئے بے حس، بزدل، لاچار اور کمزور بنا دیا ہے۔

ہمارے حکمرانوں نے عوام پر مسلسل اور پہ در پہ مسائل اور مشکلات ڈال کر انہیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔ پیٹرول کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ، بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ ہر ماہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، کھادوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ اور ان سب وجوہات کی وجہ سے روز مرہ اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافے کے ساتھ ساتھ بے روز گاری جیسے مسائل کی وجہ سے ہر شہری آج کل صرف دو وقت کی روٹی بلکہ بعض تو ایک وقت کی روٹی کے لئے تگ و دو کرنے میں لگے رہتے ہیں انہیں حکومت، حکومتی اقدامات ، ملک و قوم اور اسکی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچنے سمجھنے کا نہ موقع ملتا ہے اور نہ وہ اس قابل رہتے ہیں۔

اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ قائد اعظم کی وفات کے بعد ہر حکمران نے ایسا ہی کیا کہ عوام کو ایسے مسائل اور پریشانیوں میں الجھا دیا جائے کہ وہ حکومت کے اقدامات اور اس کی کارکردگی کے بارے میں سوچ بھی نہ سکیں۔ معذرت کے ساتھ میں ایک واقعہ جو میں نے اخبار میں پڑھا تھا یہاں لکھ رہا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ ہماری حالت اس طرح نہ ہو لیکن حالات و واقعات سے ڈر لگ رہا ہے کہ ہم بھی اسی حالت کی طرف جا رہے ہیں۔ کہانی یا کچھ بھی ہے وہ کچھ اس طرح ہے۔

ایک بادشاہ ایک چھوٹی سی سلطنت پر حکومت کرتا تھا اس کی عوام بے حس، بے غیرت اور بہت لاچار و کمزور تھی وہ بادشاہ عوام کی حالت دیکھ کر بہت پریشان رہتا تھا کیونکہ وہ نہ تو حکومتی کاموں کے بارے سوچتے اور نہ کبھی کسی کام کی تعریف یا تنقید کرتے تھے وہ صرف روزی کمانے میں لگے رہتے تھے بادشاہ نے کافی اقدامات اور قانون بنائے کہ عوام حکومتی کاموں میں شریک ہو اور اپنا کردار ادا کرے اور مختلف رائے دے مگر عوام میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ اس نے اپنے وزیروں، مشیروں اور عہدیداروں کو اکٹھا کیا کہ کس طرح عوام کی حالت اور عادت کو بدلہ جائے۔ سب نے مختلف رائے دیں اور آخر کار متفقہ فیصلہ ہوا کہ مہنگائی روز بروز بڑھائی جائے وہ تنگ آکر حکومت کے خلاف کوئی قدم اٹھا ئیں گے بادشاہ نے ایسا ہی کیا مگر جتنی مہنگائی بڑھتی گئی ان میں کمانے کا جنون بڑھتا گیا پھر مشورہ کیا گیا اور ہر چیز پر ٹیکس لگا دیا گیا یہاں تک کہ گھر ، گھر میں موجود سولیات اور ہر چھوٹی چھوٹی چیز پر ٹیکس لگا دیا گیا مگر عوام کی عادات اور جذبات میں فرق نہ آیا۔ سلطنت کے سارے لوگ ساتھ والی دوسری سلطنت میں روزی کمانے جاتے تھے اور مہنگائی اور ٹیکسوں کی یہ حالت ہو گئی کہ جو کچھ کما کے لاتے اسی دن وہ ختم ہو جاتے مشکل سے پیٹ بھرتا تھا بادشاہ کافی پریشان ہوا کہ اب کیا کریں کوئی قدم بھی نہیں بچا۔ آخر میں یہ فیصلہ ہو کہ جس راستے سے وہ دوسری سلطنت میں روزی کمانے جاتے ہیں اس راستے پر آنے جانے کا ٹیکس لگا دیا جائے۔ یہ قدم بھی اٹھایا گیا اور وہ ٹیکس دیتے رہے پھر بادشاہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کو خون پسینے سے کمانے جانے والے روپے پیسے کی کوئی فکر نہیں ان کی لوگوں کے سامنے بے عزتی اور ذلت کی جائے شاید یہ لوگ تبدیل ہو جائیں اس نے اس راستے پر ایک آدمی کو مقرر کر دیا کہ جو بھی آدمی اس سلطنت میں جائے گا اس کے سر پر جاتے وقت اور آتے وقت جوتے لگائیں جائیں یہ سلسلہ شروع ہو گیا جو بھی روزی کمانے کے لئے دوسری سلطنت میں جاتا اس کو جاتے اور آتے وقت سر پر جوتے لگتے تھے۔ کچھ عرصے بعد بادشاہ اپنی محل میں بیٹھا تھا کہ اسے لوگوں کا شور سنائی دیا اس نے پوچھا تو بتایا گیا کہ لوگ آپ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور کچھ مطالبات پیش کرنا چاہتے ہیں بادشاہ بہت خوش ہوا کہ آخر کار لوگوں میں کچھ شعور پیدا ہوا اور ان میں حکومت کے اقدامات کے خلاف بولنے کی ہمت پیدا ہوئی اس نے دربار سجانے کا حکم دیا کہ وہ مطالبات تمام لوگوں کی موجودگی میں دربار میں سنوں گا اور ان کے بارے میں فیصلہ دوں گا دربار سجایا گیا ۔ لوگوں کو بلوایا گیا اور جب دربار لگ گیا تو بادشاہ نے مطالبات پیش کرنے کا حکم دیا۔ کچھ لوگ کھڑے ہو گئے اور بولنے لگے بادشاہ نے کہا کہ ایک آدمی کھڑے ہو کر اپنے مطالبات ہیش کرے۔ ایک آدمی کھڑا ہو گیا اور کہا کہ ہم سب لوگ چاہتے ہیں کہ آدمی سر پر جوتے لگانے پر مقرر کیا گیا ہے وہ ناکافی ہے کیونکہ بہت سے لوگوں کو جوتے مارنے ہوتے ہیں اس لئے جوتے مارنے کے لئے مقرر کردہ لوگوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ ہم جالدی فارغ ہو کو روزی کمانے کے لئے جاسکیں۔

اللہ نہ کرے کہ ہم اس سٹیج پر پہنچ جائیں لیکن ہمارے حکمرانوں کی یہی کوشش اور خواہش ہے کہ ہم میں بھی اسی طرح ہو جائیں اور حکومت اور حکومتی عہدیدار اپنی من مانیاں اور اپنے مفادات کا تحفظ کرتے رہیں اور عوام ان کی کسی بات پر تنقید اور اعترا ض نہ کرے۔ اس لئے وہ ہر روز کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ پیدا کر دیتے ہیں کہ ان کی توجہ حکومتی کارکردگی پر نہ پڑے۔ اب آپ کے سامنے پیٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور اس سے ہونے والے نقصانات اور مسائل، بجلی کی قیمتوں میں ہر ماہ اضافہ، دہشت گردی، بیرونی مما لک کے ملک میں حملے اور ان ممالک کی طرف سے روزانہ نیا آرڈر اور مطالبہ، ملک میں امن وامان اور مہنگائی کی صورت حال اور ان سب چیزوں کے باوجود عوام کی طرف سے مسلسل خاموشی اور بے حسی کیا ظا ہر کر رہی ہے حالات کس رخ کی طرف جا رہے ہیں یہ فیصلہ اب آپ کے ہاتھ میں ہے کہ اس کا جواب دیں۔

اللہ سے دعا ہے کہ ہم عوام کو ایک ایسا لیڈر اور سربراہ نصیب کر دے جو موجودہ صورتحال سے ہمیں نکال کر انقلاب کی طرف لائے اور موجودہ سسٹم اور حکمرانوں سے نجا ت دلا کر ایسا سسٹم اور حکمران لا سکے جو امریکہ کی بجائے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوں اور امریکہ کی بجائے صرف اللہ پر بھروسہ اور توکل کریں اور ملک و قوم کو حقیقی آزادی دلا سکیں جو آج تک ہمیں نصیب نہ ہو سکی۔ تاریخ گواہ ہے کہ عوام کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹی اور انشاءاللہ اب بھی نہیں ہٹے گی اگر کوئی مخلص، بے غرض، بہادر، غیرت والا، اور ہمت والا لیڈر ان کو راہ دکھائے اور ان کو ساتھ لے کر چلے تو بہت کچھ اچھا ہو سکتا ہے ورنہ خدا نخواستہ ہماری حالت بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
kashif imran
About the Author: kashif imran Read More Articles by kashif imran: 122 Articles with 169214 views I live in Piplan District Miawnali... View More