قاف لیگ کا انجام

تازہ ترین سیاسی منظر نامے کے مطابق پیپلز پارٹی اور قاف لیگ میں اندر کھاتے اتحاد ہوچکا ہے صرف اس کو حتمی شکل دینے اور وزارتوں و پنجاب کی گورنری کے فیصلے ہونا باقی ہیں۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ”پڑھے لکھے“ پنجاب کے موجد پرویز الٰہی کا نام گورنر کے لئے تقریباً فائنل ہوچکا ہے جبکہ مونس الٰہی کی فراغت کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) کی دشمنی میں پنجاب کے ٹکڑے کرنے کی شرط بھی عائد ہوچکی ہے۔ صوبہ پنجاب کے صرف اس لئے ٹکڑے کئے جانا مقصود ہے تاکہ مسلم لیگ (ن) کو شہری علاقوں سے جو اکثریت حاصل ہوتی ہے اور جس کی وجہ سے وہ پورے صوبے کی اکثریتی جماعت اور مرکز میں بڑی جماعت کے طور پر سامنے آتی ہے اس کا راستہ روکا جاسکے، حالانکہ اگر دیکھا جائے تو جنوبی پنجاب کی محرومیوں میں صرف مسلم لیگ کی موجودہ پنجاب حکومت یا قیادت کا قصور نہیں ہے، اس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ وزیر اعظم اور پنجاب کے گورنر کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے جبکہ اس سے پہلے بھی جنوبی پنجاب کے سردار، شاہ، گیلانی اور باقی وڈیرے اکثر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے لیکن وہاں کے عوام کو کوئی سکھ کا سانس نصیب نہ ہوسکا کیونکہ شعوری طور پر ہمیشہ یہ کوشش کی جاتی رہی ہے کہ جنوبی پنجاب کے عوام محرومیوں کا شکار رہیں تاکہ ان کی محرومیوں کی داستانیں سنا کر ان کو بیوقوف بنایا جاتا رہے اور اپنی سیاسی دکانداریاں چمکائی جا سکیں۔

پیپلز پارٹی اور قاف لیگ کا اتحاد کیوں ہونے جارہا ہے، ان جماعتوں سے وابستہ لوگ اور عوام اس کو کیسے دیکھتے ہیں، اس سوال کا جواب بہت مشکل نہیں اور نہ ہی اس کو سمجھنے کے لئے آئن سٹائن کی عقل درکار ہے۔ وہ لوگ جو پاکستان کی سیاسی تاریخ سے تھوڑی بہت بھی واقفیت رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ دونوں جماعتوں اور ان کے قائدین کے مابین کتنے فاصلے اور کتنے سیاسی و ذاتی اختلافات ہیں۔ وہ لوگ جو ساری عمر بھٹو اور اس کی بیٹی کو گالیاں دیتے رہے، وہ لوگ جو پیپلز پارٹی کو بطور جماعت ملک کے لئے سکیورٹی رسک قرار دیتے رہے ، وہ لوگ جن کو قاتل لیگ کے طعنے ملتے رہے، وہی لوگ اب زرداری و ہمنواء کو اتنے محبوب ہوجائیں گے، یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔لیکن یہ سیاست ہے اور خصوصاً پاکستانی سیاست میں اخلاقیات کا کوئی وجود اس وقت موجود نہیں ہے۔ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ قاف لیگ کی قیادت کو یقین ہے کہ آئندہ الیکشن میں وہ بطور جماعت شائد عوام میں کوئی پذیرائی حاصل نہ کرپائیں، ان کا مشرفی ماضی ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وہی جماعت جس کو کبھی ایم کیو ایم اور کبھی تحریک انصاف اپوزیشن کی اصل جماعت قرار دیتے تھے وہی جماعت صرف چند ذاتی مفادات کے لئے اس لئے حکومت میں شامل ہونے جارہی ہے کیونکہ بطور جماعت قاف لیگ کی قیادت یہ سمجھتی ہے اور کسی حد تک سمجھنے میں حق بجانب بھی ہے کہ آئندہ الیکشن میں ان کے اکثر اراکین پارلیمنٹ یا تو مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوچکے ہوں گے یا بوجوہ عمران خان کے ساتھ جاملیں گے۔ اگر پارٹی میں کوئی رہ جائے گا تو چوہدریوں کے ساتھ وہ لوگ رہ جائیں گے جنہیں کوئی بھی جماعت قبول نہیں کرے گی چنانچہ قاف لیگ کی قیادت کا حکومت کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ ان کی ذات اور پارٹی کے حوالے سے ایک ”معقول“ فیصلہ نظر آتا ہے کیونکہ وہ لوگ جو مشرف کی جھولی میں جا بیٹھے تھے ان کے نزدیک اصول و اخلاق کی بات گناہ ہے اور اگر کسی بات کی اہمیت و حیثیت ہے تو اقتدار اور دولت کی۔ قاف لیگ کی مرکزی حکومت میں شمولیت اور پنجاب کی گورنری سے جہاں قاف لیگ کو ایک حد تک متحد رکھنے میں مدد ملے گی وہیں پنجاب میں ”شریفوں“ کو مزید ”ٹائٹ“ بھی کیا جاسکے گا ورنہ بطور گورنر کھوسہ صاحب اپنے پیشرو سلمان تاثیر کے مقابلے میں پر کاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتے اور پرویز الٰہی کی صورت میں سلمان تاثیر کی روح کو سکون پہنچانے کی کوشش بھی کی جاسکے گی اور کسی قسم کا کوئی الزام پیپلز پارٹی اور زرداری پر بھی نہیں آئے گا، نیز مرکز میں بجٹ کی منظوری اور اپنی مرضی (حکومت کی مرضی نہیں بلکہ امریکہ اور آئی ایم ایف کی مرضی)کے بجٹ کی منظوری ہوسکے گی جبکہ گورنر اور حکومت کے مابین اختلافات کا فائدہ بھی پیپلز پارٹی ہی اٹھانے کی کوشش کرے گی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور قاف لیگ کے عام لوگ اور اراکین پارلیمنٹ اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ چند جی حضوریوں اور وزارتوں کے مزے لوٹنے والوں کے علاوہ دونوں جماعتوں کا شائد ہی کوئی فرد ہو جو اس اتحاد کو اچھی نگاہ سے دیکھ رہا ہو۔پیپلز پارٹی کے کارکن جو بھٹو کے دیوانے ہیں اور بھٹو کے نام پر جان وارنے کو تیار ہیں وہ کیسے بھٹو اور بینظیر کو گالیاں دینے والوں کو بھول سکتے ہیں، کس طرح ان لوگوں سے ہاتھ ملا سکتے ہیں جن کے ہاتھوں کو وہ بینظیر کے قتل میں لتھڑا ہوا سمجھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے جیالے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر اس وقت پارٹی کی کمان زرداری کی بجائے کسی اور کے ہاتھوں میں ہوتی جو واقعتاً ”جیالا“ ہوتا تو ایسا کبھی نہ ہوتا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور بینظیر بھٹو کے مابین تو معاملات طے ہوچکے تھے، افہام و تفہیم کی فضاء بن چکی تھی لیکن محترمہ کے جو خیالات قاف لیگ کی قیادت کے بارے میں تھے وہ کسی جیالے کو ابھی بھی نہیں بھولے ہوں گے۔ قاف لیگ کے چوہدری صاحبان نے شائد ”الذوالفقار“ کی کاروائیوں اور چوہدری ظہور الٰہی کا قتل کچھ ”پانے“ اور کچھ ”معاف“ کروانے کے عوض بھلا دیا ہے لیکن پاکستان خصوصاً پنجاب کے عوام مشرف دور میں ان کے کارناموں کو نہیں بھلا سکتے اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے جیالے بینظیر بھٹو کو دی جانے والی گالیوں کو بھلا سکیں گے۔ ڈیڑھ سال کی بچی کھچی حکومت میں شمولیت اور وہ بھی ایسے وقت میں جب اس کے اصلی اتحادی اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہوں، سوائے سیاسی خود کشی کے اور کچھ نہیں ہوسکتا، لیکن کیا کریں کہ قاف لیگ کا مستقبل بھی کوئی سنہرا نظر نہیں آتا، موجودہ حکومت بھی اپنے انجام کی طرف رواں دواں ہے جبکہ اب اگر قاف لیگ اس کے جنازے کو کندھا دیتی ہے، بیساکھی بنتی ہے تو اس کا انجام بھی صاف نظر آرہا ہے۔ اگر اس اتحاد سے کوئی سیاسی جماعت خوش و خرم ہے تو یقیناً مسلم لیگ (ن) ہے کیونکہ ”شریف“ بخوبی سمجھتے ہیں کہ الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے کی کاروائیاں ہی عوام کے اذہان کو متاثر نہیں کرتیں بلکہ ماضی کے کرتوت بھی یقیناً سامنے رکھے جاتے ہیں اور اب تو میڈیا فوری طور پر سابقہ کارناموں کو سامنے لے آتا ہے۔ حکومت کا باقی وقت ”دمادم مست قلندر“ میں گزرنے والا ہے اور قاف لیگ کا انجام بھی دیوار پر لکھا نظر آرہا ہے، بس ذرا غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222779 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.