صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین ) انتخاب خدا"

صحابی کے حقیقی معانی ساتھی اور رفیق کے ہیں؛ لیکن یہ اسلام کی ایک مستقل اور اہم اصطلاح ہے ،اصطلاحی طور پر صحابی کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جو بحالت ایمان حضور اکرم (صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) کی صحبت یا ملاقات سے شرف یاب ہوئے ہوں اور ایمان ہی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے ہوں-

اللہ سبحانہُ و تعالیٰ نے جس طرح منصبِ نبوت کے لیے خیرالبشر (صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) کا انتخاب فرمایا، بالکل اسی طرح نبی (صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم)کی رفاقت و مصاحبت کےلئے بھی زمانے کے بہترین افراد کا انتخاب فرمایا، اس لحاظ سے یہ کہنا بجا ہو گا کہ صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین ) دہرا انتخاب تھے، ایک خدا کا انتخاب، جو خدا نے اپنے آخری پیغمبر(صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) کے لیے کیا، دوسرا رسول اللہ (صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم)کا انتخاب جو انھوں نے خدا کے دین کی سربلندی کے عظیم مشن کی تکمیل میں اپنی معاونت کےلیے کیا۔ اسی طرح اللہ سبحانہۂ تعالیٰ کی طرف سے ایک اور انتہائی اعلیٰ ،منفرد اور یکتا اعزاز بھی اصحاب رسول (صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) کے حصے آیا کہ جس طرح حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر رسول (صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) کی بعثت سے پہلے تک مبعوث کیے جانے والے لاکھوں انبیاء کرام پر نبی مکرم(صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) کو برتری اور فضیلت حاصل ہے ،اسی طرح آپ (صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) کے صحابہ کرام کو بھی ان لاکھوں انبیاء کرام کے مصاحبین پر برتری اور فضیلت حاصل ہے- یعنی جو رتبہ ،مقام اور شان اللہ نے اپنے آخری پیغمبر(صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) اور ان کے صحابہ کو دیا ،وہ پہلے کسی اور پیغمبر اور ان کے مصاحبین کو نصیب نہیں ہوا، یہی وجہ ہے کہ آج یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ماسوائے انبیاء کرام، صحابہ کرام(رضوان اللہ علیہم اجمعین) کائنات بھر کے انسانوں سے عظیم المرتب،رفیع المنزلت ،سیرت و خصائل میں اعلیٰ و ارفع ترین اور خود خالقِ کائنات کا اپنا انتخاب تھے-

صحابہ کرام کی شان ،عظمت اور ان کے خدائی انتخاب کو عقلی و منطقی زاویہ نظر سے پرکھا جائے تو بھی یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچتا ہے کہ اللہ سبحانہُ وتعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر(صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) کے لئے جس طرح زمانے کے لحاظ سے بہترین زمانہ، پیدائش کے لحاظ سےدنیا کا بہترین خطہ، اور زبانوں میں سے دنیا کی بہترین اور فضاحت و بلاغت سے لبریز زبان کا انتخاب فرمایا، اور جیسا کہ رب کائنات نے روضہء رسول (رسول اللہ (صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) اور مسجد نبوی کے انتظام و ونصرام کا منصب بھی ایک ایسی قوم کو بخشا جس کی سخاوت، مہمان نوازی اور دریا دلی کے چرچے پورے عالم میں پھیلے تھے ،بالکل اسی طرح یہ امتیاز روا رکھنا بھی ضروری سمجھا، کہ نبی (صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) کی رفاقت و مجالست کے لئے کرہ ارض کے انسانوں میں سے بہترین انسانوں کا انتخاب کیا جائے-

صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کو اپنے خدائی انتخاب کا بخوبی احساس تھا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے خالق کائنات کی طرف سے اس عظیم انعام،احسان اور نعمت کا حق ادا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور ایثار و قربانی کی ایسی شاندار مثالیں قائم کیں کہ جن کو پڑھ کر قیامت تک مومنین کے ایمانوں میں تازگی کی لہریں ابھرتی رہیں گیں،ان سرفروشوں اور وفا کے پیکروں کے ضبط ،صبر اور برداشت کی انتہا کا عالم دیکھئیے ...کہ کہیں ان وفا شعاروں نے جنگوں میں گردنیں کٹوائیں...کہیں جسموں کے چیتھڑے ادھڑوائے، اور کہیں انہیں دہکتے انگاروں اور سلگتی صحرائی ریت پر جھلسایا گیا، کہیں روحیں فقر و فاقہ مستی اور تنگدستی و عسرت کے سبب بلبلاتی رہیں، اور کہیں جان و مال اور اپنے پیار و اعتبار سے آزمائش کی بھٹی سے گزارا گیا، کہیں وطن زمین ،جائیداد ،متاع سب کچھ قربان کرنا پڑا ،اور کہیں مواخات مدینہ جیسی قربانی کی تاریخِ انسانی کی عظیم و الشان تاریخ رقم کی-

بلاشبہ صحابہ کرام نے اپنے ایثار ، ،وفا، اور اپنے عجز و انکسار سے خالقِ کائنات کو اس قدر راضی کر لیا تھا کہ خدا نے اپنی کتاب میں قیامت تک کے انسانوں کے لیے ان کا کردار آئیڈیل اور مثالی قرار دے دیا، صحابہ کی منقبت میں بے شمار قرآنی آیات اور احادیث موجود ہیں، بلکہ حقیقی معنوں میں پورا قرآن سیرت مصطفیٰ (صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) اور سیرت صحابہ کی ہی عملی تفسیر ہے ,اگرچہ قرآن و احادیث میں صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی عظمت و رتبے اور شان کا تفضیلی بیان موجود ہے ، لیکن اختصار اور پابندی الفاظ کی شرائط کے باعث اس ضمن میں چند ایک آیات کے مفہوم اور چند مخصوص احادیث پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا-
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن میں صحابہ کی شان و منقبت کچھ انداز سے بیان فرمائی:-
"تمام صحابہ(نبی کے ساتھی)حقیقی مومن، بخشش اور عزت والے(جنتی)رزق پانے والے ہیں".
[دلیلِ قرآن-سورۃ الانفال:74]
ایک اور جگہ کفار و منافقین کی بے سر و پا باتوں کا خود خالق کائنات نے کچھ اس طرح سے جواب دیا:-
"وہ معیارِحق اور تنقید سے بالاتر ہیں، بلکہ ان کے گستاخ ہی بیوقوف ہیں"۔
[البقرۃ:13، 137]
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے انہیں حق کی پہچان کا معیار قرار دیتے ہوئے، انہیں کائنات کی سب سے عظیم نعمت یعنی جنت کی بشارت دی:-
"وہ اس قابل ہیں کہ ان پیروی کی جائے اور وہ جنتی ہیں"۔
[التوبۃ:100 الحدید:10
"ان کے آنے سے پہلے ہی ان کی خوبیاں پہلی کتابوں تورات وانجیل میں بیان کرتے انہیں محمد رسول اللہ (صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) کا ساتھی چنا جاچکا تھا"-
[الفتح:29]

"الله ان سے راضی ہوچکا اور وہ اس سے راضی ہوچکے"
[الفتح:18]

"پھر وارث بنایا ہم نے کتاب کا ان لوگوں کو جن کا ہم نے اپنے بندوں میں سے انتخاب کیا۔."..الخ.
الفاطر :32
(یعنی قرآن مجید کے پہلے وارث بالیقین صحابۂ رسول ہیں، جن کے بارے میں آیتِ مبارکہ گواہی دیتی ہے، وہ اﷲ کے منتخب بندے ہیں؛ پھر بعض مقامات پر ان منتخب بندوں کو سلامِ خداوندی سے بھی نوازا گیا)-

اسی طرح رسول کریم (صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) کی زبان مبارکہ سے بھی بارہا صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے مقام و مرتبے کا تعین ہوا -
ایک روایت میں جناب رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:-
"اللہ نے میرا انتخاب فرمایا اور میرے لئے میرے صحابہ کا انتخاب فرمایا " (الفتح الکبیر)
ایک اور روایت میں نبی (صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) نے ایک ترتیب بنا کر صحابہ کے مقام و مرتبے کا کیا خوب اظہار فرمایا:-
"لوگوں میں سب سے بہترین میرے قرن والے ہیں،پھر وہ جو ان کے بعد والے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد والے ہیں" (بخاری شریف' باب لایشھد علی شھادتہ الجور)

اسی طرح بخاری شریف کے باب صفات النبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) ( کتاب الفضائل ٧/٣ ) میں آتا ہے ؛
ترجمہ:- "ابن آدم کے سب سے بہترین لوگوں کے درمیان مجھے بھیجا گیا ہے "

صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کا اس سے بڑا اور کیا اعزاز ہو سکتا ہے ،کہ نہ صرف ان کی بصارتیں دیدار نبی (صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) سے منور ہوتی تھیں، بلکہ ان کی سماعتیں بھی بلاواسطہ احکام خداوندی سے محو گوش رہیں ،اور خوش بختی کا عالم دیکھئیے کہ نہ صرف رسول اکرم (صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) کا شرف صحبت اور حلقہ یاراں نصیب ہوا، بلکہ آپ (صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) کی زبان مبارک سے جنت کی بشارتیں اور فتح و نصرت کی خوش خبریاں بھی سننے کو ملیں ، اللہ اللہ.. کیسا مقام و مرتبہ پایا کہ ان کے خلوص و جاں نثاری اور وفاداری و وفا شعاری کے مثالیں تاریخ اور احادیث کے ذخائر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہو کے رہ گئیں-

اگرچہ صحابہ خدائی انتخاب تھے اور روئے زمین پر ماسوائے انبیاء کرام کے پیدا ہونے والے تمام انسانوں میں سے افضل ترین بشر بھی ، لیکن بحرحال معصوم نہ تھے، "انسان مرکب من الخطاء والنسیان" کے مصداق بحیثیت انسان ان سے بھی خطا کا احتمال موجود تھا، ، بشری تقاضے انھیں بھی لاحق تھے،انسان ہونے کے ناطے ان کی سوچ اور خیالات میں تضادات بھی پائے جاتے تھے، ان پر انسانی جذبات و احساسات کا غلبہ بھی ہوتا تھا، شیطان انھیں راہِ حق سے ہٹاتا بھی تھا، گاہے دنیا ان کی طرف جھک بھی جاتی تھی، انجام کار مگر یہی ہوتا تھا کہ سب آلائشوں سے ہاتھ جھاڑ کر یہ خدا اور اس کے رسول کے جھنڈے تلے اکٹھے ہو جاتے اور شجر نبوت کے سائے میں ایسے پناہ گزین ہوتے کہ پھر ان کے لئے دنیا و مافیا کی کچھ حیثیت باقی نہ رہتی-

انبیاء کرام کے بعد انسانوں میں اللہ کے قانون اور احکامات کی پاسداری اور محافظت کا صحیح معنوں میں حق ادا کرنے والے یہی لوگ تھے۔ جنت سے زمیں پر اتری زندگی اگر اک امتحان ہے تو یہ اس امتحان میں امتیازی شان سے سرخرو ہوئے، یوں کہ ان کی عظمت اور کامیابی کے سرٹیفیکیٹ خود خدا تعالیٰ نے قرآن میں جاری فرمائے، جن کی تلاوت تا حشر جن و انس کرتے رہیں گے-

ان کا ایمان و یقین اس قدر مضبوط اور پختہ ہو چکا تھا کہ سماجی جبر و کشیدگی اور ظلم و تشدد سے ایک انچ بھی ان کے پائے استقامت میں لغزش نہ آنے پائی، ان کے دل زم زم سے دھل کر پاکیزہ اور پوتر ہو چکے تھے، ان کے دل و دماغ میں خدا کی جنت اور رسول(صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) کی محبت سما چکی تھی، ان کی آنکھیں عکس روئے مصطفی (صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) سے لذت آشنا ہو چکیں تھیں، جنت انھیں ہمالیہ کی طرح اپنے سامنے ایستادہ دکھائی دیتی تھی ، ان کی روحوں کا خدا سے رشتہ اس قدر مضبوط ہو چکا تھا کہ کبھی خطا بھی ہو جاتی تو کئی کئی راتیں رو رو کر گزار دیتے، جہاد سے پیچھے رہ جاتے تو کہیں چین و سکون نہ ملتا ،کبھی سازو سامان یا سواریاں کم ہوجانے کے باعث جہاد سے لوٹا دئیے جاتے تو یوں اشک بہاتے گویا متاع جاں سے محروم کر دئیے گئے ہوں، غرض کہ ان کی زندگی کے ایک ایک پہلو سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ وہ خالق کائنات کے تخلیق کردہ کوئی عام نہیں بلکہ منتخب اور غیر معمولی ھستیاں تھے ، جنہوں نے اپنے خدائی انتخاب کا نہ صرف صحیح معنوں میں حق ادا کیا ،بلکہ حقیقت میں معاونت،رفاقت اور سرفروشی کی زبردست مثالیں پیش کیں-

آج موجودہ دور میں جب کہ مال و متاع ،حسب نسب ،نمود و نمائش کی وبا عام ہو چکی ہے، دنیا کی محبت اور مادہ پرستی ایک عفریت کی شکل میں انسانیت کے دل و دماغ پر مسلط ہوچکی ہے، ضرور اس امر کی ہے کہ اپنی معاشرتی اور سماجی زندگیوں کو رسول کریم (صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام کے طرز زندگی کے سانچے میں ڈھالا جائے،اور ایک ایسا مربوط نظامٍ زندگی وضع کیا جائے جو ہماری آنے والی نسلوں کو اس پرفتن ،پرآشوب اور پرخاش دورِ افراتفری سے نجات دلائے، جس طرح صحابہ نے قرآن اور صاحب قرآن (صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) کی تعلیمات کو ضابطہ حیات بنایا ، بالکل اسی طرح ہمیں بھی اپنے نظام حیات کو مرتب کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ نبی (صّلی اللہ عَلیہِ وَالہ وسلم) کے بعد تاریخ انسانی میں خیر و بھلائی کا اگر کوئی حسین باب ہے تو وہ حیاۃ الصحابہ کا ہی باب ہے ,انسان کی انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی اس کی خوشی کی حالت ہو یاپریشانی کی اس کی سیاست کا معاملہ ہو یا ریاست کا، معاشیات کا مسئلہ ہو یا اقتصادیات سمیت کوئی بھی کٹھن مرحلہ...مطالعہ دور صحابہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں انسان اور انسانیت کی سب سے عظیم اور بہترین رہنمائ کے لئے موجود ہے-

Tahir Ayub Janjua
About the Author: Tahir Ayub Janjua Read More Articles by Tahir Ayub Janjua: 22 Articles with 17524 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.