مولانا محمد منصور احمد
ایک عرب عالم دین پاکستان تشریف لائے ۔ اُن کا یہ سفر کچھ عوامی اور کچھ
علمی سلسلے کا تھا ۔ انہوں نے یہاں کئی شہر دیکھے ‘ بہت سے لوگوں سے
ملاقاتیں کیں ۔ عوامی مجمعوں میں گھل مل کر اُن سے تبادلۂ خیالات کیا ۔
اسی سفر کے دوران کہیں اُن کی طبیعت نا ساز ہو گئی تو وہاں موجود ہر شخص نے
اپنے اپنے ذوق کے مطابق نسخہ تجویز کیا ۔ کہیں کوئی مسئلہ پیش آگیا تو تمام
ہمراہیوں نے اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اُس پر رائے زنی کی ۔ وہ دانا
شخص سب کچھ دیکھتے اور سنتے رہے ۔ چند دن بعد جب وہ اپنا سفر مکمل کر کے
واپس جانے لگے تو الوداع کہنے کیلئے ائیر پورٹ تک آنے والے دوستوں کے سامنے
کہا :
’’ماشاء اللہ ‘ فی الباکستان کل مسلم طبیب و کل مسلم مفتی ‘‘
﴿ یعنی ماشاء اللہ ! پاکستان میں تو ہر شخص ڈاکٹر بھی ہے اور مفتی بھی ہے ﴾
اُن کا یہ جملہ صرف ایک خو بصور ت طنز ہی نہیں بلکہ ہمارے قومی مزاج کی
بہترین عکاسی بھی ہے ۔
آج میں ہفتہ وار کالم لکھنے بیٹھا تو ذہن میں بہت سے مسائل تھے ۔ ڈرون
حملوں کا مسئلہ، جس نے ہماری قومی سلامتی اور ملکی خود مختاری کا جنازہ
نکال دیا ہے اور اس قتل ِ عام میں ’’ حکومتی رِ ٹ ‘‘ نجانے کہاں دُم دبا کر
بھاگ گئی ہے ۔ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ ‘ جس نے مجھے اور آپ سب کو براہِ راست
متاثر کر رکھا ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ صورت ِ حال تھی کہ کبھی کبھی بجلی
جاتی تھی اور اب یہ حالت ہے کہ کبھی کبھی بجلی آتی ہے ۔ بقولِ کسے :’’اگر
یہی حالات رہے تو جلد ہی پاکستان قوم اتنی ترقی کر جائے گی کہ باپ بیٹے سے
کہے گا ‘آؤ بیٹا !آج تمہیں بجلی دکھا لاؤں اور گھروں کے بڑے ‘ دانشوروں کی
طرح چھوٹے بچوں کو بتایا کریں گے کہ ہمارے بچپن میں ایک دور وہ تھا جب دن
میں صرف ایک گھنٹہ لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی ‘‘۔ عوام کی تسلی کیلئے عرض ہے کہ
لوڈ شیڈنگ کا تحفہ صرف ہمارے لیے ہے ورنہ پیپکو نامی ادارے کو ایوانِ صدر ‘
ایوان وزیر اعظم اور آرمی ایریاز کے بشمول سات سو وی آئی پی فیڈ رز پر بجلی
بند نہ کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے ۔ ان ’’ مفلوک الحال غریبوں ‘‘ کو
ڈبل سروس کے علاوہ سرکاری خزانے سے جنریٹر کی سہولت بھی حاصل ہے ۔ وہ
محاورہ تو آپ نے سن رکھا ہے نا ’’ زخموں پر نمک چھڑکنا ‘‘ یہ خبر پڑھ کر
بالکل یہی کیفیت ہو جاتی ہے ۔ بالخصوص جب کہ متعلقہ ساتھی یہ اطلاع بھی دے
دیں کہ اس مرتبہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے رسائل کی بروقت تیاری مشکل ہی نہیں ‘
تقریباً نا ممکن ہے ۔
اسی طرح کے کئی اور موضوعات بھی ذہن میں کلبلا رہے تھے لیکن یہ سب مسائل
جان لیوا ہیں ۔ ایک ساتھی نے ایسی بات بتائی جو ایمان لیوا ہے اور اب وہ
ایک وبائی مرض کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ بات انہوں نے یہ بتائی کہ
کسی ٹی وی چینل پر ایک نام نہاد مفکر ِ اسلام نے یہ ’’ ارشاد ‘‘ فرمایا کہ
زمانۂ رسالت میں مردوں کو جو داڑھی رکھنے کا حکم دیا گیا تھا اور عورتوں
کو بال کاٹنے سے منع کیا گیا تھا ‘ اُس کی وجہ ﴿ نعوذ باللہ تعالیٰ﴾ یہ تھی
کہ عرب ‘ ریتیلا صحرائی علاقہ ہے ۔ وہاں ریت ہر طرف اڑتی تھی اور لوگ اس کی
وجہ سے سخت پریشان رہتے تھے ۔ سر اور داڑھی کے بال اس کیلئے قدرتی محافظ کا
کام دیتے تھے اور یہ بال کاٹنے کی وجہ سے ’’ سِکن پرابلم ‘‘ پیدا ہونے کا
امکان تھا ۔ ہمارے یہاں آج کل چونکہ ایسی کوئی صورت حال نہیں ‘ اس لیے یہ
حکم بھی نہیں ہو گا ۔
تعجب ان ’’ سیاہ خیال ‘‘ ملحدوں پر نہیں جو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم
کے لائے ہوئے دین کو الٹی چھری سے ذبح کرنے کے درپے ہیں کیونکہ ان بے چاروں
کا روز گار اور ڈیوٹی یہی ہے ‘ حیرت اور افسوس ان لوگوں پر ہے جو ایسے بے
دینوں کو اپنا دینی پیشوا اور راہنما بنا لیتے ہیں ۔
احادیث مبارکہ میں تو اس بات سے بھی اشارتاً منع فرمایا گیا ہے کہ انسان کو
ایسے پرہیز گار عبادت گزار سے بھی مسائل نہیں پوچھنے چاہئیں جو علم دین سے
بہرہ ور نہ ہو ۔ اس سلسلے میں یہ واقعہ جو انتہائی مستند روایات میں آیا ہے
‘ یہاں قابلِ ذکر ہے : حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے
ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ سابقہ قوم میں ایک
آدمی تھا جس نے ننانوے آدمی قتل کئے تھے ﴿ اس کو ندامت ہوئی ﴾ اس نے لوگوں
سے روئے زمین کے سب سے بڑے عالم کا پتہ معلوم کیا تو اس کو ایک راہب﴿عبادت
گزار﴾ کا پتہ بتایا گیا چنانچہ وہ اس کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ اس نے
ننانوے آدمی قتل کئے ہیں ، کیا اس کے لئے توبہ کی کوئی صورت ہے ؟ اس راہب
نے کہا کہ نہیں ، یہ سن کر اس نے اس کو بھی قتل کر دیا ، اس طرح سو کا عدد
پورا کر دیا ، پھر اس نے لوگوں سے روئے زمین کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں
پوچھا تو لوگوں نے ایک عالم کی طرف اس کی رہنمائی کر دی ، چنانچہ وہ اس کے
پاس گیا اور اس سے کہا کہ اس نے سو جانیں قتل کی ہیں ، کیا اس کے لئے توبہ
کی کوئی گنجائش ہے ؟ اس نے کہا کہ کیوں نہیں ، بالکل ہے ، بھلا اس کے اور
توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے ؟ تم ایسا کرو کہ فلاں علاقہ میں چلے
جاؤ ، وہاں تمہیں کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے ملیں گے تم ان
میں شامل ہو کر اللہ کی عبادت اور بندگی شروع کر دینا اور اپنے علاقہ میں
واپس ہرگز نہ آنا کیوں کہ یہ برا علاقہ ہے ، چنانچہ وہ چل پڑا ۔ ابھی آدھے
راستہ پر تھا کہ موت کا وقت آگیا ، رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے آپس
میں بحث کرنے لگے ، رحمت کے فرشتے کہنے لگے کہ یہ شخص توبہ تائب ہو کر اپنے
قلب کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کر کے نکلا تھا اس لئے اس کی روح ہم قبض
کریں گے ، عذاب والے فرشتے کہنے لگے کہ اس نے تو کبھی کوئی نیکی ہی نہیں کی
۔ اس لئے ہم اس کی روح قبض کریں گے ، پھر ایک فرشتہ انسانی صورت میں آیا
اور اس نے ان کے درمیان محاکمہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں زمینوں کے درمیان کا
فاصلہ پیمائش کر لو جس طرف زیادہ قریب ہو اس کا حکم لگایا جائے ، چنانچہ جب
پیمائش کی گئی تو اس زمین ﴿ علاقہ ﴾ کے زیادہ قریب پایا گیا جس طرف جانے کا
وہ ارادہ رکھتا تھا ۔ چنانچہ رحمت کے فرشتوں نے اس کی روح کو قبض کیا ۔
﴿بخا ر ی ، مسلم ﴾
اس حدیث مبارک میں تو سابقہ امتوں کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے ۔ ایک اور حدیث
پاک پڑھیں ‘ جس میں واضح طور پر ایسے ہی گمراہوں کی طرف اشارہ ہے جو خود
بھی راہ ہدایت سے محروم ہیں اور دوسروں کو بھی سیدھے راستے سے بھٹکانے
کیلئے کوشاں ہیں : حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت
ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ
تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے لوگوں کے سینوں سے نکال لے
لیکن وہ علم کو علماء کی وفات کے ذریعے اٹھائے گا یہاں تک کہ جب وہ کسی
عالم کو باقی نہیں رکھے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے ان سے سوال
کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے جواب دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور
دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ۔ ﴿بخاری ‘ مسلم﴾
قیامت کے قریب علم دین اٹھا لیا جائے گا ،جاہل اور بے عمل لوگ لوگوں کے
سردار اور دینی راہنما ہوں گے اور صحیح علم دین کے حامل صلحاء اور اتقیاء
شاذو نادر رہ جائیں گے۔ فرمایا کہ یہ ایسا نہیں ہو گا کہ علماء کے سینوں سے
علم دین نکال لیا جائے بلکہ یہ ہو گا کہ علمائے دین وفات پا جائیں گے اور
جاہل لوگ عالم اور مفتی بن بیٹھیں گے لوگ ان سے سوال کریں گے اور بغیر علم
صحیح کے جواب دیں گے ۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں
کو بھی گمراہ کریں گے ۔
یہ گمراہ طبقہ کیوں دینِ اسلام میں ایسی تحریفات کا مرتکب ہوتا ہے ۔ اس کی
ایک وجہ تو قرآن و سنت سے لا علمی و جہالت ہے ۔ آپ کہیں گے کہ یہ تو بڑے
پڑھے لکھے ہوتے ہیں ۔ جی نہیں ! چند اردو تراجم دیکھ کر یا محض عربی زبان
سیکھ کر کوئی شخص مسئلہ بتانے کا بھی اہل نہیں بن سکتا ‘ چہ جائے کہ وہ
ساری امت کے خلاف نئی راہ نکال کر چودہ سو سال کے علماء ‘ فقہاء ‘ محدثین
اور مفسر ین کو کم فہم قرار دینے لگے ۔ مجھے اس چیز کا بذات ِ خود کئی
مرتبہ تجربہ ہوا ہے کہ ایسے لوگ صرف جہالت کے نہیں بلکہ ’’ جہلِ مرکب‘‘ کا
شکار ہوتے ہیں ۔
دوسری وجہ ‘ حب جاہ اور شہرت پسندی کا مرض ہے یہ ایک نفسیاتی چیز ہے کہ لوگ
جدت پسندی میں دلچسپی لیتے ہیں ۔ اور ہر نئی چیز کو ﴿ بشرطیکہ اس پر کوئی
خوش نما غلاف چڑھا دیا جائے ﴾ دوڑ کر اُچکتے ہیں ۔ اس لئے شہرت پسندی کے
مریض دین کے معاملہ میں بھی نئی نئی جدتیں تراشتے رہتے ہیں ۔ حدیث میں
ارشاد ہے کہ آخری زمانے میں بہت سے جھوٹے دجال ﴿ فریبی ﴾ ہوں گے ۔ وہ تمہیں
ایسی باتیں سنائیں گے جو نہ کبھی تم نے سنی ہو ں گی ۔ نہ تمہارے باپ دادا
نے ان سے بچتے رہو ۔ وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور فتنے میں نہ ڈال دیں ۔
﴿مشکوٰۃ ص ۸۲﴾
ایک تیسری اور عام وجہ دوسری قوموں کی تقلید ہے ۔ یہ تمدن و معاشرت کا ایک
فطری اصول ہے کہ جب مختلف تہذیبوں کا امتزاج ہوتا ہے تو غیر شعوری طور پر
ایک دوسری کو متاثر کرتی ہیں ۔ جو قوم اپنے تہذیبی خصائص کے تحفط کا اہتمام
نہیں کرتی وہ اپنے بہت سے امتیازی اوصاف کھو بیٹھتی ہے . خصوصیت کے ساتھ جو
تہذیب مفتوح و مغلوب ہو وہ غالب تہذیب کے سامنے سپر ڈال دیتی ہے ۔ مسلمان
جب تک غالب و فاتح تھے اور ان میں اپنے تہذیبی خصائص کے تحفظ کی فکر تھی‘
تب وہ اس وقت تک دوسری تہذیبوں پر اثر انداز ہوتے رہے لیکن جب ان کی ایمانی
حرارت ٹھنڈی ہو گئی ، دلوں کی انگیٹھیاں سرد پڑ گئیں ۔ اور ان میں من حیث
القوم اپنے خصائص کے تحفظ کا ولولہ نہ رہا تو وہ خود دوسری تہذیبوں سے
متاثر ہونے لگے . دور جدید میں مسلمانوں کا انگریزی تہذیب سے متاثر ہونا اس
کی کافی گواہی ہے ۔
میں نے اس مضمون میں گمراہ ملحدین کے غلط اجتہاد کی صرف ایک مثال پیش کی
‘ورنہ روز ہی کسی نہ کسی طرف سے ایسی کوئی بات سننے کو مل جاتی ہے ۔ اس لیے
اگر ہم اپنے ایمان اور دین کی حفاظت چاہتے ہیں تو دینی معاملات میں کسی کی
رائے پر اعتماد کرنے سے پہلے اُس کے علمی شجرہ نسب اور اُس کے اخلاق و
عادات کو دیکھ لینا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کسی گمراہ کے پیچھے چل کر
گمراہیوں کی دلدل میں دھنس جائیں ۔ آخر دنیاوی علاج و معالجہ میں بھی تو ہم
بہترین معالج اور اپنے فن کے متخصص ﴿سپیشلسٹ ﴾ کو تلاش کرتے ہیں ‘ پھر دینی
معاملات میں یہ غفلت ‘ سستی اور کوتاہی آخر کیوں ہے کہ ہم ہر راہ چلتے سے
دینی مسئلہ دریافت کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یوں ہم نے اپنی ذمہ داری
ادا کر دی ہے ۔
اللہ کریم ہم سب کو ہر قسم کے فتنہ اور فتنہ سازوں سے بچائے ۔﴿آمین﴾ |