ہندوستان میں تین انتہائی متنازعہ الفاظ " جے شری رام" کا
مطلب ہندو دیوتا کے جشن کے طور پر لیا جاتا ہے. مزید برآں "بھگوان رام کی
فتح" کے طور پر اس کا لفظی ترجمہ کیا جاتا ہے. لیکن آجکل یہ جملہ نفرت کے
پرچار کے لئے استعمال ہو رہا ہے. مسلمانوں پر تو یہ کتے کی سیٹی کے مصداق
استعمال ہو رہا ہے. جی "جے شری رام " یہ وہ ہی الفاظ تھے جو ہفتہ، یکم
فروری کو نئی دہلی میں واقع مسلم کالونی شاہین باغ میں سینکڑوں غیر مسلح
خواتین اور بچوں پر اپنی نیم خودکار پستول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے 25 سالہ
کپل گجر نے چیختے ہوئے اپنی زبان سے نکالے. دھواں زدہ دوپہر اور ہر شعبہ
ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی شہریوں کے ایک متنازعہ قانون کے
خلاف پر امن احتجاج میں جمع ہوئے تھے جو خاص طور پر ملک کے غریبوں، خواتین
اور سب سے زیادہ مسلمانوں کو متاثر کرتا ہے، گجر نے تین گولیاں فضا میں
فائر کیں. مجمع بکھر گیا، بعدازاں پولیس نے ہتھکڑی لگاتے ہوئے، گجر نے اپنا
مقصد واضح کیا :"ہمارے ملک میں، صرف ہندو ہی غالب رہیں گے" . لحاظہ یہ بیان
ہندو بالا دستی کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے. حالیہ دنوں میں اس جملے(جے شری
رام) کی ابتدا ہندوستان میں عقیدت کے متنازعہ اعلامیے کے طور پر ہوئی ہے.
اب یہ نہ صرف ہندو وطن پرست نعرے کی حیثیت سے بڑھتی جارہی ہے بلکہ ہر ایک
کے لئے خطرہ بھی ہے جو ہندو بالادستی کو چیلنج کرنے کی ہمت کرتا ہے. گجر کا
یہ پیغام بنیادی طور پر بھارت میں 200 ملین مسلمانوں کے لئے تھا جو کہ 13
بلین ہندو آبادی میں سب سے بڑی مزہبی اقلیت ہے. اور یہ ہی وزیراعظم نریندر
مودی اور ان کی حکمران جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جی پی) کے زریعے چلائی
جانے والی مسلم مخالف مہم میں ناخوشگوار اہداف بن گئے ہیں. تناؤ کی تازہ
ترین وجہ نیا شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) ہے، جو کہ مذہب کی بنیاد پر
امتیازی سلوک کرتا ہے. اس قانون کے تحت افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان
سے آنے والے مہاجرین جو کہ 2015 سے قبل داخل ہوئے انھیں شہریت نہ دینے،
جبکہ وہ مہاجرین جو کہ بدھ، عیسائی، ہندو، جین، سکھ یا زرتشت کو شہریت دینے
کا معاملہ ہے. یہ قانون کھلم کھلا مسلم مخالف مہم کی عکاسی کرتا ہے. اس
موقع پر ایک بزرگ عورت جو کہ مسلمان ہیں ان کا کہنا تھا کہ کہ اگر مودی
اپنے تمام کاغذات دیکھائے تو ہم بھی اپنے کاغذات دیکھا دیں گے. سرگرم
کارکنوں کے مطابق یہ قانون سیکولر بھارت کی نفی کرتا ہے اور آئین میں شامل
سیکولر اصول کے منافی ہے. اس کے بعد سے بھارت سیکولر ریاست سے ہندو انتہا
پسند ریاست میں تبدیل ہورہا ہے. اس ایکٹ کے نافذ ہونے کے بعد سے بھارت میں
بڑے پیمانے پر احتجاج نے ملک کے شہروں اور قصبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا
ہے. نام نہاد سیکولر بھارت میں غیر معمولی مناظر ہیں، ہزاروں مظاہرین
انسانی زنجیریں تشکیل دے رہے ہیں. گویا کہ شاہین باغ مزاحمت باغ کی تصویر
پیش کر رہا ہے. اس سال کے آغاز سے ہی اس جملے (جے شری رام) نے دارالحکومت
میں دہشت کو ہوا دی ہے. جنوری کی رات کو ہندو انتہا پسند نقاب پوش حملہ
آوروں کے ایک جتھے نے چیختے ہوئے یہی جملہ کہا اور وہاں پر موجود سراپا
احتجاج طلبا کو تشدد کا نشانہ بنایا. گو کہ یہ جملہ درحقیقت انتہا پسندی کا
استعارہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اس جملے کا مرکزی کردار رام جو کہ مقبول ہندو
دیوتا، ہمیشہ انصاف، بہادر، راستباز اور قربانی کے طور پر جانا جاتا ہے.
لیکن حالیہ دنوں میں انتہا پسند سینکڑوں افراد نے اس کردار کے تشخص کو
متنازعہ کردیا ہے. یہاں پر سوچ طلب بات یہ ہے بحیثیت انتہا پسند انسان
ہمیشہ اپنے مذہب کو درمیان میں لا کر اس کا غلط استعمال کیوں کرتا ہے؟ جبکہ
وہ تو اپنے مذہب کے منافی عمل پیرا ہوتا ہے. کیونکہ میری محتاط رائے کے
مطابق اس دنیا کا کوئی بھی مذہب انتہا پسندی کا قائل نہیں ہو سکتا. کوئی
بھی مذہب نفرت انگیزی کی تعلیم نہیں دیتا. یہ سب انسانوں کی خرافات ہیں، جو
کہ اپنی منفی اقدام کو مذہب کی آڑ میں تحفظ فراہم کرتے ہیں. اور اس سے وہ
اپنے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کے تشخص کو بھی متنازعہ کرتے ہیں. اور یہی کچھ
بھارت میں ہو رہا ہے. مسلمان تو بھارت کی طاقت کا سرچشمہ ہیں اور بقول ایک
شاعر جو کہ مسلمانوں کی آواز کو کیا خوبصورت پیرائے میں پیش کرتے ہیں،
لکھتے ہیں کہ ؛
سبھی کا خون شامل ہے اس وطن کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
|