رجب کا مہینہ آتے ہی ہر طرف ہمارےپیارے، لاڈلے پیغمبر
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک تاریخی واقعہ جس کو اسلامی تاریخ میں
معراجِ مصطفیٰ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس کی ہر طرف گونج شروع ہو جاتی
ہے اور مختلف سمینار اور محفلوں میں محبانِ مصطفیٰ اپنے اپنے انداز میں
مناتے ہیں۔
اور واقعہ معراج کا فلسفہ تو خود اللہ رب العزت نے بھی قرآن کریم میں بہت
اچھے انداز میں بیان کیا ہے اور ارباب عشق تو صحیفہ اِنقلاب قرآنِ
حکیم،فرقانِ حمید کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعتِ مسلسل سے بھی
تعبیر کرتے ہیں۔ اِس لئے کہ ورق ورق پر محامدِ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی دھنک بکھری ہوئی ہے۔ سطر سطر میں محاسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی قِندیلیں روشن ہیں اور ہر حاشیہ خوشبوئے اِسمِ محمد صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم سے مہک رہا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ
السلام تک نازِل ہونے والے تمام صحیفے بھی ذکرِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے اَنوارِ سرمدی سے تابندہ ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ جلیل القدر
ہستیاں نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف
آوری کا اِہتمام فرما رہی ہیں، جیسے کائنات کا ذرّہ ذرّہ تاجدارِ کائنات
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدم بوسی کے لئے بیتاب و مضطرب ہے، جیسے
کارکنانِ قضا و قدر صبحِ مِیلاد کی پُرنور ساعتوں کی پذیرائی اور رسولوں کے
لئے گویا اِعتبار کی سند جاری ہوتی ہے۔ مُعجزہ برہانِ نبوّت و رِسالت ہے،
رُشد و ہدایت میں نعتِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باب اُس وقت تک
مکمل نہیں ہوتا جب تک قرآن اور مُعجزاتِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے منصبِ رِسالت کے گرد عظمتوں اور رِفعتوں
کے نورانی ہالے کا اِدراک اور شعور حاصل نہ کیا جائے۔ شعوری سطح پر عظمتِ
رسول کا اِدراک ذہنِ اِنسانی میں اُبھرنے والے اَن گنت سوالات کا بھی جواب
ہوتا ہے۔ اِسی سرچشمۂ شعور سے اِیمان و اِیقان کے سُوتے پھوٹتے ہیں اور
صراطِ مستقیم پر گامزن مسافرانِ راہِ حق قربِ اِلٰہی کی منزل سے ہمکنار
ہوتے ہیں اور توحید کے پرچم فرد کے ظاہر ہی میں نہیں اُس کے باطن میں بھی
لہرانے لگتے ہیں۔
قرآن اور ذکرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دُوئی کا کوئی تصوّر
نہیں۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ قرآن ذکرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم سے خالی نہیں اور زبانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذکرِ قرآن سے
مملو ہے۔ قرآن کا اُسلوبِ عشق عجب پُر بہار ہے۔ قرآن کبھی تاجدارِ کائنات
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوّت و رِسالت کا اِعلان کرتا ہے، کبھی کفار و
مُشرکین کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اِیمان لانے کی ہدایت فرماتا ہے،
کبھی آمنہ کے لال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وَالضُّحٰی کے پیار بھرے لقب
سے پکارتا ہے اور کبھی طٰہٰ کے محبت آمیز خطاب سے یاد کرتا ہے۔ قرآن میں
کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عنبریں زُلفوں کا ذِکر چھیڑتا ہے تو
کبھی اِحترامِ رسول کا تذکرہ ہوتا ہے۔ قرآن کبھی آپ کی اِطاعت پر زور دیتا
ہے اور کبھی آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوں کا بیان ہوتا
ہے۔ کبھی آپ کے جود و سخا کی بات، کبھی آپ کے دستِ عطا کا ذِکر، کبھی حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کی باتیں، کبھی شہرِ مکہ کی قسمیں کہ محبوب
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس شہر کو تیری قدم بوسی کا اِعزاز حاصل ہوا۔
قرآن کبھی محبتِ اِلٰہی کے لئے اِتباعِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
مشروط قرار دیتا ہے اور کبھی اِطاعتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو
اِطاعتِ اِلٰہی ٹھہراتا ہے۔ کبھی قرآن اللہ اور اُس کے محبوب رسول صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے کلام کے درمیان وحدت قائم کرتا ہے۔ اِیمان، اِطاعت،
مَعصیت، مخالفت، عداوت، حرّیت، جہاد، رضا، غنا، فقر، عطا، نِدا، برات،
رُجوع، اِنعام، فیصلہ غرضیکہ اِن تمام چیزوں کو جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ
کی ذاتِ لاشریک کے لئے ثابت کرتا ہے، اُسی طرح حضور رحمتِ عالم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس کے لئے بھی ثابت کرتا ہے۔ یہی قرآن کبھی
مؤمنین کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و اِحترام کی بجا آوری کا
سبق دیتا ہے اور کبھی بعثت سے قبل آپ کی عمرِ مبارک کو دلیلِ توحید بناتا
ہے۔ کبھی اپنے رسول کے درِ عطا پر جھکنے ہی کو اِیمانِ کامِل سے تعبیر کرتا
ہے اور کبھی زبانِ اَقدس سے نکلے ہوئے ہر لفظ کو وحئ اِلٰہی قرار دیتا ہے۔
کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ حق پرست پر کی جانے والی بیعت کو
بیعتِ اِلٰہی گردانتا ہے تو، کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پتھر
مارنے کو اپنی ذات کی طرف منسوب کرتا ہے کہ اَے محبوب! یہ پتھر آپ نے نہیں
ہم نے مارے تھے۔ قرآن ہر لحظہ چراغِ مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
جلائے رکھتا ہے۔ کہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت بیان ہو رہی
ہے اور کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مِثلیت کا تذکرہ ہو رہا ہے،
کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کو رُشد و ہدایت کا دائمی
سرچشمہ قرار دیا جا رہا ہے اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ
مُطہّرہ کو مؤمنوں کے حق میں جان سے بھی بڑھ کر عزیز بتایا جا رہا ہے۔ قرآن
کبھی اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو تمام محبتوں
پر مُقدّم سمجھنے کی نصیحت کرتا ہے اور کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی مجلس میں بیٹھنے والوں کو آدابِ رسالت سے آگاہ کرتا ہے، کبھی اُنہیں
محفلِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بات کرنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ قرآن
کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے دِین کے غلبے کا ذِکر فرماتا
ہے اور کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت میں ہدایت کی ضمانت
دیتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اِطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِنعامِ
اِلٰہی ہے۔ آپ کو کُل جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مَبعوث فرمایا گیا۔ کبھی
ربِّ کائنات کتابِ مُبیں میں فرماتا ہے کہ میں اور میرے فرشتے حضور نبئ
رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درُود بھیجتے ہیں اور پھر اَہلِ اِیمان کو
حکم دیتا ہے کہ تم بھی آقائے رحیم و کریم پر کثرت سے درُود و سلام بھیجا
کرو۔ کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رِفعت اور شانِ رِسالت
کا اِظہار یوں ہوتا ہے کہ اَے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کی رِسالت
تمام عالمِ اِنسانیت کے لئے ہے۔ کبھی یہ مژدۂ جانفزا سنایا جاتا ہے کہ
یامحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کی ہر آنے والی گھڑی پہلی سے بہتر ہو
گی اور ترقئ درجات کا باعث ہو گی۔ قرآن کبھی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے علمِ ماکان و ما یکون کی خبر دیتا ہے۔ یہی قرآن کبھی گنہگاروں کے لئے آپ
کی ذاتِ اَقدس کو پناہ قرار دیتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
سفارش ہی کو اللہ کی معافی کا باعث گردانتا ہے۔ کہیں آپ کی ذاتِ اَقدس کو
چمکتے ہوئے ستارے والنجم کے دِلرُبا لقب سے پکارا جاتا ہے تو کہیں خدائے
ذُوالجلال خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمرِ مُبارک کی قسم کھاتا ہے۔
خالقِ کائنات قرآن میں جب دیگر نبیوں اور رسولوں کا ذِکر کرتا ہے تو اُن کے
اَسمائے گرامی لے کر ندا کرتا ہے مگر جب رسولِ آخر الزّماں صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم سے خِطاب کرتا ہے تو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
مختلف اَلقابات سے یاد کرتا ہے۔ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ
مُقدّس کی قسم کھاتا ہے۔ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اَطہر کی
کیفیّات کو موضوعِ سخن بناتا ہے، کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
حسنِ خُلق کے چرچے فرماتا ہے تو کبھی ساری اُمتوں پر تاجدارِ کائنات صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گواہ اور نگہبان بنانے کی بات کرتا ہے۔ کبھی عالمِ
اَرواح میں اَرواحِ اَنبیاء علیھم السلام کو جمع کر کے ربِّ کائنات اُن سے
اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد و نصرت کا عہد و پیمان لیتا ہے،
کبھی مقامِ محمود پر فائز کئے جانے کا ذکرِ دِلنواز کرتا ہے۔ کبھی آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو توسُّل و شفاعت کا پرچم عطا کرتا ہے اور کبھی آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غیب کے خزانوں کی کُنجیاں عنایت فرماتا ہے۔
قرآن کا یہ اُسلوبِ تحسین دِلکش ہی نہیں عظمت کی بلندیوں کا بھی آئینہ دار
ہے۔
ہر سِمت ہے محامدِ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دَھنک
ربِّ کائنات نے قرآن کے ورق ورق پر نبی آخرالزّماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے محاسن بیان کئے ہیں۔ ہر طرف محامدِ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی دَھنک پُرفشاں ہے۔ قرآن مُعجزاتِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
تذکارِ جمیلہ کی چاندنی سے بھی جگمگا رہا ہے۔ مُعجزاتِ رسول عالمین صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باب میں خود قرآن بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کا ایک دائمی اور اَبدی مُعجزہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ
اَقدس بھی دلیلِِ توحید ہونے کی وجہ سے ایک زِندہ و تابندہ مُعجزہ ہے اور
اس حیاتِ مُقدّسہ کا ایک ایک لمحہ جواز صبحِ نو بہار ہے۔ قرآن جب حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مُعجزۂ مِعراج کا ذِکر کرتا ہے اور عظمتِ مصطفیٰ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پرچم لامکاں کی وُسعتوں میں دِکھائی دیتے ہیں۔
عقلِ اِنسانی تصویرِ حیرت بن جاتی ہے۔ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
لامکاں تک پہنچتے ہیں اور باری تعالیٰ کا بے حجاب دِیدار کرتے ہیں۔
اِنعامات و اِکرامات کے ساتھ واپس لوٹتے ہیں۔ کہیں قرآن حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے شقِ صدر کے مُعجزے کا ذِکر کرتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اُمیّت بھی آپ کا مُعجزہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے کفار و مُشرکین کی طرف
سے اپنی پناہ میں لے لیا۔ جنّات کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ
اَقدس پر اِسلام قبول کرنا اور غزوۂ بدر میں فرشتوں کا قِطار اندر قِطار
اُترنا بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مُعجزاتِ جلیلہ میں سے ہے۔
واقعہ معراج کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب جبرائیل سے
پوچھا اے جبرائیل اس حیرت شدہ واقعہ کی تصدیق کون کرے گا تو حضرت جبرائیل
نے جواب دیا کہ حضور سب اس واقعہ کی تکذیب کریں گے لیکن ایک ہی شخص ہے جو
اس کی تصدیق کرے گا اور وہ ہے آپ کا جانشین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
عنہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ جواب سن کر بے حد خوشی ہوئیجس کو الفاظ
میں پرونا مشکل ہے ( بخاری )
|