روس دنیا کا سرد ترین ملک مگر وہاں کرونا وائرس نہیں۔
ترکی بھی سرد ملک ہے اور ایران کا پڑوسی مگر وہاں کرونا نہیں۔
افغانستان ایران کا پڑوسی مگر وہاں کرونا نہیں۔
دبئی ایران کا قریبی ملک مگر وہاں کرونا نہیں۔
عرب کے دیگر ممالک میں کرونا وائرس سے کسی کے مرنے کی خبر نہیں۔
یہ کرونا وائرس امریکہ،اسرائیل اور برطانیہ کو چھوڑ کر آخر یورپی یونین اور
اس کے ممالک چین،اٹلی،اسپین اور ایران و پاکستان میں کیسے پہنچ آیا۔؟
ان ممالک میں کرونا وائرس کیوں آیا اس کے پیچھے جو سازش اور خفیہ منصوبہ ہے
وہ آپ کی آنکھوں کو حیرت سے کھول دے گا۔
چین اس وقت دنیا کا معاشی ریچھ بنتا جا رہا تھا اور امریکہ نے متعدد بار
چین کو روکنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔
امریکہ اس پوزیشن میں بھی نہیں تھا کہ وہ چین سے جنگ کر سکے لہذا اس نے
افغانستان سے نکلتے ہی دنیا کی توجہ کرونا وائرس کی طرف کرا دی۔
طالبان سے امن معائدہ ہونے کی دیر تھی کہ چین میں کرونا وائرس کی خبر دنیا
بھر میں پھیل گئی۔
چین کو معاشی سپر پاور بننے سے روکنا تھا اور اس کام کے لیے امریکہ اکیلا
کافی نہیں تھا۔
امریکہ نے چین کی معیشت کو کنگال کرنے کے لیے اپنے ساتھ برطانیہ اور
اسرائیل کو ساتھ ملا لیا۔طے شدہ پلان کے مطابق کرونا وائرس کو چین کے شہر
"ووہان" میں دو ماہ قبل ملٹری مشقوں کے دوران چھوڑا گیا۔امریکی فوج کے واپس
جاتے ہی ووہان شہر میں کرونا وائرس کی وبا نے سر اٹھا لیا۔
شروع میں چینی حکام کو اس بات کی سمجھ نہ آئی کہ وائرس آخر پھیلا کہاں سے۔
وائرس سے متعلق چین نے خبروں کو روکنے کی کوشش کی مگر بات اس وقت تک اس کی
پہنچ سے بہت دور نکل چکی تھی اور یہ معاملہ امریکہ کے زیر اثر میڈیا نے
دنیا بھر میں اچھال دیا۔
امریکہ کا پہلا نشانہ کامیاب ہوا اور وائرس نے چین اور چینیوں کو دنیا بھر
میں مشکوک اور اچھوت بنا ڈالا۔
وائرس چین سے نکل کر اٹلی،اسپین،فرانس،جرمنی،
ایران تک جا پہنچا۔جب ان ممالک میں ہلاکتوں کی خبریں آنا شروع ہوئی تو
امریکہ نے آئی ایم ایف،ورلڈ بنک،عالمی ادارہ صحت کے سربراہان کو خفیہ
پیغامات کے ذریعے ان ممالک کو امداد دینے کے اعلانات کرنے کا کہا۔
برطانیہ نے بھی امداد کا اعلان کر دیا اور امداد کا اعلان سنتے ہی وہ ممالک
بھی متاثر ہونا شروع ہو گئے جہاں ایک بھی کیس رجسٹرڈ نہ ہوا۔
برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلتے ہی امریکہ نے اس کیطرف ہاتھ بڑھایا اور
کہا کہ مل کر دنیا پر حکومت کرتے ہیں۔برطانیہ سے تعلقات کا اندازہ اس بات
سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے یورپی یونین کے افراد پر بھی امریکہ میں
داخلے پر پابندی عائد کر دی جبکہ برطانیہ سے کہا کہ اس کے شہری امریکہ
آسکتے ہیں۔
2019 کے آخر تک اعداد و شمار کے مطابق چین دنیا کے 124 ممالک کے ساتھ
تجارتی طور پر منسلک ہو چکا تھا اور اس کی بنائی ہوئی چیزیں ان 124 ممالک
تک پہنچ رہی تھیں جبکہ 2019 کے آخر میں امریکہ کا تجارتی رابطہ صرف 56
ممالک تک محدود تھا۔
امریکہ بلیک فرائیڈے اور سائبر منڈے کے نام پر شاپنگ کی مد میں ایک دن میں
5.8 بلین ڈالر کما رہا تھا جبکہ چین صرف ایک دن میں 14.3 بلین ڈالرز مالیت
کی اشیا فروخت کردیتا تھا اور چین کی یہی ترقی امریکہ کے پیٹ میں مسلسل
مروڑ پیدا کر رہی تھی۔
چین کی راہ روکنے کے یے امریکہ،برطانیہ اور اسرائیل دنیا کا معاشی سپر پاور
بننے کا منصوبہ شروع کرچکے ہیں اور اس منصوبے کے مطابق پہلے انہوں نے چین
کو نشانہ بنایا اور پھر ان ممالک کو ٹارگٹ کیا جن کے چین کے ساتھ بڑے
پیمانے پر معاشی تعلقات تھے۔یورپ کے بڑے ممالک میں چینی مصنوعات نے اپنا
اڈہ قائم کر لیا تھا۔نہ صرف یورپ بلکہ مڈل ایسٹ،عرب ممالک اور پاکستان تک
چین نے تجارتی رسائی حاصل کر لی تھی۔
یہ ساری صورتحال امریکہ کو کسی صورت قبول نہیں تھی کہ چین معیشت میں اس سے
آگے نکلے۔
اب حالات یہ ہیں کہ امریکہ نے ساری دنیا کو امداد کا لالچ دے کر وائرس زدہ
بنا ڈالا اور خود آج دعائیہ تقریبات کا دن منانے کا اعلان کر دیا۔
امریکہ نے چین کو ننگا کرنے کے لیے میڈیا کا سہارا لیا اور دنیا کو بتایا
کہ چین سے کچھ بھی نہیں لینا ورنہ وائرس سے مر جاو گے۔
اب دنیا کا ہر ملک ہر شہری چین سے ایک پیسے کی بھی چیز لینے کا نہیں سوچ
رہا بھلے وہ مفت ہی کیوں نے ملے۔
ایران چونکہ پہلے سے ہی امریکہ اور اسرائیل کے نشانے پر تھا تو اس کو مزید
کمزور کرنے کے لیے اس وائرس کا سہارا لیا گیا۔
اب آگے پاکستان بچتا تھا جہاں چین کی کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری چل رہی
ہے۔حکومت نے آو دیکھا نہ تاؤ اور پورے پاکستان کو بند کر دیا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا تمام تر دار و مدار چینی مصنوعات پر تھا اور وہ آنا
بند ہو گئیں اور جو کاروبار چین کی مصنوعات پر چل رہا تھا وہ ٹھپ ہو کر دہ
گیا۔
وائرس کی افواہوں نے نہ صرف چین کو متاثر کیا بلکہ پاکستان میں سی پیک پر
کام کرنے والے افراد،انجینئرز اور کمپنیاں چینیوں سے بھاگنے لگیں۔
دنیا کو سوئی سے لے کر ایٹم بم دینے والے چین کی حالت اب ایسی ہے ہو گئی ہے
کہ وہ دنیا سے ماسک بھیجنے کی درخواست کر رہا ہے اور یہی امریکہ چاہتا تھا
کہ چین ایسی حالت میں آجائے کہ وہ آگے نہ نکل سکے۔
امریکہ نے عراق،افغان اور شام کی جنگ میں کھربوں ڈالر ضائع کئے ہیں اور
کہیں بھی کامیابی نہیں ہو پائی۔لگاتار جنگوں کے بعد امریکی اس نتیجے پر
پہنچے تھے کہ اب ایسی جنگ لڑی جائے جس میں ایک بھی امریکی فوجی نہ مرے اور
دنیا پر ہم راج بھی کریں۔
آج امریکہ افغانستان سے بھی نکل چکا،عراق میں بھی چند سو فوجی ہیں اور شام
میں چند درجن۔
سالوں سے لڑی جانے والی ان جنگوں کا نقصان امریکہ کو کسی طرح پورا کرنا تھا
اور یہ خسارہ پورا کرنے کے لیے اسے تجارت کا سہارا لینا تھا لیکن چین اس کے
آگے پہاڑ کی طرح کھڑا تھا اور یہاں پر چین سے جنگ اسلحے سے نہیں بلکہ دماغ
سے لڑنی تھی اور بالآخر
امریکہ،چین سے لڑے بغیر ہی اپنی جنگ جیت گیا اور اس نےمحض ایک مہینے میں ہی
چین جیسے معاشی ریچھ کو پاوں کے بل بٹھا دیا۔
اب منصوبے کے مطابق آنے والے دنوں میں امریکہ،اسرائیل اور برطانیہ دنیا میں
اپنی مصنوعات کو بیچیں گے اور چین جب تک اپنے پاوں پر کھڑا ہوتا تب تک وہ
ان سب کے نیچے لگ چکا ہو گا۔
امریکہ نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ چین کا معاشی گھیراو کیا اور اس سلسلے
میں اس نے سعودی عرب،قطر،کویت جیسے ممالک کو بھی استعمال کرتے ہوئے ڈرایا
کہ کسی کو اپنی طرف نہ آنے دو ورنہ مارے جاو گے اور حال یہ ہے کہ خانہ کعبہ
شریف تک بند کر دیا گیا۔
یہ وائرس شاید اتنا خطرناک نہ ہو مگر اس وائرس کی آڑ میں چین کے خلاف جو
پروپیگنڈہ کر کے چین کو گندہ کیا گیا وہ وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ترین
ثابت ہوا ہے۔
یہ صورتحال ایسے ہی ہے کہ کسی گاوں میں اگر کسی عورت کے ساتھ زیادتی ہو
جائے تو پورے گاوں سے خبر نکل کر دس دیہاتوں تک پہنچ جاتی اور نتیجہ یہ
نکلتا کہ وہ عورت نہ گھر کہ رہتی اور نہ گھاٹ کی۔
یہی حال امریکہ نے چین کے ساتھ کیا ہے اب چین کی موجودہ حالت بالکل اس عورت
کی طرح ہے جس سے دنیا کا ہر ملک بھاگ رہا کہ یہ مجھے بدنام نہ کر دے۔حتی کہ
چین کا قریبی دوست پاکستان بھی منہ چھپا کر ایک سائیڈ پر ہو گیا کہ بھائی
دور رہو حالات نازک ہیں۔
پاکستان کو چاہیے کہ اس مشکل وقت میں چین کہ مدد کرے اور ملک بھر میں وائرس
کے نام پر جو افراتفری پھیلائی ہوئی اس کو نارمل لا کر مشکل وقت میں چین کی
تجارت سے خود بھی فائدہ اٹھائے اور چین کو حوصلہ بھی دے۔
کیونکہ چینی وہ قوم ہے جو ہر چیز کا توڑ نکال لیتی ہے اور آج نہ سہی کل تک
وائرس کا حل نکال لے گی اور مشکل وقت میں ساتھ دینے والوں کو وہ پھر ہمیشہ
یاد رکھیں گے۔
اللہ پاک برے وقت سے بچائے کہ پاکستان میں اس وقت تک کرونا وائرس سے کسی
ایک شخص کی موت تک نہیں ہوئی اور افراتفری اتنی پھیلا دی کہ چین والے خود
حیران ہیں۔
تھر میں بچے بھوکے مرتے رہے پر وزیراعلی نے ایسی پھرتی کبھی نہیں
دکھائی۔صرف لاڑکانہ میں سڑکوں کے نام پر 80 ارب ڈکارنے والی پیپلز پارٹی
اسکول کالج بند کرا کے وزیراعلی سندھ کو اکیس توپوں کی سلامیاں دے رہی ہے
اور ہم خوش ہو رہے کہ واہ کرونا کے خلاف بس،ایک ہی وزیراعلی کام کر رہا۔
50 ارب ڈالر کی امداد کا سن کر ہمارے منہ میں بھی پانی آگیا ہے لیکن ہمیں
معلوم نہیں کہ یہ امداد دراصل اس امریکی اور اسرائیلی منصوبے کا حصہ ہے جو
چین کو دیوار سے لگانے کے لیے بنایا گیا اور ہم اتنے سادے کہ کہا چلو 50
ارب تو آرہے۔
کوئی امریکہ،برطانیہ اور آئی ایم ایف سے پوچھے کہ امداد کا حقدار تو چین ہے
اس کو کیوں نہیں دے رہے۔۔۔؟
آپ دنیا کو دکھانے کے لیے بندر کی طرح بھلے ایک درخت سے دوسرے درخت تک
چھلانگیں لگائیں مگر
ہمیں امریکہ کی امداد اور اپنے دوست چین کے درمیان تعلقات میں فرق ضرور
رکھنا ہو گا۔۔
|