سعودی شاہی حکومت پر یوں تو عالمی سطح پر ہر ایک کی نظریں
ہیں، معاشی اعتبار سے مضبوط و مستحکم ہونے کے ناطے بھی اور عالمِ اسلام کا
مرکز ہونے کے ناطے بھی۰۰۰ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی حکومت پر کتنی مضبوط
گرفت ہے اس سلسلہ میں کچھ کہانہیں جاسکتا البتہ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہیکہ
انکے فرزند و ولیعہدشہزادہ محمد بن سلمان کی حکومت پر مضبوط گرفت ہے اور
انکے خلاف کسی بھی قسم کی سازش یا افواہ کی اجازت نہیں اور کسی جانب سے
افواہ یا سازش کا ذرا سا بھی شائبہ دکھائی دے تو پھر اسکے خلاف سخت سے سخت
کارروائی ہوسکتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ملک میں فی الحال امن و آمان دکھائی
دیتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اندرونی طور پر شاہی حکومت کے خلاف ،عوام اور
شاہی افرادِ خاندان کے درمیان کس قسم کی رنجشیں، بغاوت اور اختلاف پایا
جاتا ہے۔موجودہ حالات میں شہزادہ محمد بن سلمان عالمی سطح پر انتہائی مضبوط
ترین شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ولیعہد شہزادہ محمد بن
سلمان پھر ایک مرتبہ سرخیوں میں نظرآنے لگے ہیں۔ امریکی جریدے نیویارک
ٹائمز اور وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق سعودی حکومت نے جمعہ6؍ مارچ کو شاہی
خاندان کے تین سینئر اور اہم ترین اراکین کو حراست میں لے لیا ہے۔ جن میں
فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے چھوٹے بھائی شہزادہ احمد بن عبدالعزیز،
سابق ولیعہد و وزیر داخلہ محمد بن نائف اور شاہی خاندان کے ایک اور فرد
شہزادہ نواف بن نائف شامل ہیں۔ واضح رہے کہ سنہ 2017ء میں بھی محمد بن
سلمان کے احکامات پر سعودی شاہی خاندان کے درجنوں اراکین ، وزراء اور
کاروباری شخصیات و دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو گرفتار کرکے رٹز کارلٹن ہوٹل
ریاض میں قید رکھا گیا تھا اور بعد میں انہیں لاکھوں ریال کے عوض چھوڑ دیا
گیا تھا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ21؍ جون2017کو ولیعہد و وزیر داخلہ
شہزادہ محمد بن نائف کو معزول کرکے انکی جگہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن
عبدالعزیز نے اپنے فرزند محمد بن سلمان کو ولیعہد کے عہدے پر فائز کیا ۔
محمد بن سلمان کا ولیعہد کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد درحقیقت انہیں مملکت
کاسربراہ سمجھا جاتا ہے۔ محمد بن نائف کو 2017ء میں معزول کرنے کے بعد
نظربند کردیا گیا تھا ۔ محمد بن سلمان ولیعہد بننے کے بعد سے مختلف تنازعات
کا شکار رہے ہیں۔ سب سے اہم تنازعہ کا شکار اس وقت بنے جب ممتاز سعودی
صحافی جمال خاشقجی کا ترکی کے شہر استنبول میں موجود سعودی سفارت خانے میں
قتل کردیا گیا اور انکی نعش کا معمہ آج تک حل نہ ہوسکا۔ محمد بن سلمان کو
عالمی پذایرائی اس وقت ملی جب انہوں نے قدامت پسند ملک سعودی عرب میں متعدد
اقتصادی اور سماجی اصلاحات کرنے کا عزم کیا اور ویژن 2030کے تحت خواتین کی
ڈرائیونگ پر پابندی کو ہٹا دیا گیا، ملک میں سینماگھروں کا آغاز ، کنسرٹ
پروگرامس، اور ایسے ہی مغربی و یوروپی تہذیب و کلچرل کو اپنانے کیلئے راہیں
فراہم کی گئیں۔ ان مغربی و یوروپی تہذیب کو ملک میں عام کرنے پربعض علماء و
ائمہ سعودی عرب نے شاہی حکومت کواپنی تقاریر اور خطبوں میں تنبیہ کی جس کے
بعد ان ائمہ کرام و علماء کو گرفتار کرکے انکے ساتھ کس قسم کا برتاؤ کیا
گیا اس کی کوئی خبر منظر عام پر نہ آسکی۔ سب سے اہم مکہ مکرمہ کے امام و
خطیب و جج مکہ مکرمہ فضیلت الشیخ شیخ صالح الطالب کو ا گسٹ 2018ء میں عہدہ
سے معزول کردیا گیا اور انہیں گرفتار کرلیا گیا اور اسکے بعد سے آج تک انکی
کوئی خبر منظرعام پر نہیں آئی۔گذشتہ دنوں سعودی عرب میں کورونا وائرس کے
پھیلاؤ کو روکنے کیلئے بھی متعدد اقدامات کئے گئے ان میں سب سے بڑا اقدام
عمرہ پر عارضی پابندی عائد کرنا بھی شامل ہے پہلے تو مقدس ترین شہروں مکہ
مکرمہ اور مدینہ منورہ میں غیر ملکیوں کے داخلے پر پابندی عائدکردی گئی تھی
پھر سعودی مقامی شہریوں اور ملک میں موجود تارکین وطنوں پر بھی یہ پابندی
عائد کردی گئی جس کے بعد عالمی سطح پر شاہی حکومت کے خلاف آوازیں اٹھنے
لگیں۔ مطاف کو کورونا وائرس کے انفکیشن سے بچاؤ کیلئے صفائی کی غرض سے بند
کردینے کی خبریں منظر عام پر آئی تھی اور کسی بھی معتمر کو مطاف اور مسجد
الحرام اور مسجد نبوی ﷺ میں داخلہ سے محروم کردیا گیا تھا۔کورونا وائرس سے
بچاؤ کے لئے انسانوں کو تو روک دیا گیا لیکن ایک وائرل ویڈیو سے صاف دکھائی
دے رہا ہے کہ پرندے جھونڈ کی شکل میں کعبہ اﷲ شریف کا طواف کررہے ہیں۔ ایک
مسلمان کا ایمان اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ اگر اسکا دم حالتِ نماز میں
نکلنے کا کسی نے اندیشہ پیش کیا تو وہ بخوشی اسے قبول کرنے کیلئے تیار
رہے۔اس سے اچھی موت اور کیا ہوسکتی ہے جو حالت نماز میں اپنے خالق و مالک
کے حضور حاضر ہوکر اپنی عارضی حیات کو اس کے سپرد کردے ۔ آج کورونا وائرس
کا خوف اتنا شدید نوعیت اختیار کرتا جارہا ہے کہ کمزور ایمان والے لوگ اﷲ
کے حضور حاضری (نماز)کے دورانیے کو مختصر کررہے ہیں جبکہ ہونا تو یوں چاہیے
تھا کہ اﷲ رب العزت کے حضور حاضر ہوکر عجز و انکساری اور گریہ وزاری کے
ذریعہ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے اور اس بیماری سے
محفوظ رہنے کی دعا مانگتے ۔اسلامی ممالک میں کورونا وائرس ان کمزور ایمان
والوں کے لئے مزید خوفناک شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ اب خطبہ
جمعہ اور نماز جمعہ کو 15منٹ تک محدود کرنے کا احکامات جاری کردیئے گئے
ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ وزیر اسلامی امور ، دعوت و ارشاد ڈاکٹر عبداللطیف
آل شیخ نے کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے احتیاط کے پیش نظر خطبہ جمعہ اور
نماز کے دورانیے کو مختصر کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزارت اسلامی امور کی جانب
سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’لوگوں کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے
نماز اور اقامت کے درمیان وقفے کو بھی کم کرتے ہوئے 10منٹ تک کردیا جائے‘‘۔
یہ ہدایت سعودی عرب کی تمام مساجد کے ذمہ داروں کیلئے دی گئی ہے۔ یہی نہیں
بلکہ مملکت میں پیر اور جمعرات کے روز عام طور پر روزہ رکھا جاتا ہے اس
حوالے سے مساجد میں روزہ داروں کے لئے افطاری کا اہتمام اہل محلہ کی جانب
سے کیا جاتا ہے ، وزارت اسلامی امور نے اس سلسلہ میں بھی ہدایات جاری کرتے
ہوئے اسے وقتی طور پر بند کرنے کے احکامات دیئے ہیں۔ اسکے علاوہ مساجد میں
پانی کے گلاس بھی فوری طور پر ہٹانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ واضح رہے
کہ گذشتہ جمعہ یعنی 6؍ مارچ کو متحدہ عرب امارات میں بھی خطبہ اور نمازِ
جمعہ کے دورانیے کو کم کرکے 15منٹ کردیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ نمازِ
اور خطبے کے دورنیے کو کم کرنے کا مقصد کورونا وائرس سے بچنے کیلئے احتیاطی
تدابیر بتائے جارہے ہیں تاکہ لوگوں کو اس مرض سے محفوظ رکھا جاسکے۔ جس در
سے بیماری میں شفاء ہوسکتی ہے اور جو اپنے بندوں کو ہر مرض سے دور رکھ سکتا
ہے اُسی کے حضور حاضر میں کمی کرنے کی ہدایات یا احکامات ایمان والوں کیلئے
شرمندگی اور رسوائی کا سبب ہے کیونکہ ایک مسلمان کا عقیدہ ہیکہ جب تک اﷲ رب
العزت نہیں چاہتا کوئی بیماری یا تکلیف اس بندہ کو نہیں پہنچ پاتی ۔ کاش
ہمارا ایمان اتنا مضبوط مستحکم ہوتا کہ کفار و مشرکین اسے دیکھ کر ایمان لے
آتے۰۰۰
مطاف میں پابندی کی ایک وجہ بعض ذرائع و تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ بتائی
جارہی ہے کہ شاہی حکومت کے خلاف بغاوت کو کچلنے کیلئے پہلے ہی سے انتظامات
کئے جارہے ہیں ۔ کہا جارہا ہے کہ شاہی حکومت نے حرمین شریفین میں پابندی
عائد کرکے کسی بھی قسم کے احتجاج کو دبانے کیلئے یہ انتظامات کئے ہیں۔ اب
اس میں کس حد تک صداقت ہے یہ وہی جانتے ہیں۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ مملکت ِ
سعودی عرب میں انتشاری کیفیت شاہی خاندان کے علاوہ عام شہریوں میں بھی پائی
جارہی ہے اس کی ایک وجہ گذشتہ ماہ ایک گلوکاروہ و ڈانسر کی جانب سے اپنے آپ
کو مکہ مکرمہ کی پیدائشی بتاتے ہوئے منظر عام پر آئی تھی جس کے بعد سعودی
عوام خصوصاً مکہ مکرمہ کے شہریوں کی جانب سے اسکے خلاف سخت رویہ اختیار
کرتے ہوئے سوشل میڈیا پراس کے خلاف سخت ردّعمل کا اظہار کیا گیا اور پھر
گورنر مکہ مکرمہ نے فوراً اس ڈانسر کے خلاف کارروائی کی۔ اسی طرح مملکت میں
دینی ماحول خصوصاً نمازوں کے اوقات میں کاروباری ادارے بند کردیئے جاتے تھے
اور کوئی مسلمان نماز کے اوقات میں باہر دکھائی دیں تو اسے حراست میں لے
لیا جاتا تھا ، لیکن کہا جاتا ہے کہ موجودہ ولیعہد محمد بن سلمان نے اس
پابندی کو اٹھادیا ہے جس کی وجہ سے اب وہ سختی نہیں رہی اور نہ گرفتاریاں
عمل میں لائی جارہی ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ ولیعہد محمد بن سلمان کے چاہنے
والوں کی مملکت میں کمی نہیں ہے۔ خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت، کاروباری
اداروں اور مختلف شعبہ ہائے حیات میں خواتین پر سے پابندی اٹھاکر انہیں
چھوٹ دی گئی ۔ اور اسی طرح کئی طرح کی پابندیاں جو خواتین پر عائد تھیں
انہیں ختم کردیا گیا جس کی وجہ سے خواتین محمد بن سلمان کو پسند کی نگاہ سے
دیکھتی ہیں۔ اسی طرح سینما گھروں اور کنسرٹ پروگراموں کے انعقاد کی وجہ سے
نوجوان طبقہ اور دیگر شہری جو اسے پسند کرتے ہیں وہ بھی محمد بن سلمان کو
چاہتے ہیں۔ بتایاجارہا ہے کہ شاہی خاندان کے تین سینئر اراکین کے بعد مزید
کئی شاہی خاندان کے افراد کی گرفتاریاں عمل میں آچکی ہیں اب دیکھنا ہیکہ ان
کے خلاف کس قسم کی کارروائی جاتی ہے ۰۰۰
ایک ملک کے دو صدور ۰۰۰ افغانستان میں امن کا قیام کس حد تک ممکن۰۰۰
افغانستان میں قیام امن کیلئے امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ قطر میں
منعقد ہونے والے امن معاہدہ پر دستخط کے بعد سمجھا جارہا تھا کہ ملک میں
حالات پرامن ہوجائیں گے لیکن اتنا جلدی ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ ابھی
معاہدے پر دستخط ہوئے ہی تھے کہ اگلے چند گھنٹوں میں حکومت کی طرف سے
قیدیوں کی رہائی سے انکار کیا گیا اور پھر طالبان نے سخت رویہ اپناتے ہوئے
وارننگ دے دی۔جب حالات بگڑنے لگے تو پھر امریکہ کی مداخلت نے افغان حکمراں
اشرف غنی کو نرم لب و لہجہ اختیا رکرتے ہوئے حالات سے سمجھوتا کرنے پر مائل
کرہی لیا۔
افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ افغان امن معاہدے کے تحت 1500طالبان
قیدیوں کی رہائی کی منظوری دے دی ہے ۔ صدارتی حکم نامے میں تمام قیدیوں کو
’میدانِ جنگ میں واپس نہ آنے کی تحریری ضمانت‘ دینے کا تقاضہ کیا گیا ہے۔
اس رہائی کے بدلے میں طالبان نے بھی اپنی قید میں موجود ایک ہزار افغان
فوجیوں کو حکومت کے حوالے کرنے پر اتفاق کرلیا ہے ۔ واضح رہے کہ امریکہ نے
طالبان کے ساتھ طیپائے معاہدے کے حصہ کے طور پر افغانستان سے اپنے فوجیوں
کو نکالنا شروع کردیا ہے۔صدر اشرف غنی کے حکمنامے کے مطابق روزانہ
100طالبان قیدیوں کو افغان جیلوں سے رہاکیا جائے گا یعنی پندرہ روز میں
1500قیدیوں کی رہائی عمل میں آئے گی۔ جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے کہ
ابتداء میں امریکہ کے ساتھ طے پائے معاہدے کے مطابق افغان حکومت پانچ ہزار
طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکار کیا تھا جس کے جواب میں طالبان نے بھی
دوبارہ حملوں کے آغاز کا اعلان کیا تھا ۔ اور اس اعلان کے بعد چند گھنٹوں
کے اندر ہی طالبان نے افغان فورسز کو نشانہ بناتے ہوئے حملوں کا آغاز کردیا
تھا جس کے جواب میں امریکہ نے بھی طالبان کے ٹھکانوں پر حملے کئے ، لیکن اﷲ
کا شکر ہے کہ اب دونوں جانب سے معاہدے پر عمل آوری کاآغاز ہوچکا ہے اور
امریکہ نے بھی اپنی فوج کا انخلاء شروع کردیا ہے ۔ یہ تمام کارروائیاں
افغان عوام کے لئے خوش آئند اقدام سمجھی جارہی ہے ۔ لیکن دوسری جانب ملک
میں دو صدور کی تقریب حلف برداری نے عالمی سطح پر سب کو حیران کردیا ہے کہ
ایک ملک میں دو صدور کی حکومت کس طرح چل سکتی ہے اب دیکھنا ہیکہ الیکن
کمیشن کی جانب سے معمولی اکثریت سے کامیاب قرار دیئے گئے صدر اشرف غنی کی
اپنے اقتدار پر باگ ڈور مضبوط ہوتی ہے یا نہیں ۔ اور دوسرے حلف لینے والے
صدر عبداﷲ عبداﷲ جوگذشتہ حکومت میں بھی ایسے حالات کے بعد امریکہ کی مداخلت
سے چیف ایگزیکیٹیو آفیسر کی حیثیت سے فرائض منصبی انجام دیتے رہے اور
ہوسکتا ہیکہ اس مرتبہ بھی حالات کے پیشِ نظر وہ صدر اشرف غنی کے ساتھ
مفاہمت کرلیں گے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے
وائٹ ہاؤس میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہیکہ افغانستان سے
امریکی فوج کے انخلا کے بعدطالبان افغان حکومت کو گراکر خود اقتدار پر مسلط
ہوسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہیکہ تو ملک میں حالات انتہائی کشیدہ ہوجائیں گے
یہی وجہ سمجھی جارہی ہے کہ اشرف غنی اور عبداﷲ عبداﷲ کے درمیان سمجھوتا
ہوجائے گااور دونوں ملکر حکومت کے انتظامات انجام دیں گے۔ سنہ 2001ء میں
افغانستان میں شروع ہونے والی جنگ میں اب تک عالمی اتحادی افواج کے
3500فوجی مارے جانے کی خبریں ہیں جبکہ اس جنگ میں ہلاک ہونے والے افغان
شہریوں ، جنگجوؤں اور حکومتی افواج کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔
البتہ اقوام متحدہ نے فروری 2019میں ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہیکہ اس جنگ
میں 32ہزار سے زائد شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ افغانستان میں اگر حالات پھر سے
ایک مرتبہ کشیدہ ہوتے ہیں تو اس کے نتائج صرف افغانیوں کے لئے ہی نہیں بلکہ
پڑوسی ممالک ہندوستان، پاکستان اور دیگر ممالک پر بھی پڑسکتے ہیں۔
****
|