زندگی کی پچاس سے زیادہ بہاریں اور خزائیں دیکھنے کے
بعد، اور دنیا کی ہزاروں سالہ تاریخ کا سرسری مطالعہ کرنے کے بعد جب موجودہ
حالات پر نظر جاتی ہے تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جو کچھ
’کرونا وائرس‘ نے دنیا کے ساتھ کیا ہے وہ کسی چیز ، واقعہ یا شخص سے نہیں
ہو سکا۔ مذاہب نے دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی طرف مائل کر نا چا ہا لیکن کچھ
لوگ ہی متاثر ہو سکے۔ جو لوگ مذاہب کے دائروں میں شامل ہوئے ، ان کی ایک
اقلیت ہی ان مذاہب پر عمل پیرا ہے، جب کہ اکثریت اپنی من مانی کرنے اور
اپنے انداز کی زندگی گزانے پر ہی لگی ہو ئی ہے۔ یا ایک بڑی اکثریت بظاہر
مذہبی ہے اور اندورنی طور پر وہ مذاہب کی سپرٹ کے خلاف ہی چل رہی ہے۔
دنیا میں مذاہب کے نام پر بڑے بڑے کارنامے وقوع میں آئے: جنگیں ،
ہجرتیں،ماڑ دھاڑ، قتل وخون ، آبرو ریزی، گھر جلانا جیسے بے شمار واقعات
دنیا میں کہیں نہ کہیں ہوتے ہی رہے ہیں۔ انڈیا میں تو یہ افعالِ بد ابھی تک
جاری ہیں اور کبھی کبھی یورپ جیسے مہذب خطوں سے بھی مذاہب کے تعصبات پر
مبنی کاروایوں کی دل خراش خبریں آ جاتی ہیں اور دل سوچنے پے مجبور ہو جاتا
ہے کہ ان باتوں کا مستقبل میں کیا ہونے جا رہا ہے۔
دنیا میں دوعظیم جنگیں ہوئیں اور ان جنگوں نے دنیا کو تباہ کر کے رکھ دیا ۔
بے شمار لوگ برباد ہوئے، گھر مسمار ہوئے، عمارتیں بلبے کا ڈھیر بنیں۔ لا
تعداد جانیں لقمہ اجل بن کے موت کے منہ میں چلی گئیں۔ بے شمارمعصوم جذبات
جنگوں کی آگ میں جھلس کر راکھ کا ڈھیر ہو گئے۔ اور پھر دنیا کے تمام ممالک
نے تباہی وبربادی سے تھک جانے کے بعد جنگیں نہ لڑنے کا سوچا اور بھاگ کر
اقوامِ متحدہ کی چھت کے نیچے پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔
دنیا میں سیلابوں، زلزلوں اور طوفانوں نے ہر قسم کی تباہی و بربادی پھیلائی
اور انسانوں میں خوف وہراس پیدا کیا ۔ انسان ان واقعات کودیکھ کر الامان !
الامان! پکارنے پے مجبور ہو ا۔ جنگوں کے مناظر انسان کی توبہ توبہ کرا دی۔
تباہی کے تمام قسم اور انتہائی شدت کے واقعات اپنی جگہ لیکن جو احساس ِخوف
و ہراس کرونا نے ساری دنیا میں پھیلا دیا ہے، خوف وہراس کا اس قسم کا
عالمگیر مظاہر ہ اس سے پہلے کسی چیز سے نہیں ہو سکا ۔ اتفاق کی بات ہے کہ
کرونا وائرس کی شکل بھی ’گلوب نما‘ ہے اور پورے گلوب کو یہ تہس نہس بھی کئے
جا رہا ہے۔ اس کی شکل دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے قدرت نے اسے بنایا ہی
عالمگیر تباہی و بربادی کے لئے ہے جو وہ بڑی آسانی سے کئے جا رہا ہے۔
دنیا بھر میں مذہبی طور پر مسلمان اور عیسائی سب سے بڑی تعداد میں ہیں۔
مسلمانوں کا کعبہ اور عیسائیوں کا ویٹی کن کبھی اپنے ماننے والوں سے خالی
نہیں ہوا۔ لیکن آج کرونا کے خوف کے تحت، یہ دونوں مقامات اپنے عقیدت مندوں
کے ہجوم سے خالی ہیں۔ ان مقامات پر زائرین کاآنا جانا تو جنگوں میں بھی
نہیں رکتا تھا لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے رک گیا ہے۔ یہ کوئی معمولی
واقعات نہیں ہیں۔ دنیا نے وہ مناظر دیکھ لئے ہیں جو اس نے کبھی نہ دیکھے
تھے۔ امریکہ اور یورپ کے بہت سے ملکوں میں سٹوروں پر سے چیزیں غائب ہو گئی
ہیں اور چیزوں کے ڈبل سے بھی زیادہ ریٹ وصول کئے گئے ہیں۔ آسٹریلیا، نیو زی
لینڈ، ایران، پاکستان، بھارت، افغانستان ، سعودی عرب کینیڈا،امریکہ اور
یورپ سب ہی کرونا! ، کرونا! کی صداؤں سے گونج رہے ہیں۔
اس وقت دنیا بھر میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ کرونا سے متاثر ہو چکے ہیں اور
ہلاکتوں کی تعداد بھی سات ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اس وقت کرونا نے دنیا
بھر میں خطرے کی گھنٹیاں نہیں بلکہ ’ ٹَل‘ بجا دیئے ہیں۔ دنیا میں اتنا
بڑا’ لاک ڈاؤن‘ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ تمام ممالک اپنے ہوائی اڈے بند
کر رہے ہیں۔ پاکستان میں صرف لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے ہوائی اڈے
کھلے ہیں باقی بند ہیں۔ امریکہ نے اٹھائیس ممالک کے لوگوں کا اپنے ملک میں
داخلہ منع کر دیا ہے جس میں برطانیہ بھی شامل کر دیا گیا ہے۔دنیا میں اتنا
بڑا آپس کا انقطاع کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔
دنیا کے کچھ ایونٹ بہت اہم ہوتے ہیں اور ان پر کروڑوں بلکہ اربوں روپے خرچ
ہوتے ہیں۔ مثلا اولمپک گیمز۔ لیکن اب اولمپک گیمز جیسا دنیا کا سب سے بڑا
کھیلوں کا ایونٹ یا تو التوا میں چلا جائے گا یا مکمل طور پر اگلے چار
سالوں کے انتظار کا شکار ہو جائے گا۔ دنیا بھر میں اجتماعات پر بندیاں لگا
دی گئی ہیں۔ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے رستوں میں سے ایک رستہ ہاتھ ملانا
بھی ہے۔ دنیا بھر کے لوگ آپس میں ہاتھ ملانے سے گریز کر رہے ہیں۔ یورپ کے
روشن خیال اور ترقی پسند لوگ تو مصافحے کے ساتھ ساتھ بوسوں کا تبادلہ بھی
کر لیتے ہیں اور اسے اپنے آداب میں سے سمجھتے ہیں لیکن اب سب کچھ منع ہو
چکا ہے۔ مسلمان خواتین پر ستم کیا جا رہا تھا کہ وہ نقاب کیوں پہنتی ہیں
لیکن اب دنیا بھر کی گوریاں منہ پر ماسک چڑھانے پر مجبور ہو چکی ہیں۔ کچھ
سال پہلے ڈینگی نے مسلم ترقی پسند خواتین کا لباس مکمل کروایا تھا اور اب
کرونا نے دنیا بھر کے مردو زن کے چہروں پر ماسک چڑھوا دیئے ہیں۔
بلاشبہ یہ وقت اختلافی اور تعصباتی باتوں کا نہیں ہے لیکن ’بائی دی وے‘ بات
کر رہے تھے کہ نقاب اور حجاب کے خلاف تعصبات رکھنے والے اس کرونا کی وجہ سے
وہی کچھ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں جس بات سے وہ خود منع کر رہے تھے۔ بات یہ
تھی یا ہے کہ کسی دوسرے کے مذہب کا مذاق اڑانا اچھی بات نہیں۔
کرونا نے جہاں عام انسانوں کو اپنی گرفت میں لیا ہے وہاں دنیا کی بڑی بڑی
نامور شخصیات کے گرد بھی گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ امریکہ کا صدر جسے دنیا بھر
کا مضبوط ترین آدمی مانا جاتا ہے، اپنے ٹیسٹ کروانے پر مجبور ہو چکا ہے۔
کینیڈا کے وزیرِ اعظم کی اہلیہ ، اسپین کے وزیرِ اعظم کی اہلیہ، آسٹریلیا
کے وزیرِ داخلہ ، ایران کی اہم عہدوں پر فائز شخصیات، اور ان کے علاوہ اور
بھی بہت سی نامور ہستیاں کرونا میں مبتلا ہو کر اپنا علاج کروا رہی ہیں۔
ابھی کل کی خبر کے مطابق برطانیہ میں ایک نومولود کی ہلاکت کرونا کے باعث
ہو چکی ہے۔چین میں کرونا کی صورتِ حال کچھ کچھ بہتر ہو رہی ہے جب کہ یورپ
میں یہ بے قابو ہوتا جا رہا ہے۔
ہلاکتوں کی تعداد اور تیزی میں برق رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کچھ ہفتے
پہلے جہاں تعداد سیکڑوں میں تھی آج ہزاروں میں ہے۔ یورپ میں سب سے زیادہ
اٹلی کرونا سے متاثر ہے جہاں یورپ کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہلاکتیں
(۱۲۶۶)ہوئی ہیں۔ یورپ کے کچھ ممالک میں ہلاکتوں کی آج تک کی تعداد کچھ یوں
ہے:سپین(۱۲۲)،فرانس(۷۹)،جرمنی(۸)۔ان کے علاوہ بھی کئی ممالک میں ہلاکتوں کا
سلسلہ جاری ہے اور اختتام کس نمبر پے ہو ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ایشیا
میں چین میں، جہاں سے یہ وائرس دنیا بھر میں پھیلا ہے ،سب سے زیادہ
ہلاکتیں(۳۱۷۷) ہوئی ہیں ۔ چین کے بعد ایران میں ہلاکتوں کی تعداد(۵۱۴) سارے
ایشیا کے لحاظ سے دوسرے نمبر پے ہے اور ابھی ہو بھی رہی ہیں۔ امریکہ جیسی
عالمی سپر پاور میں ( ۴۱) ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔پاکستان میں آج کی خبر تک
کرونا سے پچاس سے زیادہ لوگ متاثر ہیں۔ پاکستان میں اﷲ کی مہربانی سے ابھی
تک کرونا کی وجہ سے کوئی ہلاکت نوٹ نہیں ہوئی۔
پاکستان میں کرونا ایران سے داخل ہوا ہے۔ ایران میں شیعہ زائرین کی بڑی
تعداد جاتی ہے اور وہاں سے واپسی پر ان کی مناسب جانچ پڑتال نہیں کی گئی،
اس وجہ سے کرونا کا پھیلاؤ ہوا ہے۔ پاکستان کے چین میں پھنسے طلبہ وطالبات
کو پاکستان کی حکومت نے، ان سٹوڈنٹس کے والدین کے گریہ و زاری کرنے کے
باوجود ، پاکستان لانے کا نہیں سوچا اور عدالت سے بھی انہیں کوئی خاطر خواہ
ریلیف نہیں ملا ۔ لیکن ایران سے زائرین کی واپسی پر کوئی روک نہیں لگائی
گئی۔ یہ ایک ہی صورتِ حال کے تناظر میں دو قسم کے رویئے اور فیصلے اپنانے
کی منطق سمجھ سے بالا تر ہے۔ چین میں پھنسے پاکستانی سٹوڈنٹس تو پاکستان
نہیں آئے لیکن کرونا پھر بھی ایران کے رستے پاکستان پہنچ گیا۔
پچھلے دنوں پاکستان کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں ملک بھر کے لئے کچھ بڑے
فیصلے کئے گئے۔ جن میں ائیر پورٹس کا بلاک کرنا، تعلیمی اداروں کو پانچ
اپریل تک بند کرنا، شادی ہالوں پر پابندی لگانا، اجتماعات پر پابندی لگانا،
وغیرہ شامل ہیں۔ سندھ حکومت اس سلسلے میں زیادہ متحرک نظر آ رہی ہے اور
زیادہ کیس بھی کراچی کے علاقے میں ہیں۔ کیوں کہ کراچی پاکستان کا انٹر
نیشنل شہر ہے اور وہاں باہر کے ممالک سے لوگوں کا آنا جانا بھی زیادہ ہے۔
پنجاب حکومت اس سلسلے میں بھی اپنی روایتی سستی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اﷲ کے
فضل سے پنجاب میں کرونا کے کیس بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان میں کرکٹ
کا میلہ یعنی ’پی ایس ایل‘ کے سیمی فائنل اور فائنل کے میچ بغیر تماشائیوں
کے کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
کرونا وائرس نے دنیا بھر کی معیشتوں کو جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ انسان
اپنی بے بسی کا اقرار کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ انسان اس بات پر غور کرنے
پے مجبور ہوا ہے کہ تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود وہ کتنا بے سہارا اور بے
کس ہے۔ جان کے خطرے کے پیشِ نظر معاش کے خطروں کے سائے بھی گہرے اور لمبے
ہوتے جا رہے ہیں۔ دنیا بھر کی سٹاک اکس چینجیں مندی کا شکار ہیں۔ اور ہر
طرف تجارت کے لئے خطرے کی گھینٹیاں زور وشور سے بج رہی ہیں۔ دنیا کا کوئی
ملک امن میں نہیں۔ یہ جنگ شیطان کے خلاف جنگ سے بھی زیادہ مشکل ہو رہی ہے۔
اس میں جان سے جانے کے خطرات بہت زیادہ ہیں۔ اس وقت انسان بمقابلہ قدرت یا
انسان’ ورسسس‘ فطرت ہو گیا ہے۔ انسان فطرت کے خلاف مقابلوں میں بڑی مشکل سے
کامیاب ہوتا رہا ہے۔ انسانی تاریخ میں ایک ایسا دور بھی آیا تھا جب ملیریا
کی بھی دوائی میسر نہ تھی اور جسے ملیریا ہو جاتا وہ لقمہء اجل بن کر ہی
رہتا، کبھی وہ دور بھی تھا جب ٹی بی لا علاج مرض تھا اور ٹی بی کا شکار
یقینی طور پر دنیا سے رخصت ہو جایا کرتا۔ انسان حال ہی میں ایڈز کے مرض سے
بچنے کی احتیاطی تدابیر سوچتا رہا ہے۔ ڈینگی نے ابھی پچھلے سال ہی پاکستان
میں تباہی مچا دی تھی۔اس وقت کرونا پوری انسانیت کے لئے سب سے بڑا چیلنج بن
کر سامنے آیا ہے۔ کچھ ہفتے پہلے کرونا صرف چین کا مسئلہ تھا لیکن اب یہ
دنیا بھر کا، بلا تفریقِ مذہب وملت اور رنگ ونسل ، سب سے بڑا مسئلہ بن چکا
ہے۔ اس نے انسانی تعصبات کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے اور انسان کو کھلا
چیلنج دیا ہے کہ اپنی تمام ترقی کو لے کر میرے مقابلے میں آ جاؤ۔ اور انسان
ابھی اتنا بے بس ہے کہ وہ صرف اپنے دفاع کی فکر کر رہا ہے اور خطرے کی
انتہا یہ ہے کہ کرونا اپنا علاج کرنے والے ڈاکٹروں کو بھی شکار کئے جا رہا
ہے۔ دنیا بھر میں راشن کی شدید کمی ہو جانے کے خطرات منڈلانے لگے ہیں۔اس
لحاظ سے تمام دنیا میں زندگی دہشت کا شکار ہو گئی ہے۔ مستقبل کیا ہو گا کسی
کو کچھ خبر نہیں ہے۔ کرونا کا علاج کب میسر آئے گا ابھی اس معاملے میں کچھ
کہنا قبل از وقت ہی کہا جائے گا۔
کرونا پر کچھ سیاسی تناظر میں بھی بات کی جا سکتی ہے۔ روس مسلسل الزام لگا
رہا ہے کہ کرونا وائرس، امریکہ نے چین کی معاشی ترقی روکنے کے لئے چھوڑا
ہے۔ لیکن امریکہ اس بات سے مسلسل انکاری ہے ۔ظاہر ہے کہ امریکہ اس بات کو
تسلیم تو نہیں کر سکتا کہ اس نے ہی یہ وائرس اپنے کسی خاص مقصد کے لئے
چھوڑا ہے، اور حقیقت کیا ہے، اس کا بھی میرے جیسے عام انسان کو کیسے ادراک
ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ انسان کی آپس میں دشمنی جو تیرو تلوار سے
چل کر کلاشنکو ف تک پہنچی اور پھر کیمیا ئی ہتھیاروں کی بد بو اس میں شامل
ہو گئی اور اب کیمیائی ہتھیاروں سے بات آگے بڑھ کر طبی ہتھیاروں تک جا
پہنچی ہے جن میں کرونا جیسے تباہ کن وائرس سرِ فہرست ہیں۔اس سے اندازہ
لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل کی جنگیں کتنی تباہ کن اور اذیت ناک ہو سکتی
ہیں۔ انسان معاشی جنگ لڑتے لڑتے طبی جنگ میں کود پڑیں گے ، دنیا تو ابھی تک
ایٹم بم کی تباہ کاریوں کے خوف سے باہر نہیں آسکی اور اوپر سے یہ ’وائرس
وار‘ یا’وائرسی جنگ‘ کے بادل چھانے لگے ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ انسان کی ابھی
بہت زیادہ اصلاح درکار ہے۔ ایک دو ممالک کی دشمنی یا مقابلہ بازی کہیں ساری
انسانیت کو نہ لے ڈوبے۔ عالمی طاقتیں اپنی ترقی اور خوشحالی کے لئے کمزور
ممالک کا استحصال تو کرتی ہی رہی ہیں اور لگتا ہے آگے بھی کریں گی۔
اب انسان پہلے سے بھی زیادہ قدرت کے رحم وکرم پر ہے ۔ اور لگتا ہے کہ قدرت
اپنا ’رول پلے‘ کر رہی ہے۔ اور اسی وجہ سے کرونا دنیا بھر کے گلی کوچوں میں
پہنچ چکا ہے۔ کسی ایک ملک کی سیاست اس معاملے میں کچھ بھی نہیں کر سکتی۔
چین اور امریکہ جیسی طاقتیں اس کے آگے کانپ رہی ہیں۔ برطانیہ جیسا عقل مند
ملک بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ آسٹریلیا جیسا صاف ستھرا علاقہ بری طرح اس
کی زد میں ہے اور سعودی عرب جیسا قانونی ملک اس وائرس کی تباہی کاری کا
شکار ہے ۔اس وائرس نے دنیا بھر کے انسانوں کو ایک بار متحد ضرور کر دیا ہے
اس کے بعد وہ چاہے پھر سے ایک دوسرے کا خون چوسنے لگ جائیں۔ ملکوں کی
اندرونی سیاستیں بھی کرونا سے بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہیں اور حکومتیں اور
ان کی اپوزیشنیں آپس میں اتحاد اور اتفاق کی بات کر رہی ہیں۔
کرونا وائرس ایک عجیب غریب وائرس ہے۔یہ جب کسی جسم میں چلا جاتا ہے تو دو
ہفتوں تک اس کے کوئی اثرات نظر نہیں آتے۔ اس کی علامات ، جب نمایاں ہوتی
ہیں تو یہ بہت پھیل چکا ہوتا ہے اور دوسروں تک پہنچ بھی چکا ہوتا ہے۔ یہ
سانس کے ذریعے اور ہاتھ ملانے سے ایک دوسرے میں سرایت کر جاتا ہے۔ اس کی
تباہ کاری یہ ہے کہ سانس کے نظام یعنی پھیپھڑوں پر حملہ کر دیتا ہے اور
انہیں تباہ کر دیتا ہے۔ اس سے بچاؤ کے لئے ہاتھ، منہ ، پاؤں، گلے وغیرہ کو
بار بار صاف اورتازہ پانی سے دھونا چاہیئے۔ زیادہ بہتر ہو گا کہ نیم گرم
پانی کا استعما ل کیا جائے جو کہ بذاتِ خود جراثیم کُش ہوتا ہے۔ نیم گرم
پانی سے ناک صاف کرنا اور گلے کے گرارے کرنا بہت مفید ہے۔
کرونا وائرس کے تناظر میں کچھ لوگ اپنے مذہبی پن کا بھی اظہار کرتے نہیں
تھکتے۔ اور کرونا کو مذہبی طور پرختم کرنے یا اس کا مقابلہ کرنے کا نظریہ
ظاہر کرتے ہیں۔ مذاہب کی تعلیمات اور برکات اور کرامات کا کوئی بھی مذہبی
ذہن رکھنے والا شخص، انکار توکیا، انکارکا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن ہر چیز
ایک ہی انداز میں نہیں لی جا سکتی۔ کسی مذہب نے علاج معالجہ منع نہیں کیا۔
اگرچہ قرآنِ پاک میں بھی شفا ہے لیکن اس کے باوجود ادویات اور ان کا
استعمال جائز اور بعض صورتوں میں ضروری ہے۔ بیماری کے خلاف اور زندگی کے
باقی معاملات کے لحاظ احتیاطیں ضروری قرار دی گئی ہیں۔ مثلاً حدیث پاک میں
فرمایا گیا ہے کہ سونے سے پہلے چراغ اور آگ وغیرہ بجھا کے سویا کریں۔جب
دنیا کے عام معاملات طبعی اور طبی اصولوں کے مطابق ہیں اور کرامات اﷲ کے
خاص بندوں سے منسلک ہیں یا جب اﷲ کی ذات چاہے ۔ لیکن عام انسانوں کو
احتیاطوں کے دائروں میں ہی رہنا زیادہ مناسب ہے۔
انہی احتیاطی تدابیر کے تناظر میں مطاف عوام الناس کے لئے بند کر دیا گیا
ہے، انہی تدابیر کے تناظر میں ہاتھ ملانے سے گریز کیا جا سکتا ہے۔ مزارات
پر حاضری روک دی گئی ہے، اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی ہے۔تمام تعلیمی
مدارس، سکول، کالج اور جامعات بند کر دیئے گئے ہیں۔ اور ایسا کسی ایک ملک
میں نہیں بلکہ تمام دنیا کے ممالک نے کیا ہے اور کر بھی رہے ہیں۔
تمام احتیاطی تدابیر کے بعد بھی آخرِ کار اﷲ رب العزت کی بار گاہ میں دست
بدعا ہونے کی ضرورت و اہمیت باقی رہتی ہے کہ وہ ذات ہی اپنی مخلوق کو اپنی
مخلوق کے ظلم اور شر سے بچا سکتی ہے جیسا کہ سورہ فلق میں فرمایا گیا ہے کہ
انسان اﷲ سے اپنی تمام مخلوق کے شر سے محفوظ رہنے کی دعا مانگا کرے۔ وائرس
بھی اﷲ پاک کی خفیہ اور پر اسرار مخلوق ہے اس کے اسرار وہی ذات ہی بہتر
جانتی ہے اس لئے وہ ذات ہمیں اپنی اس مخلوق کے شر سے محفوظ رکھ سکتی ہے
لیکن حفاظتی تدابیر ہم نے ہی کرنی ہیں۔
دعا ہے کہ اﷲ رب العزت اپنے پیارے حبیب حضرت محمد ﷺ کے اور آپؐ کی آل
مبارکؓ کے اور تمام صحابہ کرامؓ کے صدقے اس وائرس کے اثرات سے ہم سب کو
محفوظ رکھے ! تمام دنیا کے افراد اس کے شر سے محفوظ ہو جائیں! اس کی جلد ہی
کوئی ویکسین بن جائے اور موسمی حالات بھی اس وائرس کے خلاف چلے جائیں! دنیا
بھر میں اسلام کی سچائی مزید مستحکم ہو اور دنیا بھر میں اسلام کو غلبہ
حاصل ہو اور تمام انسان آپس میں امن وسکون کی زندگی گزاریں! کمزور ممالک کے
استحصال کی سیاست ختم ہو ، سودی نظام اختتام پذیر ہو اور دنیا ایک فلاحی
دنیا کے روپ میں سامنے آئے !ایک دوسرے کا احساس مضبوط ہو اور دنیا میں ہر
طرف امن وآتشی کی ہوائیں چلیں! آمین ! ثم آمین!
|